قاسم کے بابا کے اُوپر نااہلی کی تلوار کا وار چلے گا

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں سیاست میں اس ہی طرح کا پروجیکٹ مختلف بدلاؤ کے ہوتا آیا ہے. اس وقت تحریک انصاف کے چیرمین قاسم کے بابا پر نااہلی کی تلوار کی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے. اب نو مئی کے واقعات کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر یہی بازگشت سننے کو ملی تھی مگر اب توشہ خانہ پر تحریک انصاف قاسم کے بابا کے حوالے سے سننے کو مل رہی ہے۔ اور اب کی بار اس پر تجزیہ کار اپنی زیادہ تر یہ ہی رائے دیتے ہیں شاید اس پر اب عمل ہوتا نظر آرہا ہے. مگر آج اس کی جماعت تحریک انصاف اور اس کے چیرمین پر اس کو نااہلی یا ’مائنس ون‘ فارمولا کی بازگشت ماضی میں متعدد مواقع پر نہ صرف سننے کو ملتی رہی ہے بلکہ اس کا عملی اظہار بھی سامنے آتا رہا ہے.
مگر جس طرح پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے (سابق) رہنماؤں کی جانب سے یکے بعد دیگرے خزاں کے پتوں کی طرح جھڑنا شروع ہوئے کہ اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں. ان ہی پریس کانفرنسز کے بعد ان چہ میگوئیوں میں تیزی آئی ہے۔ ہواضح رہے کہ نو مئی کے واقعات، کے بعد تحریک انصاف کے اکثر رہنما اور کارکن گرفتار کر لیے گئے اور کافی تعداد میں ابھی تک زیر مین ہوگئے ہیں . پاکستانی عدالتی احکامات کے بعد باوجود ان میں سے متعدد کو رہائی کے بعد فوراً دوسرے کیس میں دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے کوئی ایم پی اوکے تحت نظر کردیا گیا اور کئی ابھی تک تھانے و جیلوں میں ریمانڈ پر زیر تفتیش ہیں۔
جبکہ تحریک انصاف کی سرکردہ عہدیدار جن میں ڈاکٹر شیریں مزاری، ملیکہ بخاری، مسرت جمشید چیمہ ، مسز چیمہ ، فواد چوہدری، علی زیدی، عمران اسماعیل، اسد عمر، وغیرہ نے اپنی راہیں جماعت سے بھی اور اپنے لیڈر سے بھی جُدا کرلیں اس کی اہم وجہ یہ تمام عہدیدار بند کمروں کی سیاست کرنے والے لوگ تھے. نہ ہی یہ نظریاتی تھے اور نہ ہی مخلص اپنی جماعت سے اور نہ ہی قاسم کے بابا سے. ان کے ہر علاقہ میں متحدہ کی طرح دو دو گروپ تھے. جو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر لگے رہے نہ تنظیمی کام کیے نہ ہی اپنے کارکنان اور علاقائی اور صوبائی لیڈرشپ کو آگے بڑھنے دیا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگایا.
سندھ اور کراچی میں قاسم کے بابا اور ان کی تنظیم کو جو نقصان پہنچایا ان میں علی زیدی ، عمران اسماعیل اور خرم شیر زمان نے انہوں نے اپنی آجائے داری تنظیم میں رکھنے کے کیے مخلص لوگ جیسے شمیم نقوی صاحب ، فیصل واڈا وغیرہ کو بالکل دیوار سے لگادیا اس کا خمیازہ تنظیم کو بلدیاتی الیکشن کے رزلٹ میں مل گیا جو کامیاب بھی ہوئے وہ بعد میں آدھے سے زیادہ پی پی کے نظر ہوگے. کراچی میں ایک عالمگیر محسود کے نام سے نیشنل ممبرز آیا کہاں سے آیا کس طرح سے آیا اب وہ کہیں نظر بھی نہیں آرہا ہے. قاسم کے بابا ہر دوسرے تیسرے دن قوم سے سوشل میڈیا میں قوم کو صورتحال کا بتاتے ہیں. اکثر دفعہ تسلیم کیا کہ اس وقت ان سے رابطہ کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ مشروط انداز میں ’پیچھے ہٹنے‘ کو تیار ہیں۔
گر قاسم کے ابا قیادت سے کچھ عرصہ کے لیے گوشہ نشین ہوجائیں . اور قاسم کے ابا کی جانب سے قیادت کسی اور کے حوالے کرنے کے بہت ہی کم امکانات نظر آتے ہیں کیونکہ ان کی تاوقتیکہ قانونی مشکلات یا مقدمات اُن کے لیے پارلیمانی سیاست کا دروازہ ہی بند نہ کر دیں۔ ایسے میں یہ سوال اہم نظر آتا ہے ہے کہ اگر قاسم کے ابا کی نااہلیت یعنی ’مائنس قاسم کے ابا ‘ فارمولا کے تحت تحریکِ انصاف کی قیادت کون سے رہنما کو جاسکتی ہے . اور کیا یہ صورتحال اس پارٹی کے کارکن کے لیے قابل قبول ہو بھی سکتی ہے یا نہیں؟
یہ ضروری ہے کہ قاسم کے ابا کی جانب سے قوم سے خطاب کا وہ حصہ سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے جس میں انھوں نے پیچھے ہٹنے کا عندیہ دیا۔
اس ہی دوران قاسم کے ابا کی پیچھلی تقاریر نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ’جو لوگ یہ فیصلے کر رہے ہیں کہ قاسم کے ابا کو باہر رکھو، کیا ان کو نہیں نظر آ رہا کہ پاکستان ڈوب رہا ہے؟ کیا ان کو نہیں یہ نظر آ رہا کہ ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں؟‘
’میں آج کمیٹی بنانے کے لیے تیار ہوں، ایک مذاکراتی کمیٹی، کسی سے بھی وہ، جو بھی آج طاقتور لوگ ہیں وہ بات کریں۔ قاسم کے ابا نے کہا کہ ’میں یہ کمیٹی بناتا ہوں۔ میں دو چیزیں کہتا ہوں۔ اگر اس کمیٹی کو یہ بیٹھ کر کہہ دیں کہ قاسم کے ابا کے بغیر، پاکستان بہتر ہو جائے گا اور آپ کے پاس کوئی حل ہے، میں پھر سے کہتا ہوں کہ اس ملک کی خاطر میں چھوڑ دیتا ہوں، میں پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔ واضح رہے کہ اسی خطاب میں قاسم کے ابا نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ کسی کے پارٹی چھوڑ کر جانے سے فرق نہیں پڑتا اور الیکشن میں وہی جیتے گا جس کو وہ ٹکٹ دیا جائیگا۔
فی الحلال قاسم کے ابا کا ملک سے باہر جانے کا ارادہ نہیں وہ اس کی شروعات سے ہی ندی کرتے آئے ہیں کہ میرا جینا مرنا میرا ملک اور اس کی مٹی ہے اور میں اپنے ملک کی ہی میں رہنا چاہتا ہوں ۔ ایک ایسے وقت میں جب ایک جانب پارٹی کے عہدیدار دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں اور دوسری جانب جہانگیر ترین اپنے بھائی کی المناک موت کے بعد پھر لاہور میں زبردست طریقے سے متحرک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، الیکٹیبلز یعنی بااثر سیاسی شخصیات کی ایک اکثریت اگر اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال دے تو تحریک انصاف کے انتخابی امکانات کو دھچکہ ضرور پہنچے گا. دوسری جانب قاسم کے ابا کے بعد پارٹی کی اہم ترین شخصیات میں شاہ محمود قریشی جو اب ضمانت ہونے سے آزاد ہوگئے ہیں مگر وہ زمان پارک میں تو نظر آتے ہیں مگر پی ٹی آئی کے ترجمان بن کر ایکادوکا ہی صحافیوں کے سامنے نظر آئے ہیں . ۔ چوہدری پرویز الہی کی جانب سے بھی کئی دفعہ یہ بیانیہ سامنے آ چکا ہے کہ فی الحال ان کا پی ٹی آئی اور قاسم کے ابا کا ساتھ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے.
تاہم چوہدری پرویز الہی 11 جولائی کو ضمانت ہونے پر باہر آگئے ہیں اور چودہری پرویز الہی نے ہمیشہ کی طرح فوج سے بہتر تعلقات قائم رکھنے کی امید کا اظہار بھی کئی دفعہ کہہ چکے ہیں۔ اس وقت ’پی ٹی آئی میں ایسی ایک ہی شخصیت ہے جو واسم کے ابا کا متبادل ہو سکتی ہے اور وہ شاہ محمود قریشی ہیں۔ تحریک انصاف میں تو مائنس ون فارومولا کامیاب نہیں ہو گا کیوںکہ ’یہ فارمولا پہلے بھی کبھی کامیاب نہیں ہوا لیکن قاسم کے ابا پر جو توشہ خانہ کا کیس کا فیصلہ آنے پر ہے اس میں اگر قاسم کے ابا نااہل ہوجاتے ہیں تو کیا قاسم کے ابا شاہ محمود قریشی کو اپنا جانشین بنانے کا فیصلہ کرپاتے ہیں. پی ٹی آئی کے اکثر سپورٹر کا پرویز الہی اور محمود قریشی کو قاسم کے ابا کا جانشین پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے.
اکثریت کی یہ ہی مرضی ہے کہ ان دونوں میں سے بھی کسی ایک کو جانشین بنایا یہ پارٹی پر ہی قابض ہوجائینگے اور پھر یہ ہی پی ٹی آئی مورثی جماعت نہ بن جائے . یہ کہنا اس وقت سج ہے کہ پارٹی سے کسی کے جانے کا ان کی مقبولیت اور ووٹ بینک پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ’الیکٹیبلز کے جانے سے فرق پڑے گا۔ پاکستان میں ’الیکٹیبلز کا اپنا ووٹ بینک ہوتا ہے، جماعت کا اپنا ووٹ ہوتا ہے۔‘ خیبر پختونخوا کے مقابلے میں پنجاب میں الیکٹیبلز کے جانے سے تحریک انصاف کو بہت زیادہ فرق پڑے گا۔ اس وقت تحریک انصاف کا ووٹر جو نوجوان ہے اور خصوصاً خواتین ووٹر کا تعلق صرف قاسم کے ابا کو ہی ہوسکتا ہے۔
’اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو اگر قاسم کے ابا نااہل ہوتے ہیں تو کیا ہوگا ، تو پھر کوئی ایسا ہی شخص پارٹی کو سنبھال سکے گا جس کو قاسم کے ابا کی آشیرباد حاصل ہو گی کیوںکہ اس کے علاوہ کوئی اور اکیلے پارٹی کو سنبھال نہیں سکتا۔ اگر شاہ محمود قریشی اور پرویز الہی دونوں وراثتی سیاستدان ہیں اگر ان کے پاس پارٹی گئی تو پھر واپس نہ آنے کا شق ابھی تک برقرار ہے. اس وقت ایسی صورتحال میں شاہ محمود قریشی ہی ہیں جو اب ضمانت ہونے ہر آزاد فضاؤں میں ہیں تاہم یہ ہے کہ ’شاہ محمود قریشی کی پارٹی کے اندر کنتی حیثیت ہے، اس پر ایک سوالیہ نشان موجود ہے۔‘
اس وقت کہ ’ تحریک انصاف کے اندر سے بہت سے لوگ جہانگیر ترین سے بھی رابطے میں ہیں جنھوں نے پارٹی کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاہم جہانگیر ترین ، شاہ محمود قریشی کی نسبت زیادہ سیاسی اہلیت اور روابط رکھتے ہیں۔ اس وقت قاسم کے ابا کی مقبولیت کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں لیکن مقبولیت اور الیکشن دو مختلف چیزیں ہیں۔
’ کہ کراچی سے 2018 میں تحریک انصاف کو 14 سیٹیں ملیں لیکن بلدیاتی انتخابات میں معاملہ کیا ہوا؟‘ پنجاب کے شہری علاقوں اور شمالی کی مقبولیت ضرور ہے لیکن پنجاب کی انتخابی سیاست میں الیکٹیبلز اور برادریوں کے ووٹ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔
اگر پرفارمنس یا نظریے اور بیانیے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ’تحریک انصاف کا مستقبل روشن نظر آتا‘ چاہے قیادت قاسم کے ہاتھ میں ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس کے لیے مخلص لوگوں کو آگے لانا پڑئیگا پیچھلے وقت کی ٹیم نے اور خاص کر عہدیداران نے مخلص لوگوں نکال باہر کیا اور اپنے اپنے دوست و احباب کو تنظیمی ڈھانچہ کے برخلاف انہیں آگے لے آئے.
پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور ہم ایسا پہلے ہوتے دیکھ چکے ہیں۔ ’اگر قاسم کے ابا کو گرفتار کر لیا جاتا ہے یا نا اہل کر دیا جاتا ہے، جس کے امکانات موجود ہیں، تو پھر قاسم کے ابا کو کسی کو چننا تو پڑے گا۔‘ ’شاہ محمود قریشی کے بارے میں تو کافی عرصے سے بات ہوتی رہی ہے کہ وہ قاسم کے ابا کی متبادل بنیں گے۔‘
عمران خان کسی ایسے شخص کو ہی چنیں گے جس پر ان کو بھروسہ ہو گا۔ ’ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو آگے لے آئیں۔‘
اس وقت ’تحریک انصاف میں موروثیت نہیں جبکہ عمران خان کی عمر بھی ایک مسئلہ ہے اور ان کے پاس وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔‘
’ان کی پارٹی کی لیڈر شپ کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی اور اب کئی لوگ چھوڑ کر بھی جا رہے ہیں۔‘ ایسے میں ہو سکتا ہے پارٹی کمزور ہو جائے، اگرچہ ان کی ذاتی مقبولیت تو قائم رہے گی لیکن الیکشن حلقے کی سیاست کی بنیاد پر ہوتی ہے۔‘
’اگر حالات قاسم کے ابا کے خلاف ہو جائیں تو آپ کچھ نہیں کر سکتے اور اس وقت سب قاسم کے ابا کے خلاف ایک صفحے پر نظر آ رہے ہیں۔‘ ’اگر عمران خان کی جگہ قیادت کسی کو سونپی جاتی ہے تو اس کے دو ردعمل ہو سکتے ہیں۔‘ ایک تو یہ کہ قاسم کے ابا کے ووٹر جوق در جوق ووٹ دیں اور دوسرا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بد دل ہو جائیں اور باہر نہ نکلیں۔‘
اس وقت ’یہ بات سمجھنی ہو گی کہ قاسم کے ابا ہوں یا نہ ہوں، وہ سیاست میں ایک فیکٹر رہیں گے کیوں کہ ایک بڑی تعداد میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑی جماعتیں کرپٹ ہیں اور وہ تبدیلی نہیں لے کر آ سکتیں۔‘
’یہ لوگ اپنے خیالات نہیں بدلیں گے۔ اب ان کے خیالات اور مایوسی قاسم کے ابا کی شکل میں باہر آئے یا کسی اور شکل میں آئیں، وہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔

 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 84142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.