فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا طرزِ حکمرانی

حضرت ابوبکر ؓ نے تریسٹھ سال کی عمر میں اواخرجمادی الثانی دوشنبہ کے روز وفات پائی اورحضرت عمرفاروق ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے، خلیفۂ سابق کے عہد میں مدعیان نبوت، مرتدین عرب اورمنکرین زکوٰۃ کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہوچکا تھا۔ یعنی 12ھ میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اورحیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے، اسی طرح 13ھ میں شام پر حملہ ہوا اوراسلامی فوجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں، ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت کا انتقال ہوگیا۔ حضرت عمرؓ نے عنان حکومت ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔ اسلام میں خلافت کا سلسلہ گوحضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد سے شروع ہوا اور ان کے قلیل زمانہ خلافت میں بھی بڑے بڑے کام انجام پائے ؛لیکن منتظم اورباقاعدہ حکومت کا آغازعمرؓ کے عہد سے ہوا، انہوں نے نہ صرف قیصر وکسریٰ کی وسیع سلطنتوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیابلکہ حکومت وسلطنت کا باقاعدہ نظام بھی قائم کیا اوراس کو اس قدر ترقی دی کہ حکومت کے جس قدر ضروری شعبے ہیں، سب ان کے عہد میں وجود پزیر ہوچکے تھے۔ عمرفاروق ؓکی خلافت جمہوری طرز حکومت سےمشابہ تھی، یعنی تمام ملکی وقومی مسائل مجلس شوریٰ میں پیش ہوکر طے پاتے تھے، اس مجلس میں مہاجرین وانصار ؓ کے منتخب اوراکابر اہل الرائے شریک ہوتے تھے اوربحث ومباحثہ کے بعد اتفاق آراء یا کثرت رائے سے تمام امور کا فیصلہ کرتے تھے، مجلس کے ممتاز اورمشہورارکان یہ ہیں: حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبد اللہ بن عوف ؓ، حضرت معاذ بن جبل ؓ، حضرت ابی بن کعب ؓ، حضرت زید بن ثابت ؓ۔مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلس عام بھی تھی جس میں مہاجرین وانصار کے علاوہ تمام سرداران قبائل شریک ہوتے تھے، یہ مجلس نہایت اہم امور کے پیش آنے پر طلب کی جاتی تھی، ورنہ روز مرہ کے کاروبار میں مجلس شوریٰ کا فیصلہ کافی ہوتا تھا، ان دونوں مجلسوں کے سوا ایک تیسری مجلس بھی تھی جس کو ہم مجلس خاص کہتے ہیں، اس میں صرف مہاجرین صحابہ شریک ہوتے تھے۔ مجلس شوریٰ کے انعقاد کا عام طریقہ یہ تھا کہ منادی"الصلاۃ جامعۃ" کا اعلان کرتا تھا لوگ مسجد میں جمع ہوجاتے تھے، اس کے بعد ہر ایک کی رائے دریافت کرتے تھے۔ جمہوری حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہرشخص کو اپنے حقوق کی حفاظت اوراپنی رائے کے علانیہ اظہار کا موقع دیا جائے، حاکم کے اختیارات محدود ہوں اور اس کے طریق عمل پر ہر شخص کو نکتہ چینی کا حق ہو، حضرت عمرؓ کی خلافت ان تمام امور کی جامع تھی۔"ہرشخص آزادی کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا تھا اورخلیفہ وقت اختیارات کے متعلق خود حضرت عمرؓ نے متعدد موقعوں پرتصریح کردی تھی کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے، نمونہ کے لیے ایک تقریر کے چند فقرے درج ذیل ہیں۔مجھ کو تمہارے مال میں اسی طرح حق ہے جس طرح یتیم کے مال میں اس کے مربی کا ہوتا ہے، اگر میں دولتمندہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اوراگر صاحب حاجت ہوں گا تواندازہ سے کھانے کے لیے لوں گا، احباب! میرے اوپر تمہارے متعدد حقوق ہیں جن کا تم کو مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے، ایک یہ کہ ملک کا خراج اورمال غنیمت بے جاطورپر صرف نہ ہونے پائے، ایک یہ کہ تمہارے روزینے بڑھاؤں اورتمہاری سرحدوں کو محفوظ رکھوں اوریہ کہ تم کو خطروں میں نہ ڈالوں"۔ مذکورہ بالاتقریر صرف دلفریب خیالات کی نمائش نہ تھی ؛بلکہ عمرؓ نہایت سختی کے ساتھ اس پر عامل بھی تھے، واقعات اس کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں، ایک دفعہ حضرت حفصہ ؓ آپ کی صاحبزادی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ یہ خبر سن کر کہ مال غنیمت آیا ہے، عمرکے پاس آئیں اورکہا کہ امیر المومنین !میں ذوالقربی میں سے ہوں، اس لیے اس مال میں سے مجھ کو بھی عنایت کیجئے، عمرنے جواب دیا کہ"بے شک تم میرے خاص مال میں حق رکھتی ہو؛لیکن یہ تو عام مسلمانوں کا مال ہے۔ ایک دفعہ خود بیمار پڑے لوگوں نے علاج میں شہد تجویز کیا، بیت المال میں شہد موجود تھا ؛لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جاکر لوگوں سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑا ساشہد لے لوں۔ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں جب عمرؓ کی احتیاط کا یہ حال تھا تو ظاہر ہے کہ مہمات امور میں وہ کسی قدر محتاط ہوں گے۔ عمرؓ نے لوگوں کو احکام پر نکتہ چینی کرنے کی ایسی عام آزادی دی تھی کہ معمولی سے معمولی آدمیوں کو خود خلیفۂ وقت پر اعتراض کرنے میں باک نہیں ہوتا تھا، ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار عمرؓ کو مخاطب کرکے کہا کہ اے عمرؓ اللہ کا خوف کرو۔حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکنا چاہا، عمرؓ نے فرمایا،نہیں کہنے دو، اگریہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اورہم نہ مانیں تو ہم ۔یہ آزادی صرف مردوں تک محدود نہ تھی؛بلکہ عورتیں بھی مردوں کے قدم بہ قدم تھیں۔ ایک دفعہ عمرمہر کی مقدار کے متعلق تقریر فرما رہے تھے، ایک عورت نے اثنا ئے تقریر ٹوک دیا اورکہا اتق اللہ یاعمریعنی اے عمر ؓ !خدا سے ڈر!اس کا اعتراض صحیح تھا عمرنے اعتراف کے طورپر کہا کہ ایک عورت بھی عمر ؓ سے زیادہ جانتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ آزادی اورمساوات کی یہی عام ہوا تھی جس نے عمرؓ کی خلافت کو اس درجہ کامیاب کیا اور مسلمانوں کو جوش استقلال اورعزم وثبات کا مجسم پتلا بنادیا۔ خلافت فاروقی کی ترکیب اورساخت بیان کرنے کے بعد اب ہم انتظامات ملکی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دکھانا چاہتے ہیں کہ فاروق اعظم عمرؓ نے اپنے عہد مبارک میں خلافت اسلامیہ کو کس درجہ منظم اورباقاعدہ بنادیا تھا اور کس طرح حکومت کی ہرشاخ کو مستقل محکمہ کی صورت میں قائم کر دیا تھا۔ نظام حکومت کے سلسلہ میں سب سے پہلا کام ملک کا صوبوں اورضلعوں میں تقسیم ہے، اسلام میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے اس کی ابتدا کی اور تمام ممالک مفتوحہ کو آٹھ صوبوں پر تقسیم کیا، مکہ، مدینہ، جزیرہ، بصرہ، کوفہ، مصر، فلسطین، ان صوبوں کے علاوہ تین صوبے اورتھے، خراسان، آذربائیجان، فارس، ہر صوبہ میں مفصلہ ذیل بڑے بڑے عہدہ دار رہتے تھے، والی یعنی حاکم صوبہ، کاتب یعنی میر منشی، کاتب دیوان یعنی فوجی محکمہ کا میر منشی، صاحب الخراج عینی کلکٹر، صاحب احداث یعنی افسر پولیس، صاحب بیت المال، یعنی افسر خزانہ، قاضی یعنی جج چنانچہ کوفہ میں عماربن یاسر ؓ والی، عثمان بن حنیف ؓ کلکٹر، عبد اللہ بن مسعود ؓ افسر خزانہ، شریح ؓ قاضی اور عبد اللہ بن خزاعی کاتب دیوان تھے۔ خلیفہ وقت کا سب سے بڑا فرض حکام کی نگرانی اورقوم کے اخلاق وعادات کی حفاظت ہے، عمرؓ اس فرض کو نہایت اہتمام کے ساتھ انجام دیتے تھے، وہ اپنے ہر عامل سے عہد لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سوارنہ ہوگا، باریک کپڑے نہ پہنےگا، چھنا ہوا آٹانہ کھائے گا، دروازہ پر دربان نہ رکھے گا، اہل حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔اسی کے ساتھ اس کے مال واسباب کی فہرست تیارکراکے محفوظ رکھتے تھے اورجب کسی عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافہ کا علم ہوتا تھا تو جائزہ لے کر آدھا مال بٹالیتے تھے اور بیت المال میں داخل کردیتے تھے، ایک دفعہ بہت سےعمال اس بلا میں مبتلا ہوئے۔ خالد بن صعق نے اشعار کے ذریعہ سے عمرؓ کو اطلاع دی، انہوں نے سب کی املاک کا جائز ہ لے کر آدھا آدھا مال بٹالیا اور بیت المال میں داخل کر لیا، موسم حج میں اعلان عام تھا جس عامل سے کسی کو شکایت ہو وہ فورا بارگاہ خلافت میں پیش کرے۔چنانچہ ذراذرا سی شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیقات کے بعد اس کا تدارک کیاجاتا تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے شکایت کی کہ آپ کے فلاں عامل نے مجھ کو بے قصور کوڑے مارے ہیں، عمرؓ نے مستغیث کو حکم دیا کہ وہ مجمع عام میں اس عامل کو کوڑے لگائے، حضرت عمروبن العاص ؓ نے التجا کی کہ عمال پر یہ امر گراں ہوگا، عمرؓ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ میں ملزم سے انتقام نہ لوں، عمروبن العاص ؓ نے منت سماجت کرکے مستغیث کوراضی کیا کہ ایک ایک تازیا نے کے عوض دو دو اشرفیاں لے کر اپنے حق سے بازآئے۔حضرت خالد سیف اللہ جو اپنی جانبازی اورشجاعت کے لحاظ سے تاج اسلام کے گوہر شاہوار اوراپنے زمانہ کے نہایت ذی عزت اور صاحب اثر بزرگ تھے محض اس لیے معزول کر دیے گئے کہ انہوں نے ایک شخص کو انعام دیا تھا، عمرؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت ابو عبیدہ ؓ سپہ سالار اعظم کو لکھا کہ خالد ؓ نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا اور بیت المال سے دیا تو خیانت کی، دونوں صورت میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔عیاض بن غنم عامل مصر کی نسبت شکایت پہنچی کہ وہ باریک کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے دروازہ پر دربان مقرر ہے، عمرؓ نے محمد بن مسلمہ ؓ کو تحقیقات پر مامور کیا، محمد بن مسلمہ ؓ نے مصر پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازہ پر دربان تھا اورعیاض باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے، اس ہیئت اورلباس کے ساتھ لے کر مدینہ آئے،عمرؓ نے ان کا باریک کپڑا اتراوادیا اوربالوں کا کرتا پہنا کر جنگل میں بکری چرانے کا حکم دیا، عیاض ؓ کو انکارکی مجال نہ تھی، مگر باربار کہتے تھے۔ اس سے مرجانا بہتر ہے، عمرؓ نے فرمایا کہ یہ تو تمہارا آبائی پیشہ ہے، اس میں عار کیوں ہے؟ عیاض نے دل سے توبہ کی اورجب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ کام کے علاوہ عام مسلمانوں کی اخلاقی اورمذہبی نگرانی کا خاص اہتمام تھا، عمرؓ جس طرح خود اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ تھے، چاہتے تھے کہ اسی طرح تمام قوم مکارم اخلاق سے آراستہ ہوجائے، انہوں نے عرب جیسی فخار قوم سے فخروغرور کی تمام علامتیں مٹادیں، یہاں تک کہ آقا اورنوکر کی تمیز باقی نہ رہنے دی، ایک دن صفوان بن امیہ نے ان کے سامنے ایک خوان پیش کیا، عمرؓ نے فقیروں اورغلاموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اورفرمایا کہ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانے میں عار آتا ہے۔ عمرنے تقریبا5ھ میں ایک مستقبل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلسِ شوریٰ کی منظوری کے بعد مدینہ منورہ میں بہت بڑاخزانہ قائم کیا، دار الخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اورصوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے جداگانہ افسر مقرر ہوئے۔ بیت المال کے حساب کتاب کے لیے مختلف رجسٹرڈ بنوائے، اس وقت تک کسی مستقل سنہ کا عرب میں رواج نہ تھا، عمرنے 16ھ میں سنہ ہجری ایجاد کرکے یہ کمی بھی پوری کردی۔ رفاہ عام کے لیے سڑک، پل اورمسجدیں تعمیر کی گئیں، فوجی ضروریات کے لحاظ سے قلعے چھاؤنیاں اوربارکیں تعمیر ہوئیں، مسافروں کے لیے مہمان خانے بنائے گئے، خزانہ کی حفاظت کے لیے بیت المال کی عمارتیں تیار ہوئیں، عمرؓ تعمیرات کے باب میں نہایت کفایت شعار تھے ؛لیکن بیت المال کی عمارتیں عموما ًشاندار اورمستحکم بنواتے تھے۔ مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ میں جو خاص تعلق ہے اس کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ان دونوں شہروں کے درمیان میں راستہ سہل اور آرام دہ بنایا جائے، عمرؓ نے 17ھ میں اس کی طرف توجہ کی اورمدینہ سے لے کر مکہ معظمہ تک ہر ہر منزل پر چوکیاں، سرائیں اورچشمے تیار کرائے۔ترقی زراعت کے لیے تمام ملک میں نہریں کھدوائی گئیں، بعض نہریں ایسی تھیں جن کا تعلق زراعت سے نہ تھا، مثلاً نہر ابی موسیٰ جو محض بصرہ والوں کے لیے شیریں پانی بہم پہنچانے کے خیال سے دجلہ کو کاٹ کر لائی گئی تھی، یہ نہر نو میل لمبی تھی۔ عمرؓ کے عہد میں جو شہر آباد ہوئے ان کی ایک اجمالی فہرست درج ذیل ہے۔ بصرہ، کوفہ، فسطاط، موصل، جیزہ۔ خلافت فاروقی کا سب سے نمایاں وصف عدل وانصاف ہے، ان کے عہد میں کبھی سرموبھی انصاف سے تجاوز نہیں ہوا، شاہ وگدا، شریف ورزیل، عزیزوبیگانہ سب کے لیے ایک ہی قانون تھا، ایک دفعہ عمروبن العاص ؓ کے بیٹے عبد اللہ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا، حضرت عمرؓ نے اسی مضروب سے ان کے کوڑے لگوائے۔۔ فاروقی عدل وانصاف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھا ؛بلکہ ان کا دیوان عدل مسلمان، یہودی، عیسائی سب کے لیے یکساں تھا۔ قبیلۂ بکربن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مارڈالا، عمرؓ نے لکھا کہ قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالہ کر دیا جائے؛چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کانام حنین تھا سپرد کیا گیا اور اس نے اس کو مقتول عزیز کے بدلہ میں قتل کر دیا۔عمرؓ نے ایک ضعیف شخص کو گداگری کرتے دیکھا، پوچھا"توبھیک مانگتا ہے؟ اس نے کہا مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے، حالانکہ میں بالکل مفلس ہوں"، عمرؓ اسے اپنے گھر لے آئے اور کچھ نقددے کر مہتمم بیت المال کو لکھا کہ اس قسم کے ذمی مساکین کے لیے بھی وظیفہ مقرر کر دیا جائے، واللہ! یہ انصاف نہیں ہے کہ ان کی جوانی سے ہم متمتع ہوں اوربڑھاپے میں ان کی خبر گیری نہ کریں۔ عمرؓ نے فریضۂ خلافت کی حیثیت سے رفاہ عام اور بنی نوع انسان کی بہبودی کے جو کام کیے اس کی تفصیل گزرچکی ہے، ذاتی حیثیت سے بھی ان کا ہرلمحہ خلق اللہ کی نفع رسانی کے لیے وقف تھا، ان کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور عورتوں سے پوچھ کر بازار سے سودا سلف لادیتے تھے، مقام جنگ سے قاصد آتا تو اہل فوج کے خطوط ان کے گھروں میں پہنچاآتے اور جس گھر میں کوئی لکھا پڑھا نہ ہوتا خود ہی چوکھٹ پر بیٹھ جاتے اور گھر والے جو کچھ لکھا تے لکھ دیتے، راتوں کو عموماً گشت کرتے کہ عام آبادی کا حال معلوم ہو، ایک دفعہ گشت کرتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام حرار پہنچے، دیکھا کہ ایک عورت پکاررہی ہے اور دوتین بچے رو رہے ہیں، پاس جاکر حقیقت حال دریافت کی، عورت نے کہا بچےبھوک سے تڑپ رہے ہیں، میں نے ان کے بہلانے کو خالی ہانڈی چڑھا دی ہے، عمرؓ اسی وقت مدینہ آئے اور آٹا، گھی، گوشت اورکھجوریں لے چلے، عمرؓ کے غلام اسلم نے کہا میں لیے چلتا ہوں، فرمایا، ہاں قیامت میں تم میرا بار نہیں اٹھاؤ گے اور خود ہی سب سامان لے کر عورت کے پاس گئے، ا س نے پکانے کا انتظام کیا، حضرت عمرؓ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ایک دفعہ کچھ لوگ شہر کے باہر اترے، عمرؓ نے عبدالرحمن بن عوف ؓ کو ساتھ لیا اور کہا مجھ کو ان کے متعلق مدینہ کے چوروں کا ڈرلگاہوا ہے، چلو ہم دونوں چل کر پہرہ دیں؛چنانچہ دونوں آدمی رات بھر پہرہ دیتے رہے۔ ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک بدو کے خیمہ سے رونے کی آواز آئی، دریافت سے معلو ہوا کہ بدو کی عورت دردزہ میں مبتلا ہے، حضرت عمرؓ گھر آئے اور اپنی بیوی ام کلثوم ؓ کو ساتھ لیکر بدو کے خیمہ گئے، تھوڑی دیر کے بعد بچہ پیدا ہوا، ام کلثوم ؓ نے پکار کر کہا اے امیر المومنین !اپنے دوست کو مبارکباددیجئے، بدوامیر المومنین کا لفظ سن کو چونک پڑا، حضرت عمرؓ نے کہا کچھ خیال نہ کرو، کل میرے پاس آنا، بچہ کی تنخواہ مقرر کردوں گا۔عمرؓ اپنی غیر معمولی مصروفیات میں سے بھی مجبور، بیکس اوراپاہج آدمیوں کی خدمت گزاری کے لیے وقت نکال لیتے تھے، مدینہ سے اکثر نابینا اورضعیف اشخاص فاروق اعظم ؓ کی خدمت گزاری کے ممنون تھے، خلوص کا یہ عالم تھا کہ خود ان لوگوں کو خبر بھی نہ تھی کہ یہ فرشتہ رحمت کون ہے؟ حضرت طلحہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک روز علی الصبح امیر المومنین کو ایک جھونپڑے میں جاتے دیکھا، خیال ہوا کہ فاروق اعظم کا کیا کام ؟دریافت سے معلوم ہوا کہ اس میں ایک نابینا ضعیفہ رہتی ہے اور وہ روز اس کی خبر گیری کے لیے جایا کرتے ہیں۔جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی شان اور انکی سیرت پاک کو چند الفاظ تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔انکی طرز حکومت اور خلافت میں بنائے گئے قوانین اور پالیساں آج کے دور جدید کی ترقی یافتہ اقوام نے اپنائے ہوئے ہیں۔اس تحریر میں آپکی شان میں آخری الفاظ یہ لکھوں گا کہ تاقیامت پیارے آقا کریم کے اس عظیم ساتھی پر لاکھوں کروڑوں سلام۔پیارے آقا کریم کے صحابہ کرام کی شان و سیرت پر صدیوں سے لکھا جارہا اور تاقیامت لکھا جائے گا۔ان شاءاللہ۔اللہ کریم کی کروڑہاں رحمتیں نازل ہوں پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ، آپ کی اہل بیت پر، آپ کے اصحاب پاک رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پر۔ آمین ثم آمین
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 115875 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.