ادھار بکرے

جانباز جانی بہت دنوں بعد مُجھ سے ملنے آیا تھا زندگی کی تمام رعنا ئیوں سے بھرا ہوا پر جوش انسان ہر مسئلے کا حل نکالنا اُس کے بائیں ہاتھ کا کام ہو تا ہے زبان کا بہت تیز باتونی کسی انشورنس کمپنی میں چھوٹے درجے کا ملازم ہرو قت پینٹ شرٹ ٹائی میں ملبوس دوست یار قسمیں کھاتے تھے جکہ ہم جانی کو کبھی پینٹ شرٹ ٹائی کے بغیر نہیں دیکھا بلکہ اکثر اُس سے سوال کرتے کہ جانی تم سوتے وقت ٹائی اتارتے ہو یا نہیں تو وہ مسکرا دیتا کسی دوست کے ریفرنس سے میرے پاس آیا کہ آپ بیمہ کرالو جب میں نے انکار کیا تو نئی آفر لے کر آگیا کہ سر آپ کے پاس رنگ رنگ کے امیر دولت مند طاقتور لوگ آتے ہیں اُن تک مجھے ریفر کر یں جب میں نے یہاں بھی انکار کیا تو نئی آفر کر دی کہ آپ کے کسی بھی دوست کی انشورنس اگر کروں گا تو آپ کا کمیشن بھی رکھوں گا میں نے یہاں بھی انکار کیا لیکن یہ ہمت ہارنے والا نہیں ہر بار خود بھی کروڑ پتی بن جاتا مجھے بھی کروڑوں کی آفر کراتا کہ آپ گھر بیٹھے کچھ بھی کئے بغیر لاکھوں روپے ماہانہ بنیاد پر کمانا شروع کر دیں گے آپ نے کسی بندے کے پاس بھی نہیں جانا نہ ہی کہنا ہے بلکہ صرف مُجھ دولت مندوں کے سامنے بٹھا دینا اُن کو کیسے بچوڑنا ہے یہ کام میں اچھی طرح جانتا ہوں جانی ایک شاطر تیز دماغ ذہین آدمی تھا اِس کو شہر بلکہ وطن عزیز کے تمام بہت سارے سرکاری افسران کا پتہ ہو تا کون کس جگہ کس پوسٹ پر کس کا حالیہ تبادلہ ہوا ہے کون کرپشن میں پکڑا گیا کون کس کا رشتہ دار ہے اِس کے ساتھ ساتھ شہر میں کون سی چیز کپڑا جوتے وغیرہ سستے اچھے کہاں سے ملتے ہیں لنڈا بازار کہاں کہاں سے لگتا ہے شرٹ ٹائی پینٹ جوتے سوئیٹر جرسیاں وغیرہ ہمیشہ لنڈے کے خوبصورت مضبوط کپڑے زیر استعمال لاتا ہے مجھے ملتا تو میں شرارتاً پوچھتا یہ شرٹ ٹائی پینٹ کوٹ کہاں سے لیے ہیں تو اِس کی ڈکشنری سٹارٹ ہو جاتی یہ اول سے آخر ساری کہانی سنا کر دم لیتا لنڈا یاترا کے دوران کن کن افسران کو یہ وہاں دیکھتا ہے ان کے بارے میں بھی وسیع معلومات اِس کے دماغی کمپیوٹر میں موجود ہیں کس کی بیوی کون سی لڑائی ‘کون دوسری شادی یا کسی معاشقے میں پڑا ہے اِس کی انگلیوں پر موجود ہوتا ہے میں حیران ہوتا تھا اتنا ذہین ہونے کے باوجود یہ ابھی تک غربت کی زندگی کیوں گزار رہا ہے تو جواب یہی ملتا کہ تقدیر نصیب کا ذہانت تیزی طرابی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اپنی شاطرانہ ذہانت اور گفتگو کے آرٹ سے یہ معاشرے کے اونچے طبقے میں بھی اٹھتا بیٹھتا تھا میرے پاس جب بھی آتا معلومات کا خزانہ لے کر آتا سفید پوش تھا میں جہاں تک ہوتا مدد بھی کرتا میں شاید کرہ ارضی کا اکلوتا شخص تھا جس کے سامنے اِس نے اپنی غربت کا پردہ چاک کیا تھا نہیں تو ایسے کپڑوں اور پالش شدہ چمکتے جوتوں اور الفاظ کی جادوگری سے اپنے محلے اور دوستوں میں کھاتا پیتا شخص مشہور تھا ہر وقت سینکڑوں منصوبے اِس کے دماغ میں ابل رہے ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ اِس خوش گمانی میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اِس کا خیال منصوبہ عملی طور پر پروان چڑھے گا اور یہ کروڑ پتی سے ارب پتی لوگوں کی صف میں نعرے مار رہا ہوگا میرے پاس آنے کی ایک وجہ وہ کرشمہ ساز دعا بھی تھی جس کے یہ انتظار میں تھا کہ جس دن مجھے دعا لگ گئی میں اُسی دن غربت کے جہنم سے نکل کر بہشت کے سبزہ زار میں کامیابی کے ساتویں آسمان پر پرواز کرتا نظر آؤں ۔اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے یہ میرے پسندیدہ ترین کرداروں میں سے تھا پتلا خاک کا مطالعہ میرا ہر دور میں پسندیدہ ترین مشغلہ ہے اُس کو دیکھنا اِس کی گفتگو چہرہ آنکھوں کے تاثرات چالاکیاں پھرتیاں تیزیاں نیکیاں حضرت انسان کے کیسے کیسے رنگ اور قدرت نے کیسی پراسرار مشین بنائی ہے جس نے عالم کو ہزار وں سالوں سے حیران پریشان کرکے رکھا ہوا ہے جانی بھی ایسا ہی کردار جس نے اپنی ذہانت چالاکی لباس گفتگو کے آرٹ سے خود کو معاشرے کا کامیاب فرد بنایا ہوا تھا صرف میں جانتا تھا کہ یہ کس طرح غربت کی چکی میں پس رہا ہے آج تو اِس کے کسی نئے روپ خیال کا منتظر تھا پھر یہی ہوا اُس نے جوبات کی اُس نے مجھے فریز کر کے رکھ دیا کچھ دیر تو ہمیشہ کی طرح ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا میں دیکھ رہا تھا کہ اصل بات کچھ اور ہے جس کا میں منتظر تھا کہ کب اِس کے لبوں پر اصل بات آئے جب یہ پاکستان اور پاکستان کے کلچر پر خوب بول چکا تو میں بولا یار جانی بہت دیر ہو چکی کوئی بات ہے تو بتاؤ نہیں تو میں تھک گیا ہوں میرے بدلتے تیور دیکھ کر یہ پریشان ہوا اور بولا ٹھہریں مجھے آپ سے بہت ضروری کام ہے آپ وعدہ کریں کہ یہ میرا کام ضرور کریں گے میں بولا اگر میں اِس قابل ہوا تو ضرور کروں گا تو جانی بولا مجھے کسی سے ادھار دو بکرے لے دیں کیامیں حیرت سے اچھل پڑا قربانی کے بکرے وہ بھی ادھار یہ تم کیسی بات کر رہے ہو تو وہ دوبارہ بولا سر آپ کے امیردوست سینکڑوں بکروں کی قربانی کر تے ہیں ان سے دو بکرے عید سے تین دن پہلے ادھار لے دیں میں عید کے دن بکرے ذبح کر کے تھوڑا سا گوشت رکھ کر سارا گوشت اُن کے گھر دے دوں گا میں یہ کام ایک سرکاری افسر کے لیے برسوں سے کرتا آرہا ہوں اِس بار وہ حج پر گئے ہیں وہ اپنی قربانی وہاں کریں گے اس کی بات سن کر میں بولا اِس میں تمہار ا کیا فائدہ ہے تو وہ بولا میرے گھر میں بچے ہیں اور اہل محلہ اور رشتہ داروں کے سامنے اپنا بھرم رکھنے کے لیے میں آفیسر کے بکرے تین دن پہلے گھر لے آتا ہوں اچھے صحت مند بکرے تینوں دن گلی میں بچوں کے ساتھ لے کر بکروں کو سیر بھی کراتا ہوں اہل محلہ اور رشتہ داروں کو پتہ چل جاتا ہے عید والے دن قربانی کا سارا گوشت ان کے گھر دے آتا ہوں اعلان یہ کرتاہوں کہ میں سارا گوشت یتیم خانے دے آیا ہوں اِس طرح میری عزت کا بھرم بھی رہ جاتا ہے بچے بھی خوش ہو جاتے ہیں سر مہنگائی کا دیو اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ غریبوں کو کھا گیا ہے اب غریب تو دور کی بات سفید پوش تک قربانی نہیں کر سکتے لہذا مجھ جیسے سفید پوش اب ادھار کے بکروں سے اپنی عزت بچاتے ہیں اِس کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ بکرے لنڈے بازار سے نہیں ملتے نہ ہی کو ئی سستا بازار ہے لہذا میں آفیسر کے بکرے لے آتا ہوں اُس کو چوری ہونے کا خطرہ بھی نہیں اور نہ ہی بکروں کی حفاظت اور پالنے کا خطرہ میں اُن کی پسند کا گوشت ان کے گھر دے آتا ہوں اِس طرح اُن کے قصائی کے پیسے بچ جا تے ہیں اور میری عزت بھی بچ جاتی ہے جانی اپنی اِس چالاکی کو مختلف دلیلوں وضاحتوں سے سچا ثابت کر نے کی کو شش کر رہا تھا مجھے جانی کے اندر کا کرب دکھ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ کس طرح ہو شربا مہنگائی نے لوگوں سے عقل و شعور مذہبی اگاہی چھین لی ہے اور یہ لوگ اپنی عزت بچانے کے لیے مارے مارے ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 656620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.