خود نمائی کی دوڑ سوشل میڈیا پر

آج تک جتنی بھی عظیم ہستیاں گزری ہیں ان میں سے کسی نے خود نمائی کی دوڑ میں حصہ نہیں لیا بلکہ خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا کام کیا خواہ وہ کوئی غار ہو، کسی مندر، کلیسا یا مسجد کا ممبر ہو ، کسی درخت کا سایہ ہو یا کوئی خود ساختہ لیبارٹری ہو۔ جب ان سے کوئی بڑا کام سر زد ہوگیا تو دنیا والوں نے خود ان کو تلاش کیا اور پھر ان سے اعلان کروایا کہ انہوں نے کیا پا لیا ہے۔ یہ اعلان کسی ریڈیو، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر نہیں اور نہ ہی ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں ہؤا بلکہ گنتی کے چند معتبر لوگوں کے سامنے ہؤا جو رفتہ رفتہ محلہ ، بستی ، گاؤں ، شہر ، ملک و برِّ اعظم اور آخر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اب یہ اس دریافت، ایجاد یا خالقِ کائنات کی جانب سے نزول پر منحصر ہوتا کہ اس میں کتنی سچائی ہے یا کتنا بنی نوع انسان کے لئے کار آمد ہے ۔ ان دونوں حیثیات کی جانچ پڑتال کے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ٹیسٹ ہؤا کرتے اور مختلف الخیال طبقات سے ان کی تصدیق کرائی جاتی ۔ جب اطمینان کے ساتھ یہ مرحلہ طے پا جاتا تو پھر کسی ایسے پلیٹ فارم پر یہ مدعا لے جایا جاتا جو تمام طبقات کو قابل قبول ہو، کئی دن و سال اس پر بحث ہوتی اور اس کے بعد سب کے متفق ہونے پر ایک سرکاری طریقہ کار کے ذریعے بین الاقوامی ادارے کے سامنے پیش کرکے اس کی تصدیق کرنے کے بعد جو اعلان ہوتا وہ مستند ہؤا کرتا۔ لیکن یہاں پر بھی یہ نوٹ کیا جائے کہ درج بالا تمام طریقہ کار کسی دریافت یا ایجاد کی حد تک تو ٹھیک تھا مگر خالقِ کائنات کی جانب سے کسی پیغام کو انسانیت تک پہنچانے کا ہر گز یہ طریقہ نہ ہوتا بلکہ وہ تو اس ہستی کی اپنی ذمہ داری ہؤا کرتی کہ وہ اس پیغام کو کس طرح صحیح ثابت کرے اور اگر اس کے بارے میں کوئی ہدایات جاری کرنی ہیں توہ اس کا کیا طریقہ کار ہو، اس پروسیس میں بھی عمریں بیت جایا کرتیں ، بعض مرتبہ تو اس پیغام کو کوئی ماننے کو تیار ہی نہ ہوتا اور بغاوت کے رویئے بھی جنم لیا کرتے جو تا حال بھی اپنے آثار رکھتے ہیں۔

گویا بنی نوع انسان کے ارتقائی عمل میں فطرت کا کردار ہمیشہ اہم اور مرکزِ نگاہ رہا ہے ۔ اس کے لئے کوئی دو ار دو چار والا فارمولہ نافذ نہیں ہؤا اور نہ کوئی ایسا صریح قانوں بنا جو فوری نافذالعمل کرکے انسانی تہذیب کے ارتقائی عمل کا حصہ بنے۔بقول شخصِ اس کے لئے بے شمار پاپڑ بیلے گئے ہیں تب ارتقاعِ بنی نوع انسان نے مختلف مراحل طے کئے ہیں جو آ ج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور ابد تک رہے گا۔اس دورا ن قوموں کی زندگی میں بالکل اسی طرح مدو جزر آئے ہیں جیسے ایک انسان کے موڈ میں آتے ہیں یعنی ہمارا موڈ جیسے بنتا و بگڑتا رہتا ہے کبھی خوشی اور کبھی ڈیپریشن کا شکار ہوتی ہے طبیعت، بالکل ایسے ہی قوموں کے وجود کو بھی جھٹکے لگتے ہیں۔ کوئی قوم بھی زیرو سے سو پر ایک دن یاا یک سال میں نہین پہنچی بلکہ صدیاں بھی لگی ہیں قوموں کے عروج و زوال میں۔اکثر تو ایسا بھی ہؤا کہ اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں اور نافرمانیوں کے باعث ان قوموں کا وجود ہی مٹ گیا لیکن بیشتر اپنے اعمال ، لگن و شب و روز محنت کے باعث قومیں عروج کی بلندیوں پر براجماں ہوئیں خواہ ان کو کوئی رہنما ملا یا نہ ملا، لیکن یہ سچ ہے کہ عموماً کسی نہ کسی رہنما نے ہی قوموں کی تقدیر بدلنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ سو ان رہنماؤں کا نام تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا گیا۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 112813 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More