کوئی انسانی معاشرہ تہذیب سے خالی نہیں


“ تہذیب وثقافت ہر معاشرہ اپنی مخصوص روایات، تہذیب وتمدن اور ثقافت رکھتا ہے اور کسی بھی معاشرے، خطے، قوم یا ملک کی تہذیب و ثقافت نہ صرف اس کی تاریخ کی ترجمان ہوتی ہے بلکہ یہ اس کے تاریخی طرز تعمیر اور معاشرے کی بودوباش کی بھی عکاس ہوتی ہے۔ یقینا کوئی بھی معاشرہ اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے بغیر اپنی تاریخ سے منسلک نہیں رہ سکتا۔ ہر قوم کی ایک تہذیبی شخصیت ہوتی ہے۔ اس شخصیت کے بعض پہلو دوسری تہذیبوں سے ملتے جلتے ہیں، لیکن بعض ایسی انفرادی خصوصیتیں ہوتی ہے جو ایک قوم کی تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے الگ اور ممتاز کرتی ہیں۔ ہر قومی تہذیب اپنی انہیں انفرادی خصوصیتوں سے پہچانی جاتی ہے۔ جب سے پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا ہے، ہمارے دانشور پاکستانی تہذیب اور اس کے عناصر ترکیبی کی تشخیص میں مصروف ہیں. پاکستانی تہذیب نام کی کوئی شئے ہے بھی یا ہم نے فقط اپنی خواہش پر حقیقت کا گمان کر لیا ہے اور اب ایک بے سود کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ چونکہ ہر ریاست قومی ریاست ہوتی ہے اور ہر قومی ریاست کی اپنی انفرادی تہذیب ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستان کی بھی ایک قومی تہذیب ہے یا ہونی چاہئے۔ لیکن پاکستانی تہذیب پر غور کرتے وقت ہمیں بعض امور ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست فقط ایک جغرافیائی یاسیاسی حقیقت ہوتی ہے.

پاکستان کی سرحدیں آج وہ نہیں ہیں جو 14 ؍اگست 1947 کو تھیں۔ مگر قوموں اور قومی تہذیبوں کے حدود بہت مشکل سے بدلتے ہیں. بعض ریاستوں میں ایک ہی قوم آباد ہوتی ہے۔ جیسے جاپان میں جاپانی قوم، اٹلی میں اطالوی قوم اور فرانس میں فرانسیسی قوم۔ ایسی ریاستوں کو قومی ریاست کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوتی ہیں۔ جیسے کینیڈا میں برطانوی اور فرانسیسی قومیں۔ چیکو سلوواکیہ میں چیک اور سلاف، عراق میں عرب اور کُرد، سویت یونین میں روسی، اُزبیک، تاجیک وغیرہ۔ جن ملکوں میں فقط ایک قوم آباد ہوتی ہے وہاں ریاستی تہذیب اور قومی تہذیب ایک ہی حقیقت کے دونام ہوتے ہیں، لیکن جن ملکوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوں وہاں ریاستی تہذیب کی تشکیل و تعمیر کا انحصار مختلف قوموں کے طرز عمل، طرز فکر اور طرز احساس کے ربط و آہنگ پر ہوتا ہے۔ اگر اتفاق اور فاقت کی قوتوں کو فروغ ہو تو رفتہ رفتہ ایک بین الاقوامی تہذیب تشکیل پاتی ہے. اور اگر نفاق اور دشمنی کی قوتوں کا زور بڑھے، مختلف قومیں صنعت و حرفت میں، زراعت و تجارت میں، علوم و فنون میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے بجائے ایک دوسرے پر غلبہ پانے یا ایک دوسرے کا استحصال کرنے کی کوشش کریں، یا ایک دوسرے سے نفرت کریں، اگر ملک میں باہمی اعتماد کے بجائے شک و شبہ اور بدگمانی کی فضا پیدا ہو جائے تو مختلف تہذیبی اکائیوں کی سطح اونچی نہیں ہوسکتی اور نہ ان کے ملاپ سے کوئی ریاستی تہذیب ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔

سرسید احمد خاں نے انسان اور انسانی تہذیب کے بارے میں اب سے سوسال پیشتر ایسی معقول باتیں کہی تھیں جو آج بھی سچی ہیں مثلاً سرسید کہتے تھے کہ ’’انسان کے افعال اور نیچر کے قاعدوں میں نسبت قریبی ہے۔ دوسرے یہ کہ انسان کے افعال اور ان کی باہمی معاشرت کے کام کسی قانونِ معین کے تابع ہیں. تیسرے یہ کہ ’’انسان کے افعال ان کی خواہش کے نتیجے نہیں ہیں بلکہ حالات ماسبق کے نتیجے ہیں۔‘‘ چوتھے یہ کہ ’’کوئی انسانی معاشرہ تہذیب سے خالی نہیں ہے‘‘ اور پانچویں یہ کہ ’’انسان نیچر کو تبدیل کرتا ہے اور نیچر انسان کو تبدیل کرتا ہے اور اس آپس کے تبدیلات سے سب واقعات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ ہمارے افکار و احساسات آسمان سے نہیں ٹپکتے اور نہ زمان ومکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں بلکہ تہذیب کے دوسرے عوامل کی طرح سماجی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہر تہذیب کے نظام ِ فکرواحساس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور ان تبدیلیوں کا باعث سماجی حالات میں تغیرات ہیں لیکن سماجی حالات اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک خود معاشرے کے اندر کوئی ایسی سماجی قوت نہ ابھرےے جو ان حالات کی نفی کرتی ہو۔ ں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ تہذیب جب طبقات میں بٹ جاتی ہے تو خیالات کی نوعیت بھی طبقاتی ہو جاتی ہے اور جس طبقے کا غلبہ معاشرے کی مادی قوتوں پر ہوتا ہے، اسی طبقے کا غلبہ ذہنی قوتوں پر بھی ہوتا ہے۔ معاشرتی ماحول اور سماجی حالات میں جو تبدیلیاں آتی ہیں ان کا اثر قدروں پر بھی پڑتا ہے۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادئئ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادئئ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادئئ: 267 Articles with 84290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.