پریشر ککر

میں نے جیسے ہی مو بائل فون آن کیا تو میرے کانوں میں دکھ درد تکلیف کا ہمالیہ جیسا بم پھٹ پڑا کوئی شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا الفاظ اٹک اٹک کر ہچکیوں اور دھاڑوں کے درمیان بڑی مشکل سے نکل رہے تھے وہ حد سے زیادہ تکلیف میں تھا اُس کے الفاظ اور ہچکیوں سے لگ رہا تھا جیسے اُس کا کلیجہ پھٹ گیا ہو کسی نے اُس کی متاع حیات کو چھین لیا ہے درد اور کرب کی ایسی شدت کہ کسی بھی لمحے سانس کی ڈوری ٹوٹ سکتی ہے وہ بار بار کہہ رہا تھا سر میں کیوں نہیں مر گیا میرا بیٹا چھوڑ کر کیوں چلا گیا سر وہ مجھے روتا تڑپتا چھوڑ کر چلا گیا سر وہ اب اِس دنیا میں نہیں رہا سر آپ نے مجھے بہت سمجھایا بھی تھا لیکن مجھ پر ایک ہی بھوت سوار تھا میری خواہش ضد کی تکمیل کے لیے اُس نے اپنی جان لے لی باپ بیچارے نے آہوں سسکیوں ہچکیوں کے درمیان ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بتایا کہ اُس کا میٹرک کا سٹوڈنٹ بیٹا اب اِس دنیا میں نہیں رہا اُس کے الفاظ گرم سلاخوں کی طرح میری سماعت کو چھید رہے تھے جوان بیٹے کی موت میں بھی سن سا ہو کررہ گیا میرے اعصاب بھی منتشر سے ہو کر رہ گئے تھے میں کافی دیر تک بے حس و حرکت سا بیٹھا رہا پھر جب اعصاب کچھ نارمل ہو ئے تو اپنے دوست کو فون کیا جو اُن کے قریب تھا وہ بھی حد سے زیادہ سوگوار تھا اُس کے بیٹے کا یہ جگری دوست تھا دونوں کلاس کے ٹاپر بچے تھے میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا سر کل سے ہر ٹی وی چینل پر یہی چیز تو چل رہی ہے کہ میٹرک کے طالب علم نے پرچہ اچھا نہ ہونے پر گھر آکر پستول کنپٹی پر رکھ کر اپنی جان لے لی پھولوں جیسا معصوم نرم و نازک بچہ اور اُس نے اپنے سر میں گولی مار لی یہ سن کر میں مزید دکھی ہو گیا بچے کا زخمی چہرہ بار بار مجھے بھی زخمی کر رہا تھا کیونکہ میں اُس معصوم پھول سے بچے کی نوخیز جوانی سے واقف تھا بہت دکھی یہاں تک کہ میری آنکھوں کے کناروں سے آنسوؤں کی دھاریں میرے رخساروں کو بھگونے لگیں یہ بچہ تین چار بار میرے پاس اپنے والد کے ساتھ آچکا تھا خوبصورت نرم و نازک سمارٹ سا جوان ہو تا بچہ باپ نے آکر کہا سر میں اِس کو ڈاکٹر بنانا چاہتا ہوں یہ میرا ہونہار تا بعدار بیٹا ہے یہ پہلی کلاس سے میٹرک تک ہر کلاس میں ہمیشہ اول آتا رہا ہے اب اِس کی زندگی کا بڑا امتحان ہے نویں جماعت میں توقع کے عین مطابق نمبر لے کر فرسٹ آچکا ہے اب میٹرک کا فائنل امتحان ہے اِس کو دم کر دیں دعا دیں مجھے اور اِس کو پڑھنے کو کچھ بتائیں تاکہ یہ اِس بار بھی اول اور شاندار نمبروں سے پاس ہو میں نے بچے کا نام تاریخ پیدائش پوچھی جو انہوں نے بتائی وہ واقعی ذہین تھا لیکن تھوڑا مسئلہ یہ تھا کہ حد سے زیادہ حساس بھی تھا میں نے بچے کے چہرے آنکھوں میں غور سے جھانکا تو مزید تقویت ملی کہ بچہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ حد سے زیادہ حساس بھی ہے اگر چیزیں نمبرز اِس کی مرضی کے مطابق آتے ہیں تو یہ نارمل رہتا ہے لیکن اگر نتائج اِس کی مرضی کے خلاف آئیں تو ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں میں نے مزید ٹٹولا تو والد صاحب نے بھی منفی سوچوں کے مالک خوابوں کی دنیا میں رہنے والے حساس نکلے یہ چہرے کی نشانی تھی اب والد صاحب اپنی زندگیوں کی ناکامیاں اپنے بچے کی کامیابیوں کی صورت میں نکالنا چاہتے تھے پہلی کلاس سے میٹرک تک بار بار ایک ہی بات کہ تم نے اول آنا ہے بورڈ میں پوزیشن حاصل کرنی ہے گورنمنٹ کے اداروں میں ایم بی بی ایس کرنا ہے بچہ بھی معصوم حساس وہ دن رات محنت کر کے باپ کو خوش کرتا آرہا تھا باپ کی خوشی کے لیے بیٹا کچھ بھی کرنے کو تیار تھا لیکن میں تھوڑا سا ڈر گیا تھا کہ دو قسم کے بچے ہوتے ہیں ایک ایسے کہ اگر فیل ہو جائیں یا نتائج اچھے نہ آئیں تو زیادہ پریشر نہیں لیتے برداشت کر جاتے ہیں جبکہ دوسرا گروپ ایسے بچوں کا جو فیل ہو نے پر والدین رشتہ داروں محلے داروں کا خوف ایسی صورتحال میں ایسے نوخیز معصوم بچوں کا دماغ شل سا ہو کر لاک ہو جاتا ہے اِن کو سمجھ نہیں آتی لہذا یہ گھروں سے بھاگ جاتے ہیں آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو بہت سے زیادہ گھروں سے بھاگنے والے بچے یا خود کشیاں دریاوں میں چھلانگ زہریلی دوائیاں پینے والے یہ حساس معصوم بچے میٹرک کے رزلٹ پر یہ واقعات ہو تے ہیں کیونکہ یہ بلوغت کے دور میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں اِن کا جسم بلوغت کی تبدیلیوں سے گزر رہا ہو تا ہے یہ پریشر والدین کا پریشر برداشت نہیں کر پاتے یا نازک صورتحال کا سامنا نہیں کر پاتے لہذا خود کشی کا بھیانک راستہ چن لیتے ہیں آج کل ہمارے معاشرے کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے بچوں کو مقابلے کے پریشر ککر میں ڈالا ہواہے رشتہ داروں کا اُس میں مقابلہ بچہ کس سکول میں پڑھتا ہے پھر کیسا پڑھتا ہے ٹاپر ہے یا نہیں پھر جب بچوں کی زندگی کا سب سے نازک دور ہو تا ہے جب لڑکیوں لڑکوں میں بلوغت جوانی کی تبدلیاں شروع ہو تی ہیں ذہنی نشونما ایک خاص دور میں داخل ہو تی ہے شعوری بیداری کا آغاز ہو تا ہے بچے سے لڑکپن کا دور بچہ حیرتوں میں گم ہو تا ہے ذہنی نشونما مکمل نہیں ہوتی کہ اُس پر پریشر ڈال دیا جاتا ہے یہاں پر میں ایک نہایت نازک حساس نقطے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کیونکہ پچھلے تین عشروں سے میرا واسطہ روزانہ سینکڑوں لوگوں سے پڑتا ہے پھر لوگ مجھ سے اپنے مسائل بھی شیئر کرتے ہیں لڑکیاں جب پندرہ سال سے بیس سال میں داخل ہو تی ہیں یہ بلوغت جوانی کے دور میں داخل ہوتی ہیں جسمانی تبدیلیاں اِن کے لیے حیران کن ہوتی ہیں دماغ ابھی مکمل نہیں ہوتا یہ معصومیت کی انتہا پر ہوتی ہیں جلدی باتوں میں آجاتی ہیں آپ ڈیٹا اٹھا کر چیک کر لیں گھروں سے بھاگنے والی زیادہ بچیاں اِسی عمر میں ہوتی ہیں میٹرک انٹر یا اِس عمر کی لڑکی کسی کے بہکاوے میں آکر گھر سے بھاگ جاتی ہے یا محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے اِس دور میں بچیوں پر خاص دھیان توجہ کی ضرورت ہو تی ہے اُس کو تنہا نہ چھوڑا جائے اُس کو بغور دیکھا جائے کہ کون کیا کر رہی ہے والدین اُس کے ساتھ ہمدردانہ سلوک رکھیں ورنہ گھرسے لڑائی جھگڑے گھر کا ڈپریشن زدہ ماحول بچیوں کو دوسروں کی آغوش میں دھکیل دیتا ہے لہذا والدین کو اپنی بچیوں کے ساتھ فاصلہ بلکل بھی نہیں رکھنا چاہیے اُس کو اتنا پیار توجہ دیں کہ اُس کو بیرونی توجہ کی ضرورت ہی نہ پڑے اِسی طرح اِس عمر کے لڑکوں پر بھی خصوصی توجہ دیں اُس کا مزاج ٹیلنٹ دیکھ کر اُس کا کیرئیر کا انتخاب کریں اگر بچہ زیادہ ذہین نہیں تو اُس کو مقابلے کے پریشر ککر میں نہ ڈالیں اِس طرح وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر اپنی زندگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے جس بچے نے خود کشی کی اُس کے والد صاحب کو میں نے دبے لفظوں میں بہت سمجھا یا تھا کہ آپ نے معصوم دماغ پر بہت سارا پریشر ڈال دیا ہے اب وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اگر میرا پرچہ ٹھیک نہ ہوا اور میں باپ کی امیدوں پر پورانہ اترا تو قیامت آجائے گی اور پھر یہی ہوا اس کے سار ے پرچے اچھے ہو رہے تھے صرف ایک پرچے کا ایک سوال اچھا نہ کر سکا پھر باپ کا پریشر کہ اول آنا ہے معصوم ذہن پریشر برداشت نہ کر پایا زندگی بوجھ بن گئی گھر آکر والد صاحب کا پستول اٹھا یا اور پریشر ککر سے آزاد ہو گیا والدین کو گھروں میں اِس طرح آزاد ہتھیار بھی نہیں رکھنے چاہیں دوسرا بچوں کو حوصلہ اور اعتماد دیں کہ اگر چھا رزلٹ نہ بھی آیا تو کوئی بات نہیں ہم دوبارہ کو شش کر لیں گے خدا کے لیے بچوں کے ٹیلنٹ کے مطابق بچوں کے کیرئیر کا انتخاب کریں اور بچوں کو پریشر ککر میں نہ ڈالیں ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 656604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.