ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ہم لوگوں کا یہ عمومی رویہ بن گیا ھے کہ ہم سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز شئیر کرتے ہیں کہ جس میں اولاد کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی جاتی ھے۔ لیکن اولاد کے حقوق کی طرف بہت کم فوکس رکھا جاتا ھے۔
آج سوچا والدین اور بچوں کے بڑوں( اپنی ذات سمیت) سے بھی کچھ کہنے کی جسارت کر ہی ڈالوں۔ کچھ بھی لگی لپٹی لکھنے سے قطع نظر کرتے ہوئے میرا سوال یہ ھے کہ کیا ہم نے ان بچوں کو وہ سب کچھ میسر کیا کہ آج ہم ان سے رٹرن میں کچھ توقعات وابستہ کر بیٹھے ہیں؟
یقیناً آپ کہیں گے کہ ہم دن رات محنت کر کے ان کی تمام خواہشات پوری کرتے ہیں۔ چلیں بات یہیں سے شروع کر لیتے ہیں۔ اللہ نے مال اور اولاد کو فتنہ بھی کہا ہے۔ ہم نے ان "دونوں فتنوں" کو ملا کر ان کی تربیت کرتے ہوئے ان کی شخصیت کے ساتھ ظلم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. ان سے اپنی محبت شو کرنے کے لئے ان کی تمام جائز نا جائز خواہشات کو پورا کیا۔ جب کبھی کسی بات کو رد کیا تو اگلے لمحے ہمارے دل نرم پڑ گئے اور ان کو ڈانٹنے کا کفارہ اس طرح ادا کیا کہ اگلے لمحے اس خواہش کو جرمانے کے ساتھ پورا کیا۔ والدین بچوں کو گھر سے باہر (محلوں میں) بھی نہیں بھیجتے کہ حالات ٹھیک نہیں۔ کیا آپ نے ان کے اندر کے حالات کو بھی چیک کیا ھے؟
کیا آپ کا بچہ دوبدو جواب دے رہا ھے؟ اڑ، اڑ کر آپ کے منہ کو آ رہا ہے؟ آپ اگر اس کے موبائل کو ہاتھ لگا لیں تو وہ آپ کا ہاتھ پہنچنے سے پہلے ہی موبائل نہ صرف جھپٹ لیتا ھے بلکہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی آپ کو اس بے ادبی پر قصوروار ٹھہراتا ھے؟ ( اور اس طرح کے بے شمار واقعات ہو سکتے ہیں)۔
پھر ہم کس ہونی کا انتطار کر رھے ھیں۔ سمجھیں کہ فتنے نے سر اٹھا لیا ہے۔ اور اب اس مسئلے سے نکلنے کے لئے ہمیں بچوں سے پہلے اپنی ذات ، خیالات اور روٹین کو بدلنا ہو گا۔ اب عمل کا وقت آ گیا ہے۔ جب تک مائیں اپنی ذمہ داری والد پر اور والد ماں کو قصوروار ٹھہراتے رہیں گے توبہتری کی امید نہ رکھیں۔ مائیں گھر کے کاموں میں مصروف ہوں یا کسی درس کو سننے یا سنانے میں، اگر ان کی تسلی اس میں ھے کہ گھر میں بچہ کھانے پینے، موبائل اورلیپ ٹاپ کے ساتھ محفوظ ھے یا باپ کے ساتھ گھر میں ہے تو میری بہنوں سے بھی گزارش ھے کہ اگر باپ نے ہی یہ ذمہ داری نبھانی تھی تو ماں کو کیوں دنیا میں بھیجا گیا؟
بچوں کو اپنے دین سے روشناس کرائیں ورنہ یہ کسی اور ہی کشتی کے مسافر بن جائیں گے۔ اس کے لئے ضروری ھے کہ خود اپنے قول و فعل کو اسلام کی خوشبو سے معطر کریں۔ اس راستے پر چلیں، اللّٰہ تعالیٰ ضرور ہاتھ تھام لے گا۔
بحثیت اساتذہ اپنے مضامین کو مشرف بہ اسلام کریں۔ بقول علامہ اقبال
"ہر مسلمان کے لئے ضروری ھے کہ وہ تمام علوم کو مسلمان کرے۔ "
ہمیں انفرادی سطح پر اپنا کردار نبھانا ہوگا۔
ہمارے بچے ہماری ذمہ داری ہیں کسی اور کی نہیں، ان کے بہتر مستقبل کے لیے ضرور کوشش کریں لیکن ایک مستقبل آخرت کا بھی ھے اس کے بارے میں کیا سوچا؟

Tehmina Jabeen
About the Author: Tehmina Jabeen Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.