کہانی میسور پاک کی

کہاجاتاہےکہ میسورکے راجا کرشنا راج وڈئیرکو کھانے پینے کا شوق تھا۔لذیذ پکوان ،جدید ذائقے کو آزمانا کرشنا راج وڈئیرکی خصوصیت تھی۔اس کے شاہی باورچی خانےمیں کئی باورچی تھے،مگر سب سے اہم جو باورچی تھا اُس کا نام کاکاسُر مادپا تھا اور وہ راجاکیلئے نئے پکوانوں کو پیش کرنے میں ماہرتھا۔ مہاراجا وڈئیرنےکاکاسُرکو کسی نئی مٹھائی کو تیارکرنے کاحکم دیا،مادپانے راجا کاحکم بجالاتے ہوئے چنے کا آ ٹا (بیسن)،گھی اور شکر کااستعمال کرتے ہوئے ایک مٹھائی تیارکی جسے پہلے تو اس نے حلوے کے طورپر پیش کیا،لیکن بعدمیں راجانے اس حلوےکو میسور پاک کانام دیا۔میسورپاک اس قدر راجا کو پسند آیاکہ اس نے ریاست کی ہر تقریب ،تہوار اور شادیوں میں اسے عام کردیا۔

اس مٹھائی کوعام کرنے کیلئے راجانے مادپاکوحکم دیاکہ وہ اس مٹھائی کو فروخت کرنےکیلئے اپنے محل امبا ولاس کے باہر دُکان رکھے،اس کے بعد سے یہ مٹھائی عام لوگوں کیلئے بھی دستیاب ہونے لگی۔میسورپاک کو بنانے کیلئے ابتداء میں صرف بیسن ،شکر اور گھی کا استعمال ہونے لگاتھا،لیکن وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اس مٹھائی میں گلاب کی پتیاں اور الائچی بھی استعمال ہونے لگی۔کچھ عرصے کے بعدیہ مٹھائی پورے جنوبی ہندمیں معروف مٹھائی بن گئی۔اس وقت کرناٹک کے میسورومیں مادپاکی تیسری اور چوتھی نسل اپنے داداکی بنائی ہوئی مٹھائی کو فروخت کرنے میں مشہور ہیں ، میسورو کے دیوراج مارکیٹ میں گروسوئٹ مادپاکی آل کی ہے،جسے مادپاکے پڑپوتے کماراور شیوانند چلارہے ہیں۔
میسورپاک نہایت شیریں ہوتاہے اور اس میں زیادہ تر دیسی گھی کا استعمال کیا جاتاہے،یہ اس قدر ملائم اور لچکدار ہوتاہے کہ منہ میں رکھتے ہی پگل جاتا ہے۔کرناٹک میں میسوروکے بعدشیموگہ میں وینکٹیشورا سوئٹس ہائوز میں بہترین میسورپاک دستیاب ہوتاہے ،جو دوسرے علاقوں میں بھی اپنی شناخت رکھتاہے۔
ہرعلاقے اور شہرمیں کھانےپینے کی بات کی جاتی ہے وہاں ایک مخصوص پکوان کی شناخت رہتی ہے۔کرناٹک میں بھی ایسے الگ الگ مقامات پر مٹھائیوں کو شناخت حاصل ہے جس میںدھارواڑ کا پیڑا،بلگام کا کندہ،بنگلوروکے نان اور میسورکا میسور پاک مشہورہے،مگر میسورکا میسورپاک اس وقت دنیابھرمیں مشہورہونے لگاہے۔دنیا کے مختلف اسٹریٹ فوڈ اور مٹھائیوں کا سروے کرنےوالے ادارے ٹیسٹ اٹلاس اورورلڈ بیسٹ اسٹریٹ فوڈ سیوئٹس کی طرف سے مشترکہ طورپر کئے گئے سروے میں میسورپاک دنیاکے ٹاپ50 سیوئٹس میں14واں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہواہے۔

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.