میاں صاحب

بہت دنوں بعد مجھے جمال کا فون آیا سلام دعا کے بعد بولا صاحب آپ کا دوست میاں صاحب تھوڑے بیمار ہیں میں بار بار ڈاکٹروں کے پاس لے جا چکا ہو ں لیکن ان کو آرام نہیں آیا ساتھ ہی وہ پہلے دن سے ایک ہی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ مجھے پروفیسر صاحب سے دم کرا دو میں اصل میں کسی کام کے سلسلے میں آج اسلام آباد آیا ہوں جب واپس آؤں گا تو ان کو لے کر آپ کے پاس آؤں گا آپ اچھی طرح جانتے ہیں وہ روحانی علاج پر کتنا زیادہ یقین کرتے ہیں لیکن مصروفیت کی وجہ سے اُن کو آپ کے پاس نہیں لا سکا ان کے پاس موبائل تو ہے نہیں آپ میری بیگم کے نمبر پر کال کر کے ان سے بات کر لیں تاکہ ان کو تسلی ہو جائے ورنہ میں واپس آتا ہوں تو ان کو آپ کے پاس لے کر آتا ہوں پھر جمال دیر تک میاں صاحب کی خوبیوں پر بات کر تا رہا پھر طویل کال کے بعد جمال نے کال آف کی تو مجھے شدت سے میاں صاحب کی یاد ستانے لگی باتوں باتوں میں جمال نے بتایا کہ اب میاں صاحب میں جوانوں والی بات نہیں رہی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں گھر سے نکلنا بھی بہت تھوڑا رہ گیا اور خوراک بھی بہت کم لیتے ہیں جسمانی سرگرمیوں میں بھی سست کمزور ہو گئے ہیں میاں صاحب کی بیماری اور بڑھاپے کا سن کر مجھے بہت دکھ ہوا میں نے میاں صاحب کو کڑک بھر پور جوانی میں دیکھا تھا جب میاں صاحب کے چہرے پر جوانی کی آگ روشن تھی اور جسم میں طاقتور جوان خون گردش کرتا تھا جوانی زندگی سے بھرپور میاں صاحب مجھے شدت سے میاں صاحب کی یاد آنے لگی لہذا اگلے دن میں میاں صاحب کی طرف رواں دوا ں تھا ایک تو ان سے ملے بہت دن ہو گئے تھے اوپر سے بیمار پرسی کا ثواب بھی سمیٹنا چاہتا تھا جب میں میاں صاحب کی طرف بڑھ رہا تھا تو بائیس سال پہلے کا وہ دن یاد آگیا جب میری میاں صاحب سے ان کی جوانی میں پہلی ملاقات ہوئی تھی جب میں ایک دن سارادن لوگوں سے ملنے کے بعد اپنے گھر والی گلی میں داخل ہوا تو سیکورٹی گارڈ نے مجھے روک لیا اور کہا سر یہ لوگ پچھلے پانچ گھنٹوں سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں اُس نے پاس کھڑے رکشے کی طرف اشارہ کیا تو مجھے دیکھ کہ رکشے کے اندر سے دو سواریاں برآمد ہوئیں جن کو دیکھ کر مجھے شدید جھٹکا لگا کیونکہ یہ نارمل سواریاں نہیں تھیں بلکہ ایک جوان اور ایک بوڑھا ہیجڑا رکشے سے برآمد ہوا بوڑھا کھسرا کافی بیمار لگ رہا تھا لڑکھڑاتے ہو ئے چل رہا تھا بلکہ جوان ہیجڑا اُس کو سہارا دے کر میری طرف لارہا تھا میرے قارئین یہ خوب جانتے ہیں کہ میں اﷲ کی اِس مخلوق سے بھی بہت پیار کر تا ہوں نفرت یا حقارت سے پیش نہیں آتا دونوں کو دیکھا تو میرے ہونٹوں پر استقبالیہ مسکراہٹ پھیل گئی پاس آئے تو پیار سے بولا جناب آج یہ عظیم لوگ مُجھ فقیر کے پاس کیا لینے آئے ہیں میرا مثبت رویہ دیکھ کر دونوں ریلیکس ہو گئے اب چھوٹا جوان ہیجڑا بولا سرکار میرے میاں صاحب کی طبیعت بہت دنوں سے خراب ہے اِن کو جلال پور جٹیاں میں کھُسریاں والی مسجد جا کر آرام ملتا ہے یہ زور لگارہے ہیں کہ مجھے وہاں لے جاؤ لیکن اِن کی طبیعت خراب ہے اِس لیے میں کسی کے کہنے پر اپنے گرو میاں صاحب کو یہاں لے آیا ہوں کہ یہاں پر اِن کو دم کراتا ہوں جب طبیعت کچھ ٹھیک ہو ئی تو مسجد بھی لے جاؤں گامیاں صاحب کافی دنوں کے بیمار لگ رہے تھے میں دونوں کو گھر کے اندر لے آیا کرسیوں پر بٹھا کر اندر چائے پانی کہا اور سامنے بیٹھ گیا تو جوان بولا جناب آپ کو پتہ ہے ہم معاشرے کے ٹھکرائے ہو ئے لوگ ہیں بیمار ہونے پر کوئی ہمیں پوچھتا تک نہیں اِس لیے ہم بے یارومدد گار ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے آسرا ہی مر جاتے ہیں نہ ہی بیماری کی صورت میں ہم کسی ڈاکٹر یا ہسپتال علاج کی غرض سے جاتے ہیں ہم قدرت اور دم جھاڑوں پر زندہ رہتے ہیں بیمار ہونے پر بے بسی کی موت مر جاتے ہیں میاں صاحب میرے گرو ماں باپ سب کچھ ہیں میں اِن کو اِس طرح بے بسی کی موت مر تا نہیں دیکھ سکتا اِس ڈاکٹر کے پاس بھی لے گیا لیکن کیونکہ میاں صاحب کو ڈاکٹروں کی عادت نہیں ہے بلکہ یہ تو قدرت کے سہارے یا پھر دم جھاڑہ پر زندہ ہیں اِس لیے بار بار مجھے بابا مست کے دربار پر جانے کو کہتے ہیں یا پھر جلال پور جٹیاں میں اُس خاص مسجد میں لے جانے کو کہتے ہیں جو صدیوں پہلے کھسروں نے مل کر بنائی تھی وہاں پر ہمارے بڑے کھسروں کی قبریں بھی موجود ہیں باباجی کے چراغ بھی ہر جمعرات جلانے جاتے ہیں وہاں پر دردوں کا دھاگا بھی صدیوں سے دیا جاتا ہے وہاں پر انتظامیہ بھی کھسروں پر مشتمل ہے تو ایک طرح سے وہ کھسروں کی روحانی درگاہ بھی ہے وہ اور بھی بہت ساری باتیں روایات بیان کر رہا تھا اِسی دوران چائے آگئی تو میں نے چائے لوازمات پیش کی جس کو دونوں کو توقع نہیں کر رہے تھے جب میں نے بتایا کہ بچپن میں بھی بابا مست جی کے دربار پر جاتا رہاہوں میاں صاحب بہت خوش ہوئے پھر دم کرواکر چلے گئے میں نے حکیمی دوائی بھی دی جو انہوں نے استعمال کی خدانے صحت دی اِسطرح میرا دونوں سے تعارف ہوا اب کبھی کبھار دونوں چکر لگا جاتے ہیں میں چھوٹے کھسرے کو بھی میاں صاحب کہتا تھا اُس کے بقول ہم جس کو عزت دیتے ہیں اس کو میاں صاحب جو کھسرہ حج کر آئے اُس کو حاجی صاحب کہتے ہیں جوان کھسرہ ناچ گانا محفلوں میں جا کر کمائی کرتا تھا اِس کمائی سے اپنا اور گرو کا پیٹ پالتا تھا جب میری اِس سے اچھی طرح دوستی ہو گئی تو ایک دن بتا نے لگا پروفیسر صاحب مجھے پیدا ہونے پر گھر والوں نے ادھورا دیکھ کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا جہاں سے میاں صاحب نے مجھے اٹھا کر والدین بن کر پالا میں خدا رسول کے بعد میاں صاحب کو اپنا سب کچھ مانتا ہوں تو بہ کرنا چاہتا ہوں لیکن میاں صاحب کی ذمہ داری اور اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ناچ گانا کرتا ہوں پانچ سال گزر گئے تو ایک دن بہت دل گرفتہ دکھی حالت میں میرے پاس آیا زرد دکھی تھا بولا جناب آپ نے تو میرا حال ہی نہیں پوچھا میاں صاحب اﷲ کو پیارے ہو گئے میری تو دنیا ہی اُجڑ گئی بہت دنوں سے اداس ہوں بابا مست سے بھی ہو آیا ہوں لیکن اداسی نہیں جا رہی ناچ گانے کو بھی دل نہیں کر تا مجھے نہ کسی کے گھر کام لگوا دیں میں نے وعدہ کیا چند دن دو تو ایک دن میرا جاننے والا بہت دکھی میرے پاس آیا کہ اُس کا بچہ ادھورا کھسرا پیدا ہوا ہے میں کیا کروں تو میں نے فورا میاں صاحب کا مشورہ دیا کہ آپ اُس کو گھر میں رکھ لو یہ اُس کو بھی پالے گا باقی کام بھی کرے گا اُس نے فورا میری بات مان لی لہذا میاں صاحب جمال کے گھر شفٹ ہو گئے ایک سال بعد جمال نے کہاسر آپ نے میرے اوپر بہت بڑا احسان کیا ہے جو میاں صاحب کو میرے گھر بھیجا ہے وہ تو بہ کر کے پکا نمازی ہو چکا ہے بہت ایمان دار اور قابل اعتبار بھی ہے پھر چند سال بعد جمال حج کر نے گیا تو میاں صاحب کو بھی حج پر ساتھ لے گیا پھر بہت سارا وقت گزر گیا کبھی کبھی میاں صاحب کے بارے میں جما ل سے بات ہو جاتی میاں صاحب پکی توبہ کے رنگ میں رنگے جا چکے تھے ناچ گانے کو مکمل چھوڑ چکے تھے اسی سوچوں میں گم میں جمال کے گھر پہنچ گیا بھابھی مجھے لے کر میاں صاحب کے کمرے میں پہنچ گئی جو بیماری کی وجہ سے کمزور ہو چکا تھا لیکن اُس کے چہرے پر نور اور آنکھوں میں خاصی چمک تھی جو سچی توبہ والوں کے چہروں پر ہوتی ہے مجھے دیکھا تو بہت خوش ہوئے میں بولا جناب میاں صاحب اب آپ حاجی صاحب ہو گئے ہیں تو آپ کو میاں صاحب کہوں یا حاجی صاحب تو بھیگی آنکھوں سے بولے جناب جب آپ مجھے میاں صاحب کہتے ہیں تو میرے گرو کا چہرہ یاد آجاتا ہے جو میرے لئے ولی اﷲ تھے میرا سب کچھ تھے پھر بہت دیر تک باتیں کرنے کے بعد جب میں واپس آنے لگا تو کہامیاں صاحب میرے حق میں دعا کریں تو وہ بولے میں گناہ گار کیسے دعا کر سکتا ہوں تو میں بو لا آپ سچی تو بہ کر کے اُس پر قائم رہ کر اب اﷲ کے پسندیدہ بندے بن چکے ہیں ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 656602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.