کیپ ٹاؤن شہر نہیں …. آخری وارننگ ہے


کیپ ٹاؤن کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔اس کا شمار براعظم افریقہ کے متمول ترین شہروں میں ہوتا ہے۔جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ اسی شہر میں قائم ہے۔دنیا کے کئی ارب پتیوں نے یہاں املاک خریدی ہوئی ہیں اکثر امیر حضرات اپنی گرمیوں کی تعطیلات اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ یہاں گزارنے آتے ہیں. ۔ نیلا بحر اوقیانوس مٹیالے بحرِ ہند سے کیپ ٹاؤن کے کناروں پر ہی گلے ملتا ہے۔
پینتالیس لاکھ سے زائد آبادی ہر جدید اور خوشحال شہر کی طرح دو طبقات میں بٹی ہوئی ہے۔ خادم اور مخدوم۔ جو مخدوم ہیں وہ بہت ہی مخدوم ہیں۔سب کے رنگ صاف اور تمتماتے ہوئے۔ زندگی کا محور بڑے بڑے سوئمنگ پولز والے ولاز ، سایہ دار گلیاں، تازہ ماڈل کی گاڑیاں، فارم ہاؤسز ، کارپوریٹ بزنس اور پارٹیاں۔ شہر کے اسی فیصد آبی وسائل بیس فیصد مخدوموں کے زیرِ استعمال ہیں اور باقی اسی فیصد خدام کو بیس فیصد پانی میسر ہے۔
دس برس پہلے کچھ پاگل ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ بڑھتی آبادی اوور ڈویلپمنٹ ( شہر میں گنجائش سے زیادہ آبادی ) اور ماحولیاتی تبدیلی جلد ہی کیپ ٹاؤن کو ناقابلِ رہائش بنا دے گی۔ظاہر ہے یہ وارننگ سن کر سب ہنس پڑے ہوں گے۔ کیپ ٹاؤن کا حال بھی ہمارے شہر کراچی جیسا ہے. کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے تمام چھوٹے اور بڑے شہروں کے لوگ اس بڑے شہر میں روزگار کے لیے، تو کہیں پڑھنے کے لیے تو کہیں بزنس کے لیے اور کہیں شوقیہ حضرات بھی اس بڑے شہر میں سکونیت کے لیے ہر وہ زرائع استعمال کرتے ہیں. جو جائز یا ناجائز زرائع سے بس کیپ ٹاون میں رہنا چاہتے ہیں. جس سے کیپ ٹاؤن کے مختلف ایریا میں کراچی کی طرح سے کچی آبادیاں ، ناجائز طریقے سے بلڈرز مافیہ کی ملی بھگت سے چھوٹی چھوٹی جگہ پر بڑی بڑی عمارتوں کا کراچی والا نقشہ مستقبل نظر آرہا ہے

ایک دہائی قبل پہلے تک کیپ ٹاؤن کشل منگل تھا۔شہر کی آبی ضروریات پوری کرنے کے لیے گرد و نواح میں چھ ڈیموں کے ذخائر میں ہر وقت پچیس ارب گیلن پانی جمع رہتا تھا۔امرا کو ہر ہفتے سوئمنگ پول میں پانی بدل دینے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔کتوں کو بھی روزانہ دو بار پھواری غسل دینا معمول تھا۔کار تو ظاہر ہے روزانہ دھلتی ہی ہے ، باغ کو مالی پانی نہیں دے گا تو مالی کی ضرورت کیا۔
پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ بے ترتیب آبادی جا بجا آبادی کا دباؤ اور پھر قدرت کی طرف سے خشک سالی آ گئی ، آبی ذخائر بھرنے والے پہاڑی، نیم پہاڑی اور میدانی نالوں کی زبانیں نکل آئیں۔دھیرے دھیرے پچھلے برس اگست سے آبی قلت کیپ ٹاؤن کے ہر طبقے کو چبھنے لگی۔دسمبر تک یہ آبی ایمرجنسی میں بدل گئی اور آج حالت یوں ہے کہ کیپ ٹاؤن کا حلق تر رکھنے والے چھ بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح چوبیس فیصد رہ گئی۔جب یہ دس فیصد پر پہنچ جائے گی تو پانی عملاً کیچڑ کی شکل میں ہی دستیاب ہوگا۔


چنانچہ آبی مارشل لا نافذ کرنا پڑ گیا ہے۔جن آبی ذخائر اور نالوں میں فی الحال رمق بھر پانی موجود ہے وہاں آبی لوٹ مار، ڈکیتی ، پانی کی چھینا جھپٹی اور چوری روکنے کے لیے مقامی پولیس کا اینٹی واٹر کرائم پٹرول متحرک ہے۔غربا کو پانی کی فراہمی کے لیے دو سو ہنگامی آبی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں سے پچاس لیٹر روزانہ فی کنبہ راشن حاصل کیاجاسکتا ہے یہ منظر دیکھنے سے کراچی کے سیلانی ، عالمگیر، چھیپا ، جے ڈی سی وغیرہ کے دستر خوان کراچی کے میںن چوک پر لگے ہوئے افرادوں کی لائین یاد آجاتی ہیں ) یہ پانی آٹھ منٹ تک باتھ شاور سے گرنے والے پانی کے برابر ہے) سوئمنگ پول ، باغبانی اور گاڑیوں کی دھلائی قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔فائیو اسٹار ریسٹورنٹس پیپر کراکری استعمال کر رہے ہیں۔اچھے ہوٹلوں میں دو منٹ بعد شاور خود بخود بند ہو جاتا ہے۔یہ بحران مزید سنگین جولائی تک ہوگا جب پہلے ہفتے میں ڈے زیرو آجائے گا۔ڈے زیرو کا مطلب ہے استعمالی پانی کی نایابی۔حکومت ابھی سے ڈے زیرو سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔


کیپ ٹاؤن دنیا کا پہلا ڈے زیرو شہر بننے والا ہے۔ اس کے پیچھے ایک سو انیس اور شہر کھڑے ہیں۔ان میں بھارت کا آئی ٹی کیپٹل بنگلور اور پاکستان کا کراچی ، لاہور اور کوئٹہ بھی شامل ہے۔آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں۔ سنبھلنے کی مہلت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔


مگر جس ریاست میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر زہر کا پیالہ بن گئی ، جہاں کراچی کو پانی فراہم کرنے والی کلری جھیل کو ہالیجی سے میٹھا پانی فراہم کرنے والی نال کو آلودہ پانی لے جانے والی نہر ( ایل بی او ڈی ) نے کاٹ ڈالا ، جہاں کوئٹہ کی ہنا جھیل سوکھے پاپڑ میں بدل گئی ، جہاں دریاؤں اور سمندر کے ساحل کو خام کچرے اور صنعتی فضلے کا کوڑا گھر بنا کر اجتماعی ریپ ہو رہا ہے، زہریلے پانی سے سبزیاں اگاکے انھیں فارم فریش سمجھ کے ہم اپنے بچوں کے پیٹ میں اتار رہے ہوں.حالات جس طرف جا رہے ہوں اور ان کی سنگینی کا جس قدر احساس ہے اور اس احساس کو مٹانے کے لیے جس طرح ہر فورم پر بس بتایا جا رہا ہے۔اس کے بعد وہ وقت دور نہیں جب کسی عدالت کا ازخود نوٹس تیرانے کے لیے بھی صاف چھوڑ گدلا پانی میسر ہو۔


وضو کو مانگ کر پانی خجل نہ کر اے میر
وہ مفلسی ہے تیمم کو گھر میں خاک نہیں


خدارا! اگر اب بھی ہمارے اداروں ، سیاستدان ، لیڈر، اینکر ، ایکٹر، میڈیا ، سوشل میڈیا کہ لوگوں نے کراچی اور دوسرے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کنٹرول کے خطرات سے عوام اور حکمرانوں کو آگاہ نہیں کیا تو کہیں کیپ ٹاون کی طرح کراچی میں بھی عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہیگا. سندھ حکمرانوں کو اس پر فورا ایکشن لیکر کراچی اور دوسرے شہروں کو کیپ ٹاؤن سے بچنے کے لیے ابھی سے کراچی شہر کو بچانے کے لیے تدابیر نکالنی چاہیے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 84289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.