کراچی کا مینڈیٹ تقسیم سے پیپلزپارٹی نے لیا فائدہ


کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی دنیا کاچهٹا بڑا شہر ہے۔ کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا، اس وقت پاکستان جس تیزی سے ترقی کررہا تھا، دنیا اس کے بارے میں یہ ہی کہتی تھی کہ یہ ملک بہت جلد دنیا میں اپنے آپ کو ترقی یافتہ ملک کی سر فہرست میں شامل کرلیگا۔ اس کے بعد ترقی کا پہیہ آگے کیا جاتا وہ وقتی طور پر رک گیا۔ 1959ء میں پاکستان کے دارلحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔
کراچی 52´ 24° شمال اور 03´ 67° مشرق پر واقع ہے۔ کراچی کی ثقافت مشرق وسطی، جنوبی ایشیائی اور مغربی تہذیبوں کے ملاپ سے تشکیل پائی ہے۔ کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی مڈل کلاس آبادی قیام پزیر ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی کراچی شہر میں ہے جہاں کئی جامعات اور کالیجز قائم ہیں۔ کراچی اپنی کثیر نوجوان آبادی کے باعث ملک بھر میں جانا جاتا ہے۔ کراچی کی کئی جامعات ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہیں۔ آزادی کے بعد کراچی کو ملک کا دار الحکومت قرار دیا گیا تو زمینی علاقے ریاست کے زیر انتظام آ گئے۔

1988ء میں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی کا رقبہ (3،527 مربع کلومیٹر ہے ) یعنی 4 لاکھ 25 ہزار 529 ایکڑ (1722 مربع کلومیٹر) میں سے تقریباً 4 لاکھ ایکڑ (1600 مربع کلومیٹر) کسی نہ کسی طرح سرکاری ملکیت ہے۔ حکومت سندھ ایک لاکھ 37 ہزار 687 ایکڑ (557 مربع کلومیٹر)،کے ڈی اے ایک لاکھ 24 ہزار 676 ایکڑ، کراچی پورٹ ٹرسٹ 25 ہزار 259 ایکڑ، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) 24 ہزار 189 ایکڑ، آرمی کنٹونمنٹ بورڈ 18 ہزار 569 ایکڑ، پاکستان اسٹیل مل 19 ہزار 461 ایکڑ، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی 16 ہزار 567 ایکڑ، پورٹ قاسم 12 ہزار 961 ایکڑ، حکومت پاکستان 4 ہزار 51 ایکڑ اور پاکستان ریلوے 12 ہزار 961 ایکڑ رقبے کی حامل ہے۔ 1990ء کی دہائی میں کے ڈی اے کی غیر تعمیر زمین ملیر ڈيولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور لیاری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو منتقل کردی گئی۔ کراچی شہر کی بلدیہ کا آغاز 1933ء میں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر، ایک نائب میئر اور 57 کونسلر ہوتے تھے۔ 1976ء میں بلدیہ کراچی کو بلدیہ عظمی کراچی بنا دیا گیا۔

سن 2000ء میں حکومت پاکستان نے سیاسی، انتظامی اور مالی وسائل اور ذمہ داریوں کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے بعد 2001ء میں اس منصوبے کے نفاذ سے پہلے کراچی انتظامی ڈھانچے میں دوسرے درجے کی انتظامی وحدت یعنی ڈویژن، کراچی ڈویژن، تھا۔ کراچی ڈویژن میں پانچ اضلاع، ضلع کراچی جنوبی، ضلع کراچی شرقی، ضلع کراچی غربی، ضلع کراچی وسطی اور ضلع ملیر شامل تھے۔ سن 2001ء میں ان تمام ضلعوں کو ایک ضلعے میں جوڑ لیا گیا۔ اب کراچی کا انتظامی نظام تین سطحوں پر واقع ہے۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، ٹاؤن، میونسپل ایڈمنسٹریشن۔

واضح رہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں قائم ہے لیکن وہ کراچی کا ٹاؤن نہیں اور نہ ہی کسی ٹاؤن کا حصہ ہے بلکہ پاک افواج کے زیر انتظام ہے۔ کراچی کا رقبہ 3,527 km² ہے۔ مگر برما کا دارالحکومت نیپیداو 7,054 km² رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

جبکہ پاکستان کہ ہر صوبہ میں یہ عنصر قیام پاکستان کہ بعد ہر صوبہ کی سیاسی اور مذہبی جماعت جماعت میں سرائیت کرچکا تھا اور ابھی تک ہے وقت سے پہلے ہی موجود اس لیے اسٹیبلشمنٹ کراچی کا مینڈیٹ تقسیم کرنا چاہتی ہے پھر چاہے پیپلز پارٹی کو ہی فائدہ کیوں نہ ہو۔‘ اس لیے پیپلز پارٹی اسٹیبلیشمینٹ کے اس رویہ سے جتنا اپنی جماعت کا اور اپنے لوگوں کا فائدہ لینا چاہتی اس میں وہ کافی حد تک کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے. مگر اس فائدے سے وقتی طور پر اسٹیبلیشمنٹ اور پیپلزپارٹی کو ہو تو رہا ہےمگر جس طرح بلدیاتی الیکشن میں کھلے عام ایک بڑی جماعت نے دھاندلی کی ہے اور اپنے مئیر کو لانے میں کامیاب ہوئی اگر آنے والے جرنل الیکشن میں بلدیاتی الیکشن جیسی دھاندلی کی تو پیپلزپارٹی کے لیے اب مشکل ہوجائیگی کیونکہ بڑی جماعتیں اتحاد کرکے پیپلزپارٹی کہ خلاف تحریک شروع کرسکتی ہیں. اور یہ ہی سندھ اور پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کو اس پر ابھی سے بچنا چاہیے کہ کہیں بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے.
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.