کیا ملک میں زرعی انقلاب کشکول توڑنے میں مدد دیگا

پاکستان جب سے آزاد ہوا ہے. دنیا میں تب سے وہ ایک زرعی ملک پہچانا جاتا ہے. اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان میں مختلف علاقوں میں اس وقت بھی تقریبا 15 سے 16 ملین ایکڑ سے زائد رقبہ بنجر پڑا ہوا ہے. جو حکمرانوں کی عدم دلچسپی سے کبھی منظور نظر نہیں گزرا جبکہ اس بنجر رقبہ کو قابل کاشت بنایا کر پاکستان میں ایک زرعی انقلاب رونما کیا جاسکتا ہے. مگر اس ملک میں سیاست اور وہ بھی ایسی گندی ( ایک دوسرے کی ٹانگیں کھیچنا ) کے علاوہ کبھی دلچسپی سے اس ملک کی ترقی کی طرف گئے نہیں جبکہ ’1960ء میں پاکستان میں ایک زرعی انقلاب نے اس ملک کے دروازے پر دستک دیے تھے .اور اب بھی ایک بار پھر جدید زرعی انقلاب لانے کے لیے جدید طرز پر کام کیا جارہا ہے. پاکستان کے چھوٹے کسان اس ٹیکنالوجی سے متاثر تو ہوں گے مگر ان کے لیے یہی طریقہ بہتر ہے. وہ اگر نقصان سے اپنے آپ کو بچاسکتے ہیں کہ وہ ( ایک یونین کونسل یا ضلعی سطح پر گروپس تشکیل دیں ) کیونکہ وہ باہمی اشتراک سے جدید مشینری کا حصول آسان بنا سکتے ہیں۔
( اس وقت ریاست پاکستان اور حکومت نے دیر آئے درست آئے ) نے زرعی انقلاب لانے کا جو عزم اظہار کیا ہے. اس سے مزید بہتری آئے گی ۔ اس وقت گرین پاکستان منصوبے کے تحت جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اس سے پاکستان کو غذائی قلت پر قابو پانے میں بہت حد تک مدد ملے گی. آج کل انٹرنیشنل دنیا میں باڈر سیکیورٹی دوسرے نمبر پر منتقل ہوچکی ہے.( ہم ابھی تک حفاظتی باڑ لگانے میں ہی مصروف تھے) جبکہ فوڈ سیکیورٹی دنیا بھر کی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔ اس وقت صرف بھارت میں 13 اضلاع، 125 کروڑ آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کررہے ہیں۔ اس وقت گندم کی فی ایکڑ پیداوار 55 من تک انڈیا کی پہنچ گئی ہے. لیکن پاکستان میں ٹیکنالوجی سے بےخبر اپنے آپ کو رکھنا اور زرعی آلات میں دنیا بھر میں نئی جدید تحقیقات اور مارکیٹ میں نئی مشینری کی آمد سے ( ہمارا زمیندار اور کسان نہی کرتا اپنے آپ کو روشناس اس ہی وجہ سے زراعت میں ہے بحران نہ ہی سمجھ پایا گزشتہ ادواروں کا حکمران ) بہتر بیج کی عدم دستیابی کے علاوہ دیگر عوامل کے باعث اوسط پیداوار صرف 35 من فی ایکڑ تک محدود ہے. یہ بھی ہر سال نہی اس سے بھی اوسط کم ہوجاتی ہے. اس دفعہ پاکستان اور چائینہ نے مل کر زراعت میں کچھ انقلابی اقدامات لانے کی یاداشت پر دستخط کیے ہیں. اس وقت پاکستان کو سی پیک منصوبہ اور دیگر شعبوں میں پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے. وہیں زراعت میں بھی انقلاب برپا کردے گا پھر چاہے اس سے بھارت کو جھٹکا لگے یا کرنٹ یہ تو اب ہونے والا ہی ہے.
اس وقت چائینہ اور پاکستان کے باہمی اشتراک سے سندھ اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں ابتدائی طور پر ساڑھے 700 ایکڑ پر کاشت کرکے تجربہ کیا گیا ہے۔ جہاں ایک ایکڑ سے مرچوں کی عام فصل کے مقابلے میں 3 گنا زائد یعنیٰ 70 من تک پیداوار حاصل کی گئی ہے۔ یہ مرچ کم از کم 6 انچ لمبی، رنگ اور ذائقے میں منفرد خصوصیات کی حامل ان مرچوں کا کامیاب تجربہ سے بھارت کو ظاہر سی بات ہے جھٹکا لگے کا کیونکہ ایک اندازے کے مطابق چائنہ ماضی میں بھارت سے سالانہ 60 لاکھ ٹن تک مرچیں حاصل کرتا تھا جس سے اس کو کروڑوں ڈالرز ملتے تھے۔ تاہم دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ میں چھڑاو آنے کے بعد سی پیک کی موجودگی میں چینی کمپنیوں نے پاکستان سے فائدہ حاصل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے. اور پاکستان سے 5 برسوں کے دوران 75 ملین ڈالرز کی مرچیں برآمد کرنے کے یاداشت پر دستخط کیے ہیں. اس ہی طرح پاکستان میں چاول کے ہائبرڈ بیج متعارف کروانے والی کمپنی گارڈ ایگری کلچر نے چین کی کمپنی کے ساتھ گزشتہ برس ایک معاہدہ کیا جس کے تحت پنجاب اور سندھ کی لاکھوں ایکڑ اراضی پر موسمی اور دیگر عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرچوں کی 16 مختلف اقسام کاشت کی جائیں گی۔ گارڈ ایگری کلچر کے زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ 5 برسوں میں مرچوں کے اس منصوبے کو پاکستان بھر میں 2 لاکھ ایکڑ تک پھیلایا جائے گا جبکہ چینی کمپنی ملک میں پیدا ہونے والی فصل کا 90 فیصد خرید کر چین برآمد کرے گی جسے وہ گھریلو استعمال کے علاوہ میک اَپ بنانے اور صنعتی رنگ حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کریں گے۔ چینی کمپنی پاکستان میں ٹیکنالوجی منتقل کرے گی اور یہاں مقامی صنعتی پلانٹس بھی نصب کیے جائیں گے۔ اس وقت ملک میں مرچوں کی پیداوار کے لیے سالانہ 2 ارب ڈالرز کے بیچ درآمد کیے جاتے تھے ہائبرڈ مرچوں کے بعد اس میں بہت حد تک کمی اجائیگی لال اور سبز رنگ کی ان مرچوں کا تجرباتی مظاہرہ دکھانے کے لیے ملتان میں ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں 400 کے لگ بھگ کسانوں و زمینداروں نے شرکت کی اور مرچوں کی خصوصیات اور اس کی کاشت کے طریقہ کار سے زمینداروں نے دلچسپی سے اس ٹیکنالوجی مفید آگاہی حاصل کی۔ اس ہی طرح خانیوال میں 20 ایکڑ رقبے پر ہائبرڈ مرچ کاشت کی گئی تھی جس کا خرچہ 30 فیصد تک کم آیا ہے اور پیداوار 70 من فی ایکڑ تک حاصل ہوئی ہے. جس کے بعد وہ دیگر کسانوں کو بھی اس جانب کاشت کرنے کی جستجو دیکھی اس وقت اکثریت سے ماہرین پراُمید ہیں ، کہ جہاں سی پیک منصوبہ دیگر شعبوں میں پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا وہیں زراعت میں بھی انقلاب برپا کرے گا پھر چاہے اس سے بھارت کو جھٹکا لگے یا کسی اور مخالف کو ’کشکول توڑ کر ملک میں زرعی انقلاب لایا جائے گا‘ اس عزم کا اظہار پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت خانیوال میں آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی ذیلی کمپنی ’فون گرو‘ کی جانب سے 2 ہزار 250 ایکڑ پر شروع کی گئی کارپوریٹ فارمنگ کے ابتدائی مرحلے کے افتتاح پر کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انشااللہ پاکستان میں زرعی انقلاب آکر رہے گا، اس ماڈل فارم کی طرز کے جدید فارم بنائیں گے جس سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ ہوگا اور گرین انیشیٹو کا یہ دائرہ کار پورے پاکستان میں پھیلا دیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، عوام اور ریاست کا رشتہ محبت اور احترام کا ہے، سیکیورٹی اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، سیکیورٹی کے بغیر معیشت اور معیشت کے بغیر سیکیورٹی ناممکن ہے۔
خانیوال فارم میں ڈرائیور کے بغیر چلتے ٹریکٹر، آبپاشی کے لیے سینٹر پیوٹ سسٹم اور ڈرونز کے ذریعے فصلوں کی مانیٹرنگ اور ادویات کے اسپرے دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان زرعی انقلاب کی جانب گامزن ہے۔خانیوال کے علاقے پیرووال کی ہزاروں ایکڑ اراضی ہے ۔ جہاں چند برس قبل صرف جنگل آباد تھا اب وہاں کپاس، مکئی اور تلوں کی فصل کی کاشت کا آغاز انشاء اللہ ہوگیا ہے۔ ’فون گرو‘ کی جانب سے صرف 6 ماہ کے عرصے میں نیم آباد اراضی کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے قابل کاشت بنا دیا ہے۔ “ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر طاہر اسلم نے بتایا کہ ابھی تو یہ ابتدا ہے جس میں صرف 2 ہزار 250 ایکڑ اراضی کو قابلِ کاشت بنایا گیا ہے جبکہ رواں برس کے آخر تک مزید 2 ہزار 250 ایکڑ اراضی پیداوار کے قابل بن جائے گی۔ تاہم آئندہ 5 برسوں میں پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں ایک لاکھ ایکڑ صحرا و بنجر زمین کو کاشت کے قابل بنانے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔
اس وقت سی پیک کے تحت اس منصوبے سے بھی براہِ راست فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت چین کی 8 کمپنیاں جو پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گی، وہ ابتدائی طور پر پاکستان کی مختلف کمپںنیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں. اور کپاس، سویابین، تلوں کے بیجوں اور ہائبرڈ مرچوں کی پیداوار سمیت گوشت کی پاکستان سے بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ میں دلچسپی کا اظہار کرچکی ہیں۔ اس سلسلے میں ماہرین کا ایک وفد 15 اگست سے چین بھی جائیگا اور وہ دورے بھی کرے گا جہاں چینی ماہرین کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے بھی بات چیت کی جائے گی۔ آنے والے ادوار میں آئندہ برس کے آغاز میں چین کی کئی کمپنیاں پاکستان میں ڈیڑھ سو ایکڑ سے زائد اراضی پر مکمل طور پر خود کار زرعی فارم بنانے کی خواہش مند ہیں جس میں انسانی عمل دخل نہ ہونے کے برابر یعی کم ہوگا۔ پاکستان کے چھوٹے کسانوں کو بھی اس سے فائدہ ملے گا کیونکہ جو آلات، بیج اور ادویات وہ خود استعمال کریں گے وہ چھوٹے کسانوں کو بھی کم نرخوں اور کرائے پر مہیا کیے جائیں گے تاکہ وہ بھی ان کے شانہ بہ شانہ زرعی پیداوار بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔اس وقت واٹر منیجمنٹ سے بطور ڈی جی ریٹائرڈ ہونے والے انجینیئر مشاق احمد گل اس وقت ’فون گرو‘ کمپنی میں بھی آب پاشی اور زراعت کے لیے واٹر منیجمنٹ کے ماہر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے بقول روایتی کاشت کاری میں ایک ایکڑ کے درمیان 3 کھالے یا ’واٹر چینلز‘ ہوتے ہیں جہاں مختلف مواقع پر پانی ضائع ہوتا ہے۔ اس ہی طرح گنے یا چاول کی کاشت کے بارے میں بتایا کہ روایتی طریقہ کاشت کاری میں 4 سے 5 ایکڑ فٹ پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ اس منصوبے میں استعمال ہونے والے ’سینٹر پیوٹ واٹر سسٹم‘ سے ایک ایکڑ میں صرف ایک ایکڑ فٹ پانی استعمال ہوگا کیونکہ اس کی پیداواری صلاحیت 95 فیصد ہے۔ جبکہ فصلوں کو کھاد یا ادویات پر اسپرے کے لیے الگ مشینری کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ وہ عمل بھی اس سسٹم کے تحت سر انجام دیا جاسکے گا۔ پانی کی بہتر منیجمنٹ سے فی ایکڑ پیداوار میں دگنا اضافہ ممکن ہے۔اس منصوبے کی بس یہ ہے دعا ہے کہ ’اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ پاکستان میں اس وقت بھی 15 سے 16 ملین ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے جسے قابلِ کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ گرین پاکستان منصوبے کے تحت جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اس سے پاکستان کو غذائی قلت پر قابو پانے میں اللہ تعالی کامیابی دے اور پاکستانی عوام کو اس کامیابی کی نوید سنے کو ملے ۔
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81789 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.