نُسُک {قربانی}



قرآن مجید میں قربانی کے لئے تین لفظ آئے ہیں۔ ایک "نُسُک" اور دوسرا "نحر" تیسرا "قربانی"۔
قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ سورۃ الکوثر میں فرماتے ہیں:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ۔ (الكوثر:2)
(پس تم اپنے ربّ ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔)
دوسری جگہ اللّٰہ کا فرمان ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَكًا لِّيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ ؕ
ہر اُمّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اُس اُمّت کے) لوگ اُن جانوروں پر اللّٰہ کا نام لیں جو اُس نے ان کو بخشے ہیں۔ (سورۃ الحج: 34)
ایک اور جگہ اللّٰہ ربّ العالمین کا ارشاد ہے:
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَمَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ۔ (سورۃ الأنعام :162)
(کہو، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللّٰہ رب العالمین کے لیے ہے۔)
قربانی کے لئے قرآن کریم میں لفظ "نُسُک" کا استعمال ہوا ہے، حالانکہ متعدد مقامات پر مختلف معنی میں لفظِ نُسُک کا استعمال ہوا ہے، مثلاً کہیں عبادت، کہیں اطاعت اور کہیں قربانی۔ چونکہ نُسُک معنی زیادہ تر قربانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ امام راغب اصفہانی لفظ نُسُک کے ضمن میں رقم طراز ہیں: ''النُسُیکة'' ''ذبیحہ'' کے لیے خاص ہے۔
قرآن کریم کی رو سے ہر وہ جانور جو اللّٰہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جائے وہ ”نُسُک“ کہلاتا ہے۔ اسی لئے اللّٰہ کے نزدیک قربانی جیسی عظیم و اہم عبادت مذموم و معیوب نہیں، بلکہ محمود و مطلوب اور مکرم ہے۔ جب کہ قربانی کا فلسفہ انسان کی ابتداء سے ہی شروع کیا گیا ہے۔ قربانی اسلامی شعائر کے ساتھ ساتھ، سنت اِبراہیمی کی یادگار ہے۔ قربانی کا فریضہ انجام دینا حکم ربانی ہے۔ ؏
وقت کے ستمگر سے، بد مزاج آذر سے
لہجہء خلیلی میں بولنا ہے قربانی
اک طرف براہیمی، ایک سمت نمرودی
پھر حجاز کا صحرا مانگتا ہے قربانی
(سرفراز بزمی)
ہابیل نے مینڈھے اور قابیل نے غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔ دنیائے انسانیت کی تاریخ میں حلال جانور کو بہ نیتِ تقرب الٰہی ذبح یا قربان کرنا اس پہلی قربانی سے روایت ملی۔ یہ سب سے پہلی قربانی کی مثال قائم کی گئی۔
حضرت علیؓ مرتضیٰ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر و ثواب کی اُمید رَکھو، اِس لیے کہ (اُن کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے، لیکن وہ اللّٰہ کے حفظ و امان میں چلا جاتا ہے۔
قربانی تمام قدیمی مذاہب میں تقرب الٰہی کا سب سے اہم ذریعہ تھا۔ یہودی اور عیسائی شریعتوں میں بھی ذبیحہ و قربانی کے احکامات اور مسائل موجود ہیں۔ قربانی کا تصور و فلسفہ اور گوشت خوری کا مسئلہ صرف اسلام ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر تمام بڑے مذاہب، عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت، سکھ مت اور پارسی وغیرہ میں بھی پایا جاتا ہے۔
آج کچھ آزاد خیال لبرل اور باطل قوتیں قربانی جیسی اہم عبادت کو ظلم و بے رحمی، تشدد اور خون ریزی سے تعبیر کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ جہاں تک بات ہے تشدد کی تو یہ بھی کسی پراپیگنڈا سے کم نہیں۔ لائیو اسٹاک کے ذبیحہ کی تجارت میں ملوث افراد کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ کتنے قتل و غارتگری میں ملوث ہیں۔ اس منطق کے تحت تو طبیب و جراح، ڈاکٹرز کو بھی پھر متشدد ہونا چاہئے۔ گوتم بدھ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اہنسا کے ہمنوا تھے حالانکہ دونوں کی غذا میں گوشت خوری شامل تھی، اس کے برعکس خونخوار و بے رحم ایڈولف ہٹلر کٹر سبزی خور تھا۔
ہمیں معلوم ہے کہ جس طرح اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ صحت کا دار و مدار غذا پر ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ نباتات و پودوں میں کاربوہائیڈریٹس اور فائیبرز ہوتے ہیں۔ جن میں ریشے (fibers) زیادہ اور توانائی (energy) کم ہوتی ہے۔ زیادہ توانائی کے حصول کے لیے خوراکی کی مقدار بہت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ دوسرا اتنی بڑی مقدار کو محفوظ کرنے کے لیے جسم میں نظام انہضام کا بڑا حجم بھی درکار ہوتا ہے۔ دوسری جانب گوشت کی تھوڑی مقدار میں زیادہ توانائی دستیاب ہوتی ہے۔ جس کو ہضم کرنے کے لیے چھوٹے معدے سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔
گوشت خوری پر مختلف اقسام کے غیر اخلاقی اعتراض اٹھانے والے آج کے سائنسی دور میں خود سوالوں کے گھیرے میں پھنس گئے ہیں، کیونکہ جدید بائیو سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ گوشت خوری صحت کے لئے مفید ہے۔ نباتات و پودوں یا سبزی خوری کرنے والوں کے لئے یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ پیڑ پودوں میں بھی جان ہوتی ہے اور وہ کاٹے جانے کا احساس کرتے ہیں۔
یورپی ممالک کے کاشتکاروں نے ایسا آلہ device ایجاد کیا ہے جو نباتات کی حس کو فریکوئینسی میں تبدیل کرتا ہے۔ ہندوستان کے مشہور سائنسداں آچاریہ جگدیش چندر بوس کی ہی تحقیق کے مطابق نباتات بھی حس و شعور اور حیات رکھتے ہیں۔ دیگر جدید محققین نے بھی اپنی ریسرچ اور تحقیق کے ذریعہ یہ ثابت کیا ہے کہ نباتات بھی خوشی اور غم کا احساس کرتے ہیں۔ جن کو علم نباتات میں Sensitive Plant کا نام دیا گیا ہے۔
ہمارے ملک کی قدیم مذہبی کتابوں میں بھی جانوروں کی قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم بھارت میں اور ویدک دور میں گائے کا گوشت کھایا جاتا تھا اور دیوتاﺅں کے سامنے اسے قربانی کے طور پر بھی پیش کیا جاتا تھا۔ جس کی روایات آج بھی ہمارے ملک کے کئی علاقوں اور پڑوسی ہندو اکثریتی ملک نیپال میں ملتی ہے۔ ہندومت کی قدیم مذہبی کتب میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ گوشت کھانا کوئی گناہ نہیں ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ہندومت کے عقائد میں تبدیلی آتی گئی۔
جین ازم اور بدھ ازم کے زیر اثر بھارت میں اہنسا کی تحریک شروع ہوئی اور جانوروں کو ذبح کرنے کی مخالفت ہوئی۔ لیکن دونوں کی نوعیت الگ الگ رہی ہیں۔ عدم تشدد کے علمبردار جین ازم میں جیئوہتھیا پاپ (گناہ) قرار دیا گیا۔ مگر جین ازم کے بڑے پیشوا شری ولبھ سوری جین اپنی تصنیف شدہ کتاب "جین ازم" میں صفحہ نمبر 8 سے 11 میں اہنسا کی تشریح کی ہے اس کا مطالعہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ طوالت سے بچنے کے لئے اسے حذف کیا جارہا ہے۔ وہ لوگ جو مہامستکر ابھیشیک اور باہوبلی کی مورتیوں کو لاکھوں لیٹر دودھ سے اشنان کرواتے ہیں، جب کہ اس دودھ کے زیادہ مستحق تو وہ مفلسی و غربت سے پریشان معصوم بچّے ہوتے ہیں جنہیں دودھ کی ایک بوند بھی میسر نہیں ہوپاتی۔
جین ازم کے بعد بات کرتے ہیں بدھ ازم کی، گوتم بدھ اہنسا کے قائل تھے، مگر ساتھ ہی گوشت خوری کے مخالف نہیں تھے۔ گوتم بدھ کے دور میں گوشت خوری میں گئوکُشی کا عام رواج تھا۔ (بھگوان بدھ: 320، دھرمانند کوسمبی)۔ دراصل گوتم بدھ نے گوشت خوری کی مخالفت نہیں کی بلکہ یگیہ میں مویشیوں کے بے تحاشہ استعمال کے خلاف آواز اٹھائی۔ یگیہ ویدک دھرم کے ماننے والوں کی جانب سے ہوتے تھے۔
اسی تحریک کے زیر اثر گائے نے تقدس کا درجہ پایا اور یہ تقدس بڑھ کر عبادت و عقیدت کے مقام تک پہنچ گیا۔ آج اسی عقیدت کے نام سے ملک میں دودھ 80؍روپئے فی لیٹر اور گئومُوتر 250؍روپے لیٹر فروخت ہورہا ہے۔ مغربی بنگال اور ساحلی علاقوں میں بسنے والے برہمنوں میں گوشت خوری کا رواج رہا اور انھیں آج بھی اس سے پرہیز نہیں ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد گوشت، مچھلی وغیرہ کھاتے ہیں۔ لیکن جب بھی گوشت خوری کا ذکر آتا ہے تو برق بیچارے مسلمانوں پر ہی گرائی جاتی ہے۔
آج بھی ہندوستان میں گوشت خوری اور گئوکُشی دونوں سے زیادہ مستفید ہونے والے بیشتر غیرمسلم ہی ہیں۔ دلت، قبائلی، آدیباسی اور بعض دوسری برادریوں کے لوگ صدیوں سے کھلے عام گائے کا گوشت کھاتے آئے ہیں۔ جنوبی بھارتی ریاست کیرالہ میں براہمنوں کو چھوڑ کر باقی اکثریت بڑے جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں۔ تملناڈو میں بھی ایک بڑا طبقہ ہے جو بیف کھاتا ہے۔ پرانے تمل میں بیف کے لیے چار لفظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ وَلّورم، شوشیم، شُتّی راچی اور پدی تھیرم۔ پڑوس میں گوا ہے جہاں عوامی احتجاج کے نتیجے میں بیف پر سے پابندی ہٹائی گئی۔ عقیدت کا یہ دوہرا معیار سمجھ میں نہیں آیا!!!
ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں گئوھتّیا کی ممانعت 'ویدوں'، 'اپنیشد' حتٰی کہ ہندو مذہبی قانون کی بنیادی مرقعہ قانون اور مسلمہ ضابطۂ حیات مانی جانے والی 'منوسمریتی' میں بھی موجود نہیں ہے اور نہ ہی گئوماس کھانے ہر کسی گناہ و سزا کا ذکر ہے۔ سارا تنازع 19؍ویں صدی میں شروع ہوا جب آریہ سماج کی تشکیل ہوئی اور سوامی دیانند سرسوتی نے ’گئوركشا‘ کے لیے مہم چلائی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شدت پسند ہندوتوّا تحریک آر ایس ایس کے روحِ رواں ونائیک دامودر ساورکر ہمہ قسم کے گوشت خور تھےـ "ساورکر نے اپنی کتاب میں ذکر کیا تھا کہ ہندو مذہب اور ہندوتوا میں کوئی تعلق نہیں ہے، اور یہ کہ گائے ایک ایسا جانور ہے جو اپنے مال (گندگی) میں گھومتا ہے، تو وہ ہماری 'ماتا' (ماں) کیسے ہوسکتی ہے؟ بیف کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے"، اس بات کا اظہار ملک کے ایک بڑے سیاسی لیڈر دگ وجئے سنگھ نے بھوپال میں جن جاگرن ابھیان پروگرام میں کیا تھا۔ ملک کے بڑے اخبار نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں ہندوتوا کے نظریہ ساز ساورکر کے الفاظ کوڈ کئے گئے۔ "اگر ہندو پرانوں نے گائے کے بارے میں بات کی ہے، تو انہوں نے (بھگوان وشنو کے) وراہ اوتار کی شکل میں سور کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ پھر کیوں نہ گاؤ رکھشکوں کی طرز پر خنزیر کے تحفظ کے گروپ قائم کیے جائیں"۔
(National Herald - 21 Oct 2019.)
ملک کے بڑے لیڈران جن میں پنڈت جواہر لال نہرو کا بھی شمار ہوتا ہے، گوشت خور تھے۔ لوگوں میں یہ غلط تاثر ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ یہ بالکل ہی بے بنیاد خیال ہے، کیونکہ اس کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔
اگر ہم قدیم سبھیتا کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ عہد گپت سے قبل گائے کی قربانی مخصوص تقریب کا حصہ ہوتی تھی۔ مشہور تاریخ دان ڈی این جھا کہ مطابق قدیم بھارت میں یہ بھی رواج تھا کہ اگر مہمان آجائے یا کوئی خاص شخص آجائے تو اس کے استقبال میں گائے کو ذبحہ کیا جاتا تھا۔ شادی بیاہ کے رسم میں یا پھر دیگر تقریبات کے وقت بھی گائے کا گوشت کھلانے کا رواج عام ہوا کرتا تھا۔ یہ عہد گپت (تقریبا 550- 320 عیسوی) سے پہلے کی بات ہے۔
ان حقائق کے بعد بھی گئوھتّیا کے نام پر صرف مسلمانوں کو ہی مورد الزام کیوں ٹہرایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام و موب لینچینگ کے واقعات میں آئے دن کیوں اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کے ایک بڑے لیڈر ششی تھروُر کے مطابق "ہندوستان میں گائے کا جیوّن ایک مسلمان سے ذیادہ محفوظ و محترم ہے"۔ اس کا ثبوت مندرجہ ذیل قتل و غارتگری کے واقعات ہیں۔ گزشتہ سالوں میں اقلیتی طبقہ بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کے واقعات میں برق رفتاری سے اضافہ ہوا ہے۔
اکبر خان کو گئوھتّیا کی پاداش میں بے رحمی سے پیٹھ کر قتل کیا گیا۔ قانون کے رکھوالوں نے اکبر خان کو تین گھنٹے بعد دواخانہ لے گئے، جہاں پہنچنے سے پہلے ہی وہ زندگی اور موت کی جنگ ہار گیا۔ مانوتہ کے رکھوالوں نے پہلے گائے کو گئوشالہ چھوڑا بعد میں مرتے ہوئے انسان کو لے گئے۔ 2016ء میں گئورکھشک بلوائیوں نے ایک مسلمان تاجر اور 12؍سالہ بچے کو تشدد کا نشانہ بناکر ہلاک کردیا۔
دادری گاؤں کے اخلاق اور اس کے رشتے دار کو افواہ کی بنیاد پر بہیمانہ قتل کردیا گیا۔ دو بھائیوں اور ایک خاتون پر گوشت لیجانے کے شبہ میں وحشیانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گائے سمگلنگ کے شُبے میں پہلُو خان کو بے دردی سے دن کی روشنی میں سڑک پر قتل کیا گیا۔ تمام واقعات میں خوف و دہشت کو فروغ دینے کے لئے تصاویر و ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کئے گئے۔ 150؍سے زائد انسانیت سوز واقعات گئوکُشی کے نام سے پورے ملک میں نئی سرکار کے راجیہ میں ہوتے رہے ہیں۔ جس میں سو کے قریب جانیں لی گئیں۔ ہندوتوّا وادیوں کے نزدیک دراصل گائے کا تقدُس بہانہ ہے، مسلمان اصل نشانہ ہے۔ یہ سب ایک منصوبہ بند طریقے سے کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمان پورے ملک میں نفسیاتی اور ذہنی طور پر ڈرے اور سہمے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔
ہندوتوّا وادی تحریکات گئوکُشی پر سیاست کا گھناؤنا اور تعفن زدہ کھیل کھیل رہی ہیں اور اس کو بہانہ بنا کر اکثر دنگے فساد کرائے جاتے رہے ہیں۔ ہندوتوّا وادی تحریکات کے لوگ ہر سال عیدالاضحی سے قبل سرگرم ہو جاتے ہیں اور جہاں کہیں بھی کوئی ٹرک مویشیوں سے بھرا ہوا ملتا ہے اسے پکڑ کر مویشیوں کو ادھر ادھر ہانک دیتے ہیں۔ وہ لوگ کئی مقامات پر گئوکُشی کو بہانہ بنا کر اشتعال انگیزی بھی کرتے ہیں اور اس کے خلاف تحریک ان کے ایجنڈے کا خاص حصہ ہے۔
گئوکُشی کے الزام میں گرفتار افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر نیشنل سکیورٹی ایکٹ لگایا جارہا ہے۔ جسے لے کر قانون کے ماہرین میں سخت تشویش پائی جارہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ گئوکُشی کے معاملے میں این ایس اے لگانا سراسر غیر آئینی عمل ہے۔ دوسری جانب پولیس ان جنونی حملہ آوروں کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرتی جبکہ ہندوتوّا وادی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما عوامی تقریروں میں ان حملوں کو جسٹیفائی کرتے ہیں۔ دسمبر 2018ء کو ملک میں نام نہاد گئورکشک نے حملہ کرکے ایک پولیس اہلکار سمیت 2؍افراد کو قتل کیا۔ ہندو قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے سیاسی مفادات کے لیے گئورکھشکوں کے حملوں کا دفاع کیا۔ ایک جائزے کے مطابق گئورکھشک اور ہندو قوم پرست سیاسی جماعتوں کا آپس میں گٹھ جوڑ بھی ہے۔ جس کی وجہ مقامی انتظامیہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت صرف توہمات پر چل رہی ہے، جس کے نتیجے میں دوسرے طبقے کی خوراک و غذا پر قدغن لگانے پر تلی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پولیس ہر حملے کے بعد ابتدائی تفتیش تو شروع کر دیتی ہے مگر قانونی کارروائی آگے نہیں بڑھاتی یا پھر ایسے واقعات پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ بیشتر کیسز میں پولیس ملزمان کو پکڑنے اور تفتیش کرنے کے بجائے متاثرین، ان کے اہل خانہ اور عینی شاہدین کے خلاف ان قوانین کے تحت مقدمات درج کرتی ہے جن کے تحت گائے ذبح کرنے پر پابندی ہے۔
بیف کی دنیا میں برآمد کنندگان سر فہرست 5؍ممالک میں ہندوستان کا نمبر دوسرا تھا۔ جس نے 2016ء میں بیف 1،850،000 میٹرک ٹن برآمد کیا تھا۔
♧ 1 برازیل: 1،850،000
♧ 2 ہندوستان: 1،850،000
♧ 3 آسٹریلیا: 1،385،000
♧ 4 امریکہ: 1،120،000
♧ 5 نیوزی لینڈ: 580،000
2020ء میں دنیا کے ٹاپ 5؍ممالک جو سب سے بڑے پیمانے پر چمڑے تیار کرتے ہیں۔ اوسط سالانہ پیداوار (ملین مربع فٹ) ہے۔ عالمی پیداوار میں ہندوستان کا نمبر چوتھا ہے۔
♧ 1 چین: 6،170،25٪
♧ 2 برازیل: 2،360،9.5٪
♧ 3 روس: 1،652،7٪
♧ 4 ہندوستان: 1،560،6.4٪
♧ 5 اٹلی: 1،521،6.3٪
یہ دونوں حقائق اور اعداد و شمار مرکز میں آئی ہوئی ہندوتوّا وادی سرکار کے وقت کے ہیں۔ اور اس پورے کاروبار میں ملوث فرمز یا کمپنیاں ان لوگوں کے ہیں جو اپنے آپ کو سبزی خور بتاتے ہیں۔ اقتدار میں حکومت کے بڑے فائنانسرز بھی یہی کاروبار میں ملوث کمپنیاں ہیں۔ عالمی سطح پر برآمد کنندگان میں سر فہرست رہنا اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں لقمہ چھین کر غیر ملکیوں کا سیر حاصل پیٹ بھرا جائے۔
زندہ گائے کے پیٹ میں اوزار مارکر اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکال کر اسے کھولتے پانی میں ابال کر اس کا چمڑا نکالا جاتا ہے جسے "کف لیدر" کہا جاتا ہے جو بھاری قیمت میں عالمی منڈیوں میں فروخت ہوتا ہے، اس تجارت میں ملک بھر میں کوئی بھی مسلمان شامل نہیں ہے۔ لیکن کف لیدر سے وابستہ تقریبا 20؍لاکھ سے زائد افراد جڑے ہوئے ہیں جنہیں اس تجارت سے 20؍لاکھ بلین ڈالر سالانہ آمدنی ہوتی ہے۔ ملک میں جو گائے اور اس کی قبیل سے سوادسٹ بناسپتی گھی اور توچا کو ملائم اور خوبصورت رکھنے کے لئے جس صابن کا کاروبار ہوتا ہے وہ کاروبار بھی اعلیٰ طبقہ کہے جانے والے غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہے۔
میں نے بچپن سے لے کر جوانی تک کے لمحات ممبئ کے غیر مسلم معاشرے میں گزارے ہیں، میرے گھر کے سامنے جین دراسر (مندر)، عقب میں کرشنا مندر تھا، جہاں میں نے دیکھا کہ سبزی خوری کے نام پر کئی لوگ صرف انڈے اور چکن کھاتے ہیں۔ جہاں ایسے ہَمَہ خور لوگوں کو دیکھا جو گھر میں سبزی خور ہوتے ہیں اور گھر کے باہر گوشت خور ہوتے ہیں۔ مخصوص یوم میں گوشت خوری اور مخصوص یوم میں سبزی خوری کی جاتی ہے۔ اپنے آپ کو سبزی خور بتانے والوں کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔
آئیں کچھ سروے رپورٹس کے حقائق میں جائزہ لیتے ہیں۔
2003ء میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک نے ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق بھارت میں 42؍فیصد لوگ سبزی خور ہیں اور اس کی معاشی اور مذہبی وجوہات بھی ہیں۔
فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق انڈیا میں 83.4؍فیصد مرد گوشت خور ہیں جب کہ 70.6؍فیصد خواتین گوشت خور ہیں۔ اہم پہلو یہ ہے کہ 2015 -16 میں جو سروے ہوا تھا اس میں گوشت کھانے والے مردوں کا تناسب 78.4 تھا یعنی پانچ سال میں گوشت خور مردوں کی تعداد میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
سینٹر فار داسٹڈی آف ڈیولپمنٹ کے ڈائرکٹر سنجے کمار کا کہنا ہے کہ انڈیا کے بارے میں یہ تصور ہے کہ ہندوستان ایک سبزی خور ملک ہے، لیکن 2015ء کے سروے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستان میں گوشت خور لوگ 60؍فیصد ہیں، جب کہ سبزی خور 35 سے 40 فیصد ہیں۔
غذا و خوراک انسان کے لیے بنیادی و لازمی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں سائنسی تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہوچکا ہے کہ غذا کا اصل اور بنیادی مقصد وہ ہے جس کو ہمارے زمانے میں متوازن غذا (Balanced diet) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس میں کچھ اجزاء پروٹین، وٹامنس، معدنی نمکیات، فائبر، کاربوہائیڈریٹ اور چربی بنیادی طور پر شامل ہوتے ہیں۔ یہ سارے اجزاء ہمیں گوشت خوری سے وافر مقدار اور ایک ساتھ حاصل ہوتے ہیں۔
سبزی خوری کے بھی نقصانات واضح ہو رہے ہیں، امریکہ کی ایک یونیورسٹی مشی گن کی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ سبزی خوری صحت کے لئے مضر ہے۔ آلو، بندگوبھی، ٹماٹر وغیرہ میں وافر مقدار میں نکوٹین پایا جاتا ہے، اور ان سبزیوں کا استعمال کرنے والے غیر تمباکو نوش افراد بھی نکوٹین کا شکار ہو جاتے ہیں۔
13؍ویں صدی کے راجہ سومیشور کے ذریعہ تصنیف کردہ بتائے گئے ’مناسولّا‘ میں کھانوں پر ’اَنّ بھوگ‘ عنوان سے ایک باب میں گوشت خوری کا تذکرہ ہے۔ ویدک مذہبی تعلیمات یعنی ویدوں میں 248 سے زائد مویشیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے، جن میں 50 کو بَلی बली (قربانی، بھین٘ٹ، صدقہ) دینے اور کھانے کے لیے درست پایا گیا۔ ویدک دور میں بازار میں مختلف اقسام کا گوشت فروخت کرنے والوں کی دکانیں تھیں، مثلاً گوگاتک (مویشی)، اربیکا (بھیڑ)، شوکاریکا (خنزیر)، ناگریکا (ہرن)، شاکنتیکا (پرندہ)۔ گھڑیال اور کچھوے (گِدّابُدّکا) کے گوشت کی الگ دکانیں ہوتی تھیں۔ رِگ وید میں گھوڑا، بھینس، بھیڑ اور بکرے کو بَلی دینے لائق جانوروں کے طور پر بتایا گیا۔
گوشت خوری سے متعلق منوسمرتی کے ادھیائے اور شلوک سنسکرت میں ہی پیش خدمت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
द्वौ मासौ मत्स्यमांसेन त्रीन्मासान्हारिणेन तु ।औरभ्रेणाथ चतुरः शाकुनेनाथ पञ्च वै 3/269
षण्मासांश्छागमांसेन पार्षतेन च सप्त वै ।अष्टावेनस्य मांसेन रौरवेण नवैव तु 3/270
दशमासांस्तु तृप्यन्ति वराहमहिषामिषैः ।शशकूर्मयोस्तु मांसेन मासानेकादशैव तु 3/271
वृथा कृसरसंयावं पायसापूपं एव च ।अनुपाकृतमांसानि देवान्नानि हवींषि च ।।5/7
क्रव्यादाञ् शकुनान्सर्वांस्तथा ग्रामनिवासिनः ।अनिर्दिष्टांश्चैकशफांष्टिट्टिभं च विवर्जयेत् ।।5/11
न भक्षयेदेकचरानज्ञातांश्च मृगद्विजान् ।भक्ष्येष्वपि समुद्दिष्टान्सर्वान्पञ्चनखांस्तथा ।।5/17
श्वाविधं शल्यकं गोधां खड्गकूर्मशशांस्तथा ।भक्ष्यान्पञ्चनखेष्वाहुरनुष्ट्रांश्चैकतोदतह् ।।5/18
यज्ञार्थं ब्राह्मणैर्वध्याः प्रशस्ता मृगपक्षिणः ।भृत्यानां चैव वृत्त्यर्थं अगस्त्यो ह्याचरत्पुरा ।।5/22
बभूवुर्हि पुरोडाशा भक्ष्याणां मृगपक्षिणाम् ।पुराणेष्वपि यज्ञेषु ब्रह्मक्षत्रसवेषु च ।।5/23
प्रोक्षितं भक्षयेन्मांसं ब्राह्मणानां च काम्यया ।यथाविधि नियुक्तस्तु प्राणानां एव चात्यये ।।5/27
प्राणस्यान्नं इदं सर्वं प्रजापतिरकल्पयत् ।स्थावरं जङ्गमं चैव सर्वं प्राणस्य भोजनम् ।।5/28
नात्ता दुष्यत्यदन्नाद्यान्प्राणिनोऽहन्यहन्यपि ।धात्रैव सृष्टा ह्याद्याश्च प्राणिनोऽत्तार एव च ।।5/30
क्रीत्वा स्वयं वाप्युत्पाद्य परोपकृतं एव वा ।देवान्पितॄंश्चार्चयित्वा खादन्मांसं न दुष्यति ।।5/32
नियुक्तस्तु यथान्यायं यो मांसं नात्ति मानवः ।स प्रेत्य पशुतां याति संभवानेकविंशतिम् ।।5/35
यज्ञार्थं पशवः सृष्टाः स्वयं एव स्वयंभुवा ।यज्ञोऽस्य भूत्यै सर्वस्य तस्माद्यज्ञे वधोऽवधः ।।5/39
ओषध्यः पशवो वृक्षास्तिर्यञ्चः पक्षिणस्तथा ।यज्ञार्थं निधनं प्राप्ताः प्राप्नुवन्त्युत्सृतीः पुनः ।।5/40
या वेदविहिता हिंसा नियतास्मिंश्चराचरे ।अहिंसां एव तां विद्याद्वेदाद्धर्मो हि निर्बभौ ।।5/44
न मांसभक्षणे दोषो न मद्ये न च मैथुने ।प्रवृत्तिरेषा भूतानां निवृत्तिस्तु महाफला ।।5/56
ایتریہ براہمن (2/ 6/ 6)، ایتریہ براہمن باب 31 میں ہی ذبیحہ کی تقسیم کا ذکر ہے۔ اور اسی سے ملتی جلتی تعلیمات گوپتھ براہمن (3/ 18) موجود ہے۔
گائے کا گوشت پیش کرنے سے 1؍سال تک اور بڑے بیل کے گوشت سے 12؍سال تک بزرگوں کی روحوں کو سکھ شانتی پراپت ہوتی ہے۔ (مہابھارت انو شاسن پرو، باب:88، شلوک:5)
ایک دن راجہ رنتی دیو کے بہت سے مہمان آگئے ، لہٰذا اس نے 20100 گائیں ذبح کیں۔
(مہابھارت شانتی پرو، باب :29، شلوک:179)
لکشمن 10؍ہزار ہرنوں کو مار کر لائے اور رام چند کے آگے رکھ دیئے، رام جی بہت خوش ہوکر کہنے لگے کہ آج گوشت دیوتاؤں کو دینا چاہے، یہ سن کر جانکی (سیتا جی) نے گوشت اٹھا کر رام جی کے آگے رکھ دیا اور رام جی دیوتا لوگوں کے نام سے دینے لگے۔
(والمیکی رامائن اجودھیا کھنڈ، باب: 95)
برہدارنیہ اُپنیشد میں گوشت کو چاول کے ساتھ پکانے کا تذکرہ ہے۔ رامائن میں بھی دَنڈکارنیہ جنگلوں کے سفر کے دوران رام، لکشمن اور سیتا کے ذریعہ ایسے چاول (گوشت اور سبزی کے ساتھ) سے لطف اندوز ہونے کا تذکرہ ہے۔ اسے ’ممسمبھوتدانا‘ کہا جاتا تھا۔ ایودھیا کے محل میں راجہ دشرتھ کے ذریعہ دی جانے والی بَلی کا تذکرہ ہے۔ مہابھارت میں گوشت کے قیمے (پستہ دانا) کے ساتھ چاول پکانے کا تذکرہ ہے۔
ہسٹری اینڈ کلچر آف انڈین پیپل میں مہابھارت کے حوالہ سے تحریر ہے کہ راجہ رنتی دیو لوگوں کو گوشت پیش کرنے کے لیے روزانہ 2؍ہزار عام جانور اور 2؍ہزار گائیں مارا کرتے تھے۔ (ص:579)
کرشن اور ارجن نے قربانی کا وقت آپہنچنے پر بہت سے جانور قربان کئے، جن میں ایک گائے بھی تھی۔ ( بھاگوت :10، باب: 58 )
برہمہ ویورت پران پرکرتی کھنڈ میں مہادیو سویگیہ نامی راجہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی حکومت میں برہمنوں کو روزانہ گوشت دیا جاتا تھا۔ (50 / 12)
شت پتھ براہمن میں ہے، مہمان کے لیے بڑا بیل ذبح کرنا چاہئے۔ (3/ 4/ 1/ 2)
اسی میں آگے لکھا گیا ہے کہ جو گوشت ہے یہ سب سے بہتر غذا ہے۔ (11/ 7/ 1-2)
وشنو دھرموتر پران میں شرادھ کے بارے میں ہیکہ جو شخص شرادھ میں کھانے والوں کی صف میں پیش کئے گئے گوشت کو نہیں کھاتا وہ جہنم میں جاتا ہے۔ (1 / 140/ 49-50)
وہ جو ان کا گوشت کھاتے ہیں جو کھانے کے لائق ہیں، وہ کوئی اپرادھ (گناہ) نہیں کرتا، چاہے وہ ایسا روزانہ ہی کیوں نہ کرے، کیونکہ کھانے کے لائق جانور اور نہ کھائے جانے کے لائق جانور کو برہما جی نے پیدا کیا ہے، قربانی کا گوشت کھانا صحیح ہے، یہی دیوتاؤں کا حکم ہے۔ (وشنو دھرموتر پران ۳۰۳)
اے اندر! ہم پروہتوں کے ساتھ مل کر فربہ بیل پکاتے ہیں۔ (رگ وید: 11-27-20)۔ اندر تمہارے بیلوں کو کھائے۔ (رگ وید: 10۔27۔13)۔ "رگ وید" (منڈل:۱۰، سوکت منتر:۱۳)اس میں بیل کا پکانے اور اس کو کھانے کا تذکرہ ہے۔ (۶-۱۱-۱۷) اس میں بھینس کے کھانے کا تذکرہ ہے۔ (۱۰-۲۷-۲) (۱۰-۲۷-۱۳) ان دونوں میں بیل کے پکانے کا تذکرہ ہے۔ رگ وید (۱۰-۸۵-۱۳) گائے کا تذکرہ ہے۔ (۱۰-۸۶-۱۴) بیل کے گوشت اور اس کے فوائد بتائے گئے ہیں۔
"اتھروید" کے کھنڈ ۹، انوواک: ۱۹، منتر:۶ اس میں گوشت کو جل (پانی) اور گھی سے پکا ہوا سب سے اعلی کھانا بتایا گیا ہے۔
"یجروید" میں 22؍ادھیائے سے لے کر 25؍ادھیائے تک پورے چار بابوں میں اشومیہ یگیہ (یایجیہ ؛ شرعی رسوم کی انجام دہی ) کا تذکرہ ہے اور یجروید کے 6 سے 22 ادھیائے تک ذبح ہونے والے جانور کے منتر اور کھمبے سے متعلق ہیں۔
ان مذہبی تعلیمات و حقائق کے بعد بھی کیا مسلمان ہی مورد الزام ٹہرائے جائیں گے۔ جب کہ گئوکُشی کے نام سے بے گناہ معصوم انسانوں کا خون وہ لوگ بہا رہے ہیں جو جانوروں سے رحم دلی اور اہنسا وادی (عدم تشدد) ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انسانوں کو بے رحمی اور ظلم و تشدد کے ذریعے قتل کرتے ہیں۔
اگر گوشت خوری کو ترک کردیا جائے یا سمندر سے دستیاب ہونے والی غذا کو استعمال کرنا بند کردیا جائے تو آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ انسانی اور ماحولیاتی نظام کو کئی مسائل سے جوجنا پڑسکتا ہے۔ خوراک، غذا اور اناج کی قلت کے نتیجے میں دنیا بھر میں بحرانی کیفیت رونما ہوجائے گی۔ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ عقیدے و اعتقاد کے نام سے قدرتی وسائل داؤ پر لگائے جارہے ہیں۔ کسی میں اتنی جسارت نہیں ہے کہ ماحولیات کے اس استحصال کے خلاف آواز بلند کرے۔ نیل گائے کو گائے کی قبیل سے جوڑ کر اس کے شکار پر پابندی لگائی گئی، ان کی آوارگی نے فصلوں کو برباد کرنا شروع کیا، کسان اور عوام پکار اٹھے جس کے نتیجے میں نیل گائے کو نیل گھوڑے کا نام دیا گیا اور پابندیاں ہٹالی گئیں۔ آج ہم دوبارہ ایسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ آوارہ مویشیوں کے نتیجے میں انسانیت ایک نئے مسائل سے جوج رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ "ویج نان ویج" مسئلہ بہت قدیم ہے اور یہ مسئلہ سیاسی پارٹیوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس سیاسی ایجنڈے نے اقتدار کے بھوکوں کو اندھا کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس مسئلہ کو سیاست سے جوڑ کر عصبیت و شرانگیزی کا ایسا ننگا ناچ رچا جارہا ہے کہ انسانوں کے جان لینے میں ذرہ برابر بھی پشیمانی نظر نہیں آتی۔ کھائے جانے والے پاکیزہ و حلال جانور کے ذبح کرنے کو قتل کا نام دے دیا گیا اور جو اصل میں مذہب کی آڑ میں انسانیت کا بےرحمانہ قتل کررہے ہیں وہاں کیوں آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔ کیا اس بے رحم و سفاک معاشرے میں جانوروں کے مقابل انسانوں کی جان کا کوئی مول نہیں۔
عالمی مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ اپنے اسلوب میں گوشت خوری اور سبزی خوری کے ضمن میں بہت گہری بات کہتے ہوئے، اس صورتِ حال کا اس طرح تجزیہ کیا ہے۔ "میں دال اور سبزی اس لئے کم کھاتا ہوں کہ ہفتے میں تین چار بار دال یا سبزی کھالوں تو نہ جانے کیوں خدا کو بھگوان کہنے کو دل کرنے لگتا ہے۔" یہ مزاحیہ اسلوب ہے مگر اس میں عقیدے و ایمان کی رمق نظر آتی ہے۔
 

Masood Khan
About the Author: Masood Khan Read More Articles by Masood Khan: 3 Articles with 1339 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.