قصاب کی بیٹی


1979 کے سخت ترین جاڑے کی ایک اتنی ہی سرد اور اداس شام تھی۔ یوگوسلاویہ کے دورافتادہ اور پسماندہ گاوں میں ایک قصاب بخارو مختلف بیماریوں مبتلا تھا کمزور اور لاغر جسم جو بخار میں پھنک رہا تھا۔ پریشانی اس کے چہرے پہ عیاں تھی ۔ کسی نہ کسی طرح ہمت جمع کرکےاس نے گوشت تو بنا لیا تھا۔ مگر اسے ریستوران تک پہنچانا اسے عذاب لگ رہا تھا کہ اگر وہ ریستوران میں نہیں پہنچا سکا تو گوشت بھی خراب ہوئیگا اور اس کی قیمت بھی نہ ملے گی تو گھر کا خرچہ کس طرح سے نکلے گا ابھی یہ ان خیالوں میں گم ہی تھا کہ اتنے میں اسکی 11 سالہ بیٹی اسکول سے آئی اس نے اپنے باپ کو اس کیفیت میں پریشان دیکھ کر ماجرہ سمجھ گئی۔ برفباری میں گوشت سے لدی بھاری بھرکم ریڑھی کھینچ کر مشکل سفر اس نے بڑھے کٹھن راستوں سے ہوتی ہوئی یہ ننھی پری بالآخر ریستوران تک گوشت کی ریڑھ لیکر پہنچ گئی اور گوشت ریستوران کے مالک کے حوالے کرکے اس سے گوشت کی قیمت لیکر گھر لوٹنے کے لیے پھر اس ہی طرح کی طوفانی برفباری سرد موسم میں مشکلات اور کٹھن راستوں سے گھر پہنچ کر اپنے باپ کو گوشت پہنچانے کی نوید سُنائی اور اپنے باپ کو گوشت سے حاصل روم دی جو ریستران کے مالک نے گوشت وصول کرتے ہوئے دی تھی . ۔وہ مڈل اسکول میں گاوں کے اسکول میں اول آئی۔ تب امریکہ میں ہائی اسکول میں وظیفے کا امتحان منعقد ہوا ۔ وہ اس میں منتخب ہونے والے چند طلبہ میں سے ایک تھی۔ قصاب کی بیٹی کو پڑھنے اور محنت کرنے کا ایک جنون تھا۔ جو بالآخر اسے ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی سکول میں لے گیا۔ چند برس کی محنت و مشقت کے نتیجےمیں وہ امور خارجہ میں ماہر سمجھی جانے لگی۔

امریکہ میں اپنے ملک کی پہلی خاتون سفیر مقرر ہوئی۔ وزارت خارجہ کا مشکل فریضہ انتہائی خوبصورتی سے نبھایا ۔ اسی خاتون کو پیچھلے ورلڈ کپ قبل ساری دنیا نے ستائش بھری نظروں سے FIFA ورلڈ کپ کے فائنل میں اپنی ٹیم کا دیوانہ وار جذبہ بڑھاتے دیکھا۔ وہ عام سٹینڈ میں اپنے ہم وطنوں کے درمیان سرخ سفید T-shirt زیب تن کئے نعرے بلند کرتی نظر آئی۔ یہ کولنڈا گریبر ہے۔ کروشیا کی منتخب صدر۔ جسے دو ارب سے زائد ٹی وی سے چپکے ناظرین ستائش بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اکانومی کلاس میں خود ٹکٹ خرید کر پہنچی۔ VIP سہولیات شکریہ سے واپس کردیں ۔ اس دورانیہ کی بطور صدر اپنی تنخواہ واپس کردی۔ آپکو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ کروشیا کی آبادی محض چالیس لاکھ ہے۔ اسکا ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ۔ 50 سالہ کولنڈا اپنے ملک کے تمام میچوں میں موجود رہی۔ اس دوران اسنے NATO کے سربراہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔ مگر راتوں رات واپس ماسکو پہنچ گئی۔ میچ کے وقفہ میں وہ اپنے مدمقابل فرانسیسی ٹیم کے کمرے میں اچانک جا وارد ہوئی۔ اس نے ان کا بھی حوصلہ بڑھایا۔ کروشیا بہتر ٹیم ہونے کے باوجود تجربہ کار فرانس کی ٹیم سے شکست کھا گئی ۔ کولنڈا سب کھلاڑیوں سے بغلگیر ہوئی۔ مگر جب کپتان موڈرچ سے ملی تو دونوں پھوٹ پھوٹ کر رودیئے۔ چشم فلک بھی اس منظر کی تاب نہ لاسکا۔ بے تحاشہ برسا۔ جوانسال موڈرچ جسے Golden ball award یعنی دنیا کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز سے نوازا گیا بولا ۔ ماں ۔ میں نے آج تجھے ساری دنیا کے سامنے شرمسار کردیا۔ کولنڈا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولی۔ میرے بچے ۔ تم مٹھی بھر جوانوں نے دنیا کے دل جیت لئے ہیں ۔ آج تم ہار کر بھی فتح یاب ہو ۔

میرے ملک کے لئے عزت کا یہ مقام ایک دھات سے بنے کپ کو تھامنے سے بدرجہا بہتر ہے ۔ اس نے تیز بارش میں چھتری واپس کردی اور بولی میرے بچے بارش میں نہا رہے ہیں ۔ میں بھی انکے ساتھ مسرور ہوں۔ کولنڈا نے کروشیا کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرنے کی قسم اٹھا رکھی۔ اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسے یورپین یونین کا رکن بنوایا۔ جس سے سے روزگار اور تجارت کے بے پناہ مواقع میسر آئے۔ NATOکی پہلی مرتبہ خاتون اسسٹنٹ سیکریٹری منتخب ہوئی۔ وہ پوٹن اور میکرون کے بیچ کھڑی بلند وبالا نظر آئی۔ اپنے گرد نگاہ دوڑائیں تو ہم غلاموں کی مانند ارب پتی خانوادوں اور انکے بعد انکی اولاد کی چوکھٹ کو چومتے نظر آتے ہیں ۔ ہماری بصارت اور بصیرت سے محروم آنکھ گلے میں پڑے طوق اور پاوں میں بندھی زنجیروں کو محسوس ہی نہیں کر پاتی۔ کیا ہم بھی کسی عام آدمی کو غیر معمولی ذہانت ۔اخلاص اور بلند اخلاق کی بنیاد پر اپنا رہبر چنیں گے۔ ہم تو 75 سالوں سے ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی میں لگے ہوئے ہیں . ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ملک اور قوم کو غربت ، جہالت ، پسماندگی میں دھکیل نے کے بعد بھی سنجیدہ نہیں نہ اس ملک کا اور نہ یہ مظلوم قوم کا کوئی احساس نہیں کہ کدھر اس ملک کو لیکر جارہے تین ارب ڈالر کے لیے دنیا کے بڑوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہورہے ہیں پھر بھی شرم نام کی کوئی ان کے لیے بات نہیں
یقین مانیں ۔۔۔ہمیں بھی چند ایسی قصاب کی بیٹیوں کی ضرورت ہے۔
جو ہماری بھی قسمت کو بدل دیں ۔
انشاءاللہ وہ سویرا جلد طلوع ہو گا۔
جب دھرتی کروٹ بدلے گی۔
جب قید سے قیدی چھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے۔
جب ظلم کے بندھن پھوٹیں گے۔
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے ۔
وہ صبح ہمیں سے آئے گی۔
منحوس سماجی ڈھانچوں میں جب ظلم نہ پالے جائیں گے ۔ جب ہاتھ نہ باندھے جائیں گے جب سر نہ اچھالے جائیں گے ۔ جیلوں کے بنا جب دنیا
بقول ساحر لدھیانوی کے
کی سرکار چلائی جائے گی
سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے
ملوں سے نکلیں گے ۔
بے گھر بے در بے کس انسان تاریک بلوں سے نکلیں گے۔
دنیا امن اور خوشحالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی ۔ اس صبح کو ہم ہی لائیں گے وہ صبح ہمیں سے آئے گی۔“

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 84102 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.