خودکشی کرنے والے کا قتل کیا جاتا ہے.. مگر کون یہ کرتا ہے؟


کچھ دن پہلے پاکستان کے بہت بڑے سیاسی لیڈر اور بزنس مین کے چھوٹے بھائی عالمگیر ترین ملتان سلطان کے مالک بہت بڑے بزنس مین نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا. ( انا اللہ وانا اللہ راجعون ) یعنی خودکشی کرلی . یہ سن کر پورا ملک پریشان کیونکہ اتنا بڑا بزنس ٹائیکون اس طرح اپنی زندگی بھی ختم کرسکتا ہے. کیونکہ پاکستان کے اخبارات میں تو آئے دن یہ خبریں چلتی ہیں کہ فاقہ کشی سے، محبت میں ناکامی سے، امتحان میں فیل ہونے سے، گھر والوں کی ناراضگی وغیرہ سے اپنی جان ختم کرلی.

جبکہ عالمگیر صاحب مرحوم ماشا اللہ گھر ، دولت ، عزت ، شہرت سب ہی ان کے پاس تھا وہ بھی بے تحاشہ مقدار میں نہ کوئی رشتہ داری میں مسئلہ نہ ہی کوئی جائیداد میں مسئلہ عالمگیر خان صاحب نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے سے پہلے ایک خط تحریر کرکے چھوڑا ہے. جس میں یہ ہی تحریر کیا ہے میں کچھ مہینوں سے اپنی بیماری سے تنگ آگیا ہوں . میرے سے اب یہ برداشت سے باہر ہے نہ سوسکتا ہوں. مختلف بیماریوں کے بارے میں اپنی تحریر لکھی ہے کہ کیا وجہ بنی خودکشی کی۔

لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں اور ایک اچھا خاصا انسان اپنی زندگی کو ختم کرنے کے لیے اس نہج پر پہنچ سکتا ہے یہ کیوں اور کیسے اس اسٹیج پر پہنچ تا ہے اس کو سوائے اپنی زندگی خاتمہ کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا اس وقت بہت بڑے مسلمہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباﹰ آٹھ لاکھ انسان خود کشی کر لیتے ہیں۔ ان بہت ناامید ہو جانے والے انسانوں میں ایسے خواتین و حضرات بھی ہوتے ہیں جو بظاہر بڑے بڑے خاندانوں کے رکن ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ بھی شدید حد تک تنہائی اور ناامیدی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی جان لے لینے والے ایسے انسانوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو اکیلے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے شہریوں میں خود کشی کے رجحان کی شرح بھی مختلف ہے۔ جرمنی میں گزشتہ چند عشروں کے دوران خود کشی کی وجہ سے انسانی اموات میں کافی کمی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود جرمنی میں آج بھی خود کشی کرنے والوں کی سالانہ تعداد سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں اور منشیات کے استعمال کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ بنتی ہے۔

ایرک مارکوس نے دو سو سے زائد وجوہات بیان کیں، جن کا بنیادی خلاصہ یہی ہے کہ خودکشی کسی ایک واقعے سے متصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے کم از کم درجنوں وجوہات لازمی ہوتی ہیں۔ خودکشی کا عمل ایک قتل ہے، خودکشی کرنے والے کا قتل کیا جاتا ہے، معاشرے والے، گھر والے یا وہ قریبی دوست احباب جن سے مرنے والا احد سے زیادہ اٹیچ ہوتا ہے، خودکشی کی وجہ بنتے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں کی بائیوں گرافیز نکال کر پڑھنا شروع کر دیں تو اس میں کئی امیر زادے، کئی مشہور اداکار اور بزنس مین بھی آئیں گے جنہیں مالی یا معاشی مسائل تو بہرحال نہیں ہو سکتے۔ خودکشی پر تحقیق کرنے والے تمام محققین اس بات پر تو متفق نظر آتے ہیں کہ خودکشی کی سب سے زیادہ شرح بیس سے تیس سال کے درمیانی عرصے کی ہے یعنی خودکشی کرنے والا زیادہ تر طبقہ ان نوجوانوں کا ہوتا ہے جو کالجز، یو نیورسٹیز یا میڈیائی انڈسٹری سے وابستہ ہوتا ہے۔


خودکشی کرنے والا انسان اس وقت خود کشی تک پہنچتا ہے جب وہ ہر طرف سے اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے، ڈپریشن، محبت میں ناکامی، گھریلو ناچاقی، شراب نوشی، انتقام، غصہ، سزا، قربانی، خودکشی بمبار، معاشرتی رسم و رواج، صدمہ یا بیرونی خطرہ، معاشی تنگ دستی، جنسی مسائل اور صنفی تنازعات سمیت درجنوں ایسے معاملات ہیں جہاں سے مرنے والے کو خودکشی کی ترغیب ملتی ہے یا پھر وہ جن وجوہات سے خودکشی جیسا نفرت انگیز فعل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ خودکشی کی وجہ کوئی بھی ہو، عموماً ڈیپریشن یا ذہنی دباؤ کے باعث ہی انسان خودکشی کی جانب مائل ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، خودکشی کرنے والے افراد صرف موت کو ہی ذہنی دباؤ سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ڈیپریشن کو کیسے بھگایا جائے، اگر آپ کسی مشکل میں ہیں تو سب سے پہلے اپنی پریشانی کسی قریبی عزیز یا مخلص دوست کو بتائیں۔
تنہائی کو کسی صورت اپنے قریب پھٹکنے نہ دیں، یہ آپ کیلئے زہر قاتل ہے۔ کسی طبی ماہر سے مشورہ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک اور بات، ماہر نفسیات سے رجوع کرنے والے افراد کو پاگل کے طعنے بھی نہ دیں۔ ہمت بندھائیں اور اندھیروں میں روشنی کی کرن دکھلائیں۔ ہمارے دماغ میں ڈوپامین نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو ہمارے دماغ میں خوشی کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ اس مادے کی کمی بھی ہمیں اداسی، مایوسی اور ناخوشی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور یہیں سے ڈپریشن جنم لیتا ہے۔ اگر ڈپریشن کی بات کی جائے تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، تو کیا ڈپریشن کے ہر مریض میں خودکشی کا امکان موجود ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جب بھی کوئی ڈپریشن کا مریض آتا ہے تو وہ اس سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا اس کے دماغ میں خودکش خیالات تو نہیں آرہے؟ خودکشی کا رجحان رکھنے والے لوگ عموماً اس بات کو چھپاتے نہیں، وہ ڈاکٹر کو بتا دیتے ہیں، علاوہ ازیں وہ اپنے آس پاس کے افراد سے بھی اس کا ذکر کرتے ہیں تاہم اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ یہ واضح نشانی ہے اور ایسی صورت میں آس پاس کے افراد کو چوکنا ہوجانا چاہیئے۔


اس بارے میں ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ڈپریشن اور پریشانی کا شکار لوگوں کی مدد کی جائے۔ اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔ جو مسئلہ وجہ بن رہا ہے اس مسئلے کو سلجھانے پر زور دیا جائے، اسی ہی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں اور خدا سے قریب ہونا آپ کو ایک امید دیتا ہے کہ نہیں کوئی نہ کوئی ہے جو مسئلے کا حل نکال دے گا، آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ برا وقت جلد ختم ہوگا اور اچھا وقت بھی آئے گا‘۔ ڈاکٹروں کے مطابق عبادت کرنا اور خدا کے آگے گڑگڑانا کتھارسس کا ایک ذریعہ ہے جو انسان کو بہت ہلکا پھلکا کردیتا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں ذہنی صحت ایک متنازعہ اور نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، اور اس مسئلے کو ایک قدم آگے بڑھ کر سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 84263 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.