ذائقہ اپنا اپنا

آج کل دو واقعات زبان زد_عام ہیں۔ ایک چار سو پاکستانیوں کی کشتی یونان کے ساحل پر ڈوبنے کا، دوسرا داؤد گروپ آف کمپنیز کے مالک باپ اور بیٹے کا جو پانچ لاکھ ڈالر کا ٹکٹ لے کر ایک ڈوبے ہوئے بحری جہاز کا ملبہ دیکھنے کے لئے آبدوز میں بیٹھ کر گئے۔

عوام ان دونوں پے درپے واقعات سے پریشان ہے، صدمے میں کوئی کسی کو غلط کہہ رہا ہے، کوئی کسی کو درست قرار دے رہا ہے۔ کسی کے خیال میں ان پاکستانیوں کو بیرون ملک جانے کے قانونی راستے بھی مل سکتے تھے پھر وہ غیر قانونی راستے سے کیوں گئے؟ کوئی انھیں روزگار کی تلاش میں شہید کا درجہ دے رہا ہے۔ کسی کے خیال میں ان باپ بیٹے کو اتنا خرچہ کرکے ڈوبے ہوئے جہاز کو دیکھنے کے لئے جانا ،اسراف کے زمرہ میں آتا ہے۔

کوئی ان کی آبدوز ڈوبنے کا واقعہ سمپسن کارٹونز میں پیشگی موجود ہونے کی اطلاع دے رہا اور بین الاقوامی سازش کا نام دے رہا ہے۔کوئ ان کے خیراتی کاموں کے بارے میں لکھ رہا ہے، انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی گواہی دے رہا ہے۔ رکئیے جناب، ہم کسی کی جنت دوزخ کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں ۔کسی کے اعمال کو تولنے والا ترازو ہم انسانوں کے پاس کہاں ہے ؟
دل دریا سمندروں ڈونگے
کون دلاں دیاں جانے ہو !

نیتوں اور دلوں کا حال جاننے والی صرف ایک ذات ہے ،وہ رب العالمین ہے۔کس نے کون سی نیکی کس نیت کے ساتھ کی وہ صرف خدا جانتا ہے ،کوئ انسان نہیں جان سکتا کب بندہ خدا سے ڈر گیا اور اپنی اصلاح کرلی ۔ کس کے اعمال غلط تھے یا دکھاوے کے لئے تھے ،کون جان سکتا ہے ؟

کرونا کے دنوں میں ایک عجیب تجربہ ہوا جب کرونیائ بخار نے ہر گھر میں ڈیرے جماۓ ،وہ کھانا جو سب کو لذیذ لگا کرتا تھا ،اس کی کیفیت بدل گئ ۔ کسی نے اسے پھیکا قرار دیا تو کسی کو وہ زہر جیسا کڑوا لگنا شروع ہوگیا ،ہر ایک کے منہ کا ذائقہ مختلف ہونے کی وجہ سے کھانے کا ذائقہ بھی مختلف لگنے لگا جب کہ حقیقت میں وہ نہ پھیکا تھا اور نہ ہی کڑوا۔

بعینہٖ یہی حقیقت اس ذائقے کی ہے جس کے بارے میں قرآن پاک میں فرمایا گیا کہ :
" ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور روز_قیامت تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے تو جسے آگ سے بچایا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا ،وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے " " سورہ آل عمران ،185.

ہر انسان کو اپنے اعمال کی وجہ سے موت کا ذائقہ مختلف لگے گا ۔جن کے اعمال صالح اور بارگاہ_الہی میں مقبول ہوں گے ،ان کے لئے موت یقیناً رب سے ملاقات کا ذریعہ ہوگی اور جن کے اعمال کو وہاں رد کردیا گیا ،ان کے لئے موت کا ذائقہ یقیناً تکلیف دہ ہوگا۔ مرنا تو بہرحال سب کو ہے لیکن اتنی اموات کا تذکرہ ہمیں اپنی موت کی یاددہانی بھی کرواتا ہے کہ ہم نے اگلے جہان کی کیا تیاری کی ہے، کچھ عبادات ،کچھ حقوق العباد ہمیں جنت تک لے سکیں گے ؟خدانخواستہ اگر اچانک مہلت_زندگی ختم ہوگئی تو ہم کیا اعمال لے کر خدا کی بارگاہ میں پیش ہوں گے ؟ خدارا ،دوسروں کے اعمال کا جج بننے کی بجائے اپنی آخرت کی تیاری میں لگ جائیں۔
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ !