یوم مزدور اور صریح نفاق

یہ 23 مارچ کا دن تھا، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ہفتہ پاکستانیت کا آخری دن منایا جارہا تھا. گلگت بلتستان کالجز کے طلبہ و طالبات تقریری، ملی نغموں اور کوئز کے مقابلوں میں حصہ لے رہے تھے. قراقرم یونیورسٹی اور اسکے کیمپسز کے طلبہ و طالبات بھی آپس میں مقابلوں میں شریک تھے.
ہفتہ پاکستانیت دھوم دھام سے منایا جارہا تھا. پورے ایونٹ کا اسپونسر ایف سی این اے تھا.

آخری دن ایک سیمینار بھی تھا جس میں تین مقررین نے پاکستانی اور پاکستانیت پر گفتگو کرنی تھی.پھر بعد میں اختتامی سیشن تھا. پورا ہفتہ طلبہ و طالبات کی تقاریر، ملی نغمے اور کوئز کو بغور سنا، پھر سیمینار میں مقررین کو بھی سنا. اور مہمانوں کو بھی.
اس تمام تر کاروائی میں مجھے نہ اصل پاکستانیت کی رمق نظر آئی اور نہ ہی حقیقی پاکستانیوں کو ڈسکس کیا گیا.
سامعین کی صفوں میں سوالات کے لئے مائیک پہنچا تو مائک اٹھایا اور ان سے استفسار کیا.اور عرض کیا:

پورے ہفتے کی کاوشوں اور آپ اسکالرز کی تقاریر سنی، کاش کی اس میں پاکستانیت اور حقیقی پاکستانی کی بات کی جاتی. پاکستانیت کے نام پر، نفرت پر مبنی کچھ چیزیں اور ایلیٹ کلاس کے مفادات پر زور لگایا گیا.
میرے سامنے جو آفیسران اور پروفیسر صف اول کی کرسیوں میں براجمان ہیں ان کے والدین اور ہال میں بیٹھے اکثر طلبہ و طالبات اور سامعین کے والدین " مزدور طبقہ" سے تعلق رکھتے ہیں. ہم سب کے والدین غریب مزدور ہیں یا تھے. کوئی موچی ہے، کوئی قصاب ہے، کوئی چرواہا ہے، کوئی وڈکٹر، کوئی ترکھان کوئی مستری ہے تو کوئی دکاندار تو کوئی زرعی، کوئی الیکٹریشن ہے تو کوئی کَک، کوئی تندوری ہے تو کوئی درزی، غرض آج سے بیس سال پہلے پورے گلگت بلتستان کا 99 فیصد طبقہ مزدور تھا، آج 70 فیصد طبقہ غریب مزدور ہے. اور آج بھی پورے پاکستان کا 80 فیصد یہی مزدور طبقہ ہے اور اصل پاکستانی بھی یہی لوگ ہیں. آج کے پورے سیشن اور گزشتہ پورے ہفتے میں نہ وہ غریب مزدور طبقہ ڈسکس ہوا اور نہ ہی ان کے اصل جذبات، آخر کیوں ؟
میری تقریر نما سوال پر جسٹ تالیاں بجی مگر یہ تالیاں بھی بس تالیاں ہی تھی.پھر بھی اس طبقہ پر بات نہیں ہوئی اور نہ آئندہ ہونی ہے.

آج یوم مزدور منایا جارہا ہے. بدقسمتی سے وہ ایلیٹ طبقہ منا رہا ہے جس کا مزدور اور مزدوری سے دور کا تعلق نہیں. اور جن مزدور کے بچے کچھ پڑھ لکھ کر یا کماکر، مڈل کلاس میں آئے ہیں وہ بھی اس مزدور کے ساتھ یکجہتی نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنے ماضی پر فخر ہے.بلکہ چھپا رہا ہے
باقی جو لوگ اس دن کو منانے کا اہتمام کرتے ہیں، پروگرامز اوت سیمینارز پر پیسہ لگاتے ہیں. نہ وہ مزدور ہیں نہ اس طبقے سے اس کا تعلق ہے نہ شاید کھبی رہا ہو. اس کے اپنے مفادات ہیں اور وہ مسلسل منائے جارہا ہے. ان کے منانے سے کبھی کسی مزدور کو فائدہ نہیں ہوا.
یہ صریح نفاق ہے.
احباب کیا کہتے ہیں؟

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 444 Articles with 384782 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More