قوم کی ماں عصمت صدیقی - ایک برس بیت گیا

قوم کی ماں عصمت صدیقی کی وفات کو ایک سال گزر گیا۔ گزشتہ برس 2 جولائی کو ان کا انتقال ہوا تھا۔ ان کی وفات کے وقت ڈاکٹر عافیہ کی ناحق قید کو بیس سال مکمل ہونے میں صرف چند ماہ باقی رہ گئے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ اور ان کے تین کمسن بچے 30 مارچ، 2003 ءکو اچانک لاپتہ ہوگئے اور آئندہ پانچ سالوں تک لاپتہ رہے ۔ اگلے روز 31 مارچ اور یکم اپریل ، 2003ءکو پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے ڈاکٹر عافیہ کی گرفتاری کی خبریں شائع کیں بعد ازاں انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کی خبریں رپورٹ کی گئیں۔2008 ءمیں عالمی میڈیا کی تحقیقی اور مستند رپورٹنگ نے امریکہ کو ڈاکٹر عافیہ کی گرفتاری ظاہر کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ 2010ءمیں ڈاکٹر عافیہ کے دو بچے احمد اور مریم بازیاب ہوئے اور انہیں عصمت صدیقی اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے حوالے کیا گیا جس کی بدولت دونوں ملکوں امریکہ اور پاکستانی حکومتوں کی غلط بیانی سامنے آگئی کہ عافیہ کو نہ تو اغواءکیا گیا تھا اور نہ ہی گرفتار۔

گزشتہ برس عیدالاضحی سے ایک ہفتہ قبل عصمت صدیقی کی وفات ہو ئی تھی۔ وہ قربانی کا اہتمام انتہائی شوق و جذبہ کے ساتھ کیا کرتی تھیں۔ خود مویشی منڈی جا کر قربانی کے جانور خریدنا ان کا معمول تھا۔قربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال، ان کے چارے اورآرام کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ اپنی وفات سے دو روز قبل وہ قربانی کاجانورخریدنے مویشی منڈی گئی تھیں۔ان کا دل رسول اللہ ﷺ کی محبت سے معمور تھا۔وہ ہر سال باقاعدگی سے آپ ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتی تھیں۔ عیدالاضحی پر گوشت یا رمضان المبارک میں راشن تقسیم کرنے کے موقع پر تیس چالیس پہلے کام کرنے والے ملازموں کو بھی فون کر کے وہ بلایا کرتی تھیں۔

عصمت صدیقی قابل رشک اور بھرپور زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بھی جوڑے رکھا۔ وہ بتاتی تھیں کہ میرے بچپن کا ابتدائی زمانہ ماں کی گود میں قرآن پاک کی تلاوت سنتے سنتے گزرا۔ ان کی والدہ محترمہ کو تلاوت کلام پاک سے خاص شغف تھا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد والدہ زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتی تھیں، مجھے گود میں لے کر خوش الحانی اور بلند آواز سے تلاوت کیا کرتی تھیں۔میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تھی تو اکثر ان کے سامنے کلام پاک رکھا ہوا ہوتا تھا اور وہ تلاوت میں مشغول ہوتی تھیں۔وہ کہتی تھیں ”قرآن پاک نے ہر مشکل اور تکلیف میں میری دلجوئی اور رہنمائی کی، مجھے سکون مہیا کیا، مایوسی کی بجائے امید و ڈھارس بندھائی۔ میرا تجربہ اور یقین ہے کہ قرآن پاک سے رجوع اور رسول اللہ ﷺ سے محبت ہی انسان کو بڑا بناتی ہے۔ عافیہ کے معاملے میں یہ قرآن پاک ہی ہے جس نے میری ہمت ٹوٹنے نہیں دی۔

قوم نے عصمت صدیقی کو ماں کا درجہ دیا۔ میں نے لوگوں کو انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ ان سے ملتے دیکھا ہے۔ لوگ ان سے ملاقات کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھا کرتے تھے ۔ مہمان نوازی ان کا خاصہ تھا۔ مجھے عافیہ رہائی تحریک سے وابستہ ہوئے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اور2016 ءسے عافیہ موومنٹ کے گلوبل کوآرڈینٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہا ہوں،اس وجہ سے مجھے ان کی خدمت میں رہنے کا موقع مل سکا اور اب ان کی مرقد پر دعائے مغفرت کے لیے بھی جانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔وہ بیس برس اپنی بے گناہ بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوئی ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ امی نے کہا تھا کہ ”میں اگر مر جاﺅں اور عافیہ سے نہ مل پاﺅں تو افسوس نہ کرنا“۔ وجہ بھی انہوں نے خود بتا دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ نبی یعقوب علیہ السلام کو طویل عرصہ کے بعد اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے یوسف علیہ السلام سے آخر کار ملا دیا تھا۔ وہ اگر اپنی معصوم بیٹی سے ملنے کی تمنا لئے دنیا سے چلی گئیں تو یہ تکلیف آخرت میں بلندی درجات کا سبب بنے گی۔ ان کی زندگی میں جب ان سے ملتے تھے تو شرمندگی کا ایک احساس ضرور ہوتا تھا،اب ان کی قبر پر جاکر شرمندگی کا یہ احساس کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ان کے صبرو برداشت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اکثر یہ شعر سنایا کرتی تھیں © ©”حیرت نہ کر بدن کو مرے چُور دیکھ کر ... ان رفعتوں کو دیکھ جہاں سے گرا تھا میں“۔

وہ بتایا کرتی تھیں کہ قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر احمد میاں سومرو کی اہلیہ بیگم سعیدہ سومرو کے کہنے پر اپوا (APWA) کے لیے کام شروع کیا ۔ انہیں جنرل سیکریٹری کے لیے نامزد کیا گیا اور منتخب ہو کر انہوں نے باقاعدہ سماجی سرگرمیوں کا آغازکیا۔ اپوا میں کام کرتے ہوئے سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان سے ملاقات ہوئی، وہ بھی ان کے کام سے متاثر ہوئے۔ان کی یونائیٹڈ اسلامک آرگنائزیشن (UIO) کی سرگرمیوں کے باعث سابق صدر جنرل ضیاءالحق ان کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ایوان صدر میں ملاقات کے موقع پر حکومتی عہدوں کی پیشکش کی مگر بچوں کی پرورش زیادہ اہم تھی اس لئے معذرت کرلی۔ جب غلام اسحاق خان منصب صدارت پر فائز ہوئے تو ایوان صدر میں ان سے بھی ملاقات ہوئی ، اس ملاقات میں سابق میئر حیدرآباد اور معروف عالم دین مولانا وصی مظہر ندوی بھی موجود تھے۔ جب جسٹس محمد رفیق تارڑ صدر پاکستان منتخب ہوئے تو ان سے بھی ایوان صدر میں ملاقات کی۔ انہوں نے میرا نام بھی وفاقی زکوٰة و عشر کے نمائندوںمیں شامل کیا ۔ یہ باتیں تفصیل کے ساتھ عصمت صدیقی صاحبہ نے مجھے بتائی تھیں۔ جس کا میں نے اجمالاََ تذکرہ کیا ہے کیونکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ یا تو ان کی سوانح حیات شائع ہونی چاہئے یا پھر ان کی شخصیت پر تفصیل کے ساتھ کوئی کتاب آنی چاہئے تاکہ قوم کو پتہ چل سکے کہ بیٹیوں کو قوم کی بیٹیاں کیسے بنایا جاتا ہے اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ماں کی زندگی کیسے گزری ہے؟

میرے ساتھ ان کی شفقت کا انداز کچھ الگ ہی تھا۔ ایوب بھائی یا پھر بھائی صاحب کہہ کر وہ مجھے بلایا کرتی تھیں۔ شفقت ، محبت اور احترام اس خاندان کے ہر چھوٹے بڑے فرد کا وصف ہے۔گھر کے سب لوگ مجھ سے اسی احترام ، محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ایک سے زائد مرتبہ ان کا مجھ سے یہ کہنا کہ ”آپ تو ہمارے بچوں کے باپ کی طرح ہیں“ جب بھی یاد آتا ہے رُلا ہی دیتا ہے۔ ان کی صحبت میں رہ کر زندگی کی بہت سی حقیقتوں کا ادراک ہوا۔ صبر کیسے کرتے ہیں، یہ پتہ چلا مگر ان کی طرح عمل کوشش کے باوجود نہ ہوسکا۔یہ بھی پتہ چلا کہ خاندانی لوگ کیسے ہوتے ہیں؟۔

صرف ایک بات ایسی تھی جسے یاد کرکے انہیں آہ بھرتے اور افسوس کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ”میں نے عافیہ کو بڑی محنت سے تیار کیا تھا مگر ان لوگوں (حکمرانوں) نے اس کی قدر نہ کی“۔ان کا اشارہ ملک میں تعلیم کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی طرف تھا کیونکہ ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں ان کے پروفیسر اور معروف امریکی دانشور نوم چومسکی کا کہنا تھا کہ ”یہ لڑکی جہاں جائے گی انقلاب برپا کردے گی“۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جو کہ حال ہی میں ڈاکٹر عافیہ سے امریکی جیل ایف ایم سی کارزویل میں ملاقات کر کے آئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے موقع پر انہوں نے کچھ رقم عافیہ کو دی۔عافیہ نے اس رقم سے اپنے لیے کافی کا ایک کپ لیا اور باقی رقم سے کچھ چیزیں لے کر ساتھی قیدیوں میں تقسیم کردیں۔ ڈاکٹرعافیہ نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو 20 سال کے بعد دیکھتے ہی پہلی بات یہ کی کہ ”تم بہت دبلی ہو گئی ہو“۔ یہ بات ان کی والدہ نے زندگی کے آخری ایام میں ایک سے زائد مرتبہ مجھ سے کچھ اس طرح کہی تھی کہ ”فوزیہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتی ہے، اسے تو بس میری، عافیہ اور عافیہ اور اپنے بچوں کی فکر لگی رہتی ہے، اسپتال کی طویل ڈیوٹی کے بعد عافیہ رہائی تحریک کے کاموں میں دیر تک مصروف رہتی ہے “۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بھی اپنے ان مریضوںکو جو مرگی کی ادویات لینے کی سکت نہیں رکھتے ، ادویات فراہم کرنے کا کوئی نہ کوئی بندوبست کر دیتی ہیں تاکہ ان کی زندگی کچھ سکون کے ساتھ گزر سکے۔ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے بعد قوم کی خدمت کا یہ دائرہ کافی وسیع ہو سکتا ہے۔ان کی وفات کا ایک سال مکمل ہونے پر ان کی زندگی کے چند گوشے بیان کرنے کا مقصد پہلے خود کو اور پھر پوری قوم کو یاددہانی کرانا ہے کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کا قرض اور فرض ادا کرنا ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ عصمت صدیقی کی کامل مغفرت فرمائے اور زندگی کے آخری بیس سالوں میں انہوں نے جس صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اسے درجات بلند کرنے کا وسیلہ بنادے۔ آمین ثمہ آمین

Muhammad Ayub
About the Author: Muhammad Ayub Read More Articles by Muhammad Ayub: 11 Articles with 8786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.