سورج کی روشنی میں ہر شے صاف نظر آتی ہےجب کہ رات کی تاریکی میں کچھ نظر نہیں آتا۔سورج کی سفیدی حق ہے اور رات کی سیاہی جھوٹ۔سفید جھوٹ کی اختراع ان عناصر کی ہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے لباس کی سیاہی چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ وہ جھوٹے ہیں، شُومِئیِ تقدیر دیکھئے کہ ان کے دَم سے ہمارا محکمئہ انصاف ہے جو ہمارے معاشرے میں قائم جاری و ساری نظام کا ایک نہائیت ہی اہم ستون ہے۔پیشگی معذرت کے ساتھ مجھے کہنے دیجئیے کہ سفید رنگ حق ہے جب کہ سیاہ رنگ ابلیس کی نمائندگی کرتا ہے۔ سفید رنگ میں سائنس کے مطابق زندگی کے تمام رنگ ہوتے ہیں جن میں سات بنیادی رنگ ہیں جن سے قوسِ قزح بنتی ہے۔گویا ہماری زندگی کا دارومدار حق پر ہو تو یہ بے حد رنگین ہوتی ہے، ذرا سی سیاہی ہمارا منہ کالا کر دیتی ہے ۔ عُرفِ عام میں مشہور ہے کہ کالے عمل کی سیاہی کے باعث ہم معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے لیکن جب ضمیر کی بار بار وارننگ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور اپنے سیاہ کارنامے جاری رکھتے ہوئے ہم اس کو سیاہ کر لیتے ہیں تو ایسی صورت میں منہ کالا ہونے کی کون پرواہ کرتا ہے۔اس پہ ستم یہ کہ ہمارا معاشرہ سیاہ ضمیر و کالے کرتوتوں کے مالک کو ایک اعلیٰ مقام بخشتا ہے ، اس کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور رفتہ رفتہ سورج کی سفیدی کو کالے بادلوں کی مانند ڈھانپ لیتی ہے جس کے بعد قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں اوران کا زوال عروج سے پہلے ہی شروع ہو چکا ہوتا ہے۔
ذہنی وجسمانی دونوں تندرستیا ں درکار ہوتی ہیں ایک اچھے انسان کو ایک اچھی زندگی گذارنے کے لئے ۔ عمر کے کسی حصے میں خدانخواستہ انسان کی صحت خراب ہوجائے تو اس کے قریبی اس کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں، اچھے انسان کی جسمانی صحت کی خرابی کے دوران اپنے خونی رشتے ہی کام آتے ہیں جب کہ سیاہی مائل انسانوں کی خدمت کے لئے ابلیس کی ایک پوری فوج اپنے سیاہ کرتوت کی خفت مٹانے کے لئے قطار میں کھڑی ہوتی ہے ۔ مریض اپنا کالا دھن اس فوج پر نہیں لُٹاتا بلکہ لالچ و ہَوِس اس کیفیت میں بھی اس کو دو اور دو پانچ کرنے پر مجبور کرتی ہے ، یہ حقیقت جاننے کے باوجود کہ اس دنیا سے وہ خالی ہاتھ ہی جائیگا وہ انجانے میں اپنی سیاہ وردی والے سپاہیؤں کی مدد کر رہا ہوتا ہے جو رواجی قوانین کے تحت اس کے ورثاء میں اس کی وصیت کے برعکس مال و دولت تقسیم کرنے کی تگ و دو میں ایک بھاری حصہ اپنا بھی نکال لیتے ہیں اور جھوٹ کے کالے بادلوں تلے حق کی ایک کرن بھی پہنچنے نہیں دیتے۔حد تو یہ ہے کہ جہنم کی آگ کے خوف کے بیان کرنے والے بھی چند کاغذ کے ٹکڑوں کی تصدیق کرکے ابلیس کے نہام نہاد شریف پیادے بھی اپنا روایتی حق حاصل کرکے معاشرے میں مزید بلند ممبر پر بیٹھنے کے مستحق ہو جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا تمام باتیں ہمیں نظر آتی ہیں لیکن درج شدہ لائنوں کے بیچ کے الفاظ ہم پڑھ نہیں پاتے۔ جہنم کی آگ سے پہلے جب ہماری زندگی جہنم بنتی ہے تو ہم غور نہیں کرتے کہ ہمارے اوپر حق کی کرن کیوں فلیش مار رہی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ حق نے ہمیں اپنی ٹیم کی جانب پکارا ہے اور موقع دیا ہے کہ ہم اپنا منہ بھی کالا نہ ہونے دیں اور اپنے ضمیر کو بھی مردہ ہونے سے بچائیں۔پس جس نے اس کرن سے مارا ہؤا فلیش ساحلِ سمندر پر نصب شدہ کنٹرول ٹاور کا اشارہ سمجھ کر اپنی کشتی کا رخ موڑلیا ، وہ فلاح پاگیا، اپنی زندگی اور آخرت دونوں ہی کو جہنم سے بچا لیا اس نے۔

Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 112797 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More