عبدالرحمان ؓبن عوف

 عبدالرحمان نام، ابو محمد کنیت اور زہری خاندان سے تعلق تھا۔ اصلی نام عبد عمرو تھا۔ جب ایمان لائے تو رسول اﷲؐ نے ان کا نام عبدالرحمانؓ رکھا۔ اسلام کے شروع کے دنوں میں،حضرت ابو بکرؓ کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے تھے۔ حضرت عبدالرحمان ؓ کو بھی دوسرے اصحابؓ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی تھی۔ حبشہ کی ہجرت کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اﷲؐ نے ان کا اسلامی رشتہ حضرت سعد بن الربیع انصاری سے جوڑا۔ حضرت سعد الربیع نے کہا میرا ٓدھا مال اب آپ کا ہے ۔ اس پر حضرت عبدالرحمانؓ نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ اﷲ تمھیں اس سے بھی زیادہ مال دے۔ کہا بھائی مجھے مارکیٹ کا راستہ بتا دو۔چناچہ ان کو یہودی قبیلہ بنی قینقاع کے بازار کی جگہ بتا دی گئی۔ بنی قینقاع کے بازار میں حضرت عبدالرحمان ؓ نے تجارت شروع کی۔ چند سالوں میں تجارت میں اﷲ نے بڑی ترقی دی۔ انہوں نے سارے غزوات میں شرکت کی۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ غزوہ اُحد میں بھی شریک ہوئے۔ اس غزوہ میں بدن پر بیس سے زیادہ آثار جراحت شمار کیے گئے۔ خصوصاً پاؤں میں ضرب لگی جس سے ہمیشہ لنگڑا کرچلتے تھے۔ چھ ہجری شعبان کو رسول اﷲؐ نے ان کو دومۃ الجندل کی مہم پر روانہ کیا۔ کہا کہ لڑائی سے پہلے مخافوں کو اسلام کی دعوت دینا۔ اگر اسلام لے آئے تو ان کے بادشاہ کی لڑکی سے نکاح کرنا۔ قبیلہ کلب کے سردار عیسائی تھے۔وہ اور اس کے قبیلہ حضرت عبدالرحمان ؓ کی تبلیغ سے اسلام لے آئے۔ رسول اﷲؐ کے فرمان کے مطابق کلب قبیلہ کے سردار کی بیٹی کو نکاح کا پیغام پہنچایا۔ قبیلہ کلب کے سردار اصبغ نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت عبدالرحمانؓ سے کر دی۔ غزوہ مکہ میں بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر حضرت خالدؓ سے کسی معاملہ پر تلخ کلامی ہوئی۔ رسول اﷲ ؐ کو معلوم ہوا تو حضرت خالدؓ سے فرمایا۔ بس کرو خالدؓ میرے اصحابؓ کو چھوڑو اگر تم راہ خدا میں اُحد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرو تب بھی ان کے برابر نہ ہوگا۔ خلیفہ اوّل کے عہد میں حضرت عبدالرحمانؓ ایک مخلص مشیر اور مصائب ارائے رکن کی حیثیت سے ہر قسم کے مشوروں میں شریک رہے۔ تیس ہجری کو حضرت عمر فاروقؓ نماز فجر پڑھا رہے تھے کہ عجمی غلام فیروز لولو نے خنجر سے حملہ کر دیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ہاتھ پکٹر کر حضرت عندالرحمان ؓ مصلے پر کھڑا کر دیا۔حضرت عمر نے چھ افراد کے نام خلیفہ کے لیے پیش کیے تھے۔ ان میں حضرت ابو بکرؓ اورعبد الرحمانؓ کا نام شامل تھا۔حضرت عبدالرحمان ؓ نے حضرت ابو بکرؓ کانام پیش کیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کو سب نے خلیفہ منتخب کر لیا۔ عہد عثمانی میں حضرت عبدالرحمانؓ نے خاموشی کی زندگی گزاری۔ کسی محاذ جنگ پر نہیں گئے۔اکتیس ہجری کو اﷲ کو پیارے ہوئے۔جب ثقیفہ بن ساعدہ میں انصاریوں اور مہاجریں کے درمیان خلیفہ منتخب کرنے پر اختلاف ہوا تو حضرت عبدالرحمانؓ نے ابوبکرؓ کے حضرت عمر فاروقؓ کے نام پیش کرنے پر اتفاق کیا اور حضرت ابو بکرؓ خلیفہ مسلمین منتخب ہو گئے۔ خدائے تعالیٰ نے حضرت عبدالرحمان ؓ کو اصابت رائے اور دور اندیشی کا نہایت وافر حصہ عطا کیا تھا۔حضرت عبدالرحمانؓ کا دامن فضل و کمال اور اخلاقی ، جواب دہی سے مالامال تھا۔ خوف خدا ،حب رسول ؐ فیاضی اور انفاق فی سبیل اﷲ ان کے نہایت درخشان اوصاف تھے۔ ایک دفعہ کا واقع ہے کہ کھانا سامنے آیا تو بے اختیار رونے لگے۔ معلوم کیا گیا تو مسلمانوں کا گزشتہ فقر و فاقہ یاد آ گیا۔ کہا اب دنیا کشادہ ہو گئی ہے۔ اس قدر نعمتیں مل گئیں ہیں کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کہیں زندگی میں ہی ہماری نیکیوں کا معاوضہ دے دیا ہے۔ اس کے بعد کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ایک صحابیؓ رسول ؐ اﷲ ہونے کے ناتے ہمیشہ رسول اﷲؐ کے ساتھ رہے۔ ایک دفعہ دیکھا رسولؐ اﷲ موجود نہیں ہیں ۔ تلاش کرتے ہوئے نخلستان پہنچے۔رسول اﷲ ؐ کو سجدے میں دیکھا۔ ایک دفعہ دسترخوان پر روٹی اور گوشت دیکھ کر بے اختیار رو پڑے پوچھا تو کہا کہ رسول اﷲؐ کو تمام عمر پیٹ بھر کر جو کی روٹی نہیں ملی۔ رسولؐ اﷲ نے فرمایا تھامیرے بعد جو میری ازواج مطہرات کی نگرانی و محافقت کرے گا وہ نہایت صادق اور نیکوکار ہو گا۔ یہ فرض حضرت عبدالرحمانؓ کے متعلق تھا۔ وہ حج کے زمانے میں ازواج مطاہرات کے لیے سواریوں کا انتظام فرماتے تھے۔ ان کو امہات المومنینؓ کی خدمت و حفاظت کا فخر نصیب ہوا۔ ایک دفعہ ان کا تجارتی قافلہ مدینہ آیا۔ ان میں سات سو اونٹوں پر گہوں، آٹا اور دوسری اشیائے خود نوش تھیں۔ حضرت عبدالرحمانؓ نے اس سب مال کو اﷲ کی راہ میں دے دیا۔ غزوہ تبوک پر اپنے مال کا آدھا جہاد کے لیے دے دیا۔ جس میں پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹ تھے۔ ایک ایک دن میں تیس تیس غلام آزاد کراتے تھے۔ نماز نہایت خشوع و خصوع کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ بیماری کی وجہ سے ان کو رسول اﷲؐ نے ریشم پہننے کے اجازت دی تھی۔ قد طویل تھا۔ رنگ سرخ سپیدہ ریش دراز تھی۔ غزوہ اُحد میں زخم لگنے سے پاؤں میں لنگ تھا۔ بیویوں کے ساتھ لطف و محبت سے پیش آتے تھے۔ کئی بچے اور بچیاں تھیں۔ حدیث بیان کرتے ہیں رسولؐ اﷲ نے فرمایاحضرت ابو بکرؓ جنتی ہے۔حضرت عمر فاروق ؓ جنتی ہے۔ حضرت عثمان ؓ جنتی ہے۔ حضرت علی ؓ جنتی ہے۔ حضرت طلحہ ؓ جنتی ہے۔ حضرت زبیر ؓ جنتی ہے۔حضرت عبدالرحمانؓ بن عورف جنتی ہے۔حضرت سعد ؓ جنتی ہے۔ حضرت سعیدؓ جنتی ہے۔ حضرت ابو عبیدہؓ جنتی ہے۔

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 955533 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More