شہر کراچی ہمیشہ سے سیاسی جماعتوں کی سیاست کا شکار رہا

کراچی سیاسی طور پر کسی ایک نظریہ سے جڑا رہنے والا شہر نہیں۔ یہاں دائیں بازو کی بھر پور سیاست رہی اور بائیں بازو کی بھی۔ مذہبی جماعتوں کا زور بھی رہا اور لسانی سیاست نے بھی سر چڑھ کر بڑے عرصے تک اپنا رنگ جمایا۔ سب میں ایک بات مشترک رہی اور وہ یہ کہ اس شہر کی شناخت ہمیشہ اپوزیشن کے شہر کے طور پر رہی جس کا شاید نقصان بھی ہوا جو آجکل اس کی حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے . مگر ہر تحریک کی جنم بھومی یہاں سے ہی ہوئی ہے۔ پاکستان کے اس معاشی حب میں سب کچھ تو تھا مگر ہم نے اجتماعی طور پر سب تباہ و برباد کیا، پاکستان اسٹیل سے لے کر کراچی پورٹ تک کشادہ سڑکیں بھی تھیں، بڑی بسیں بھی چلتی تھیں اور سرکلر ریلوے بھی۔ ٹرام بھی تھیں ڈبل ٹیکر بسیں بھی بڑی آب وتاب سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتیں تھیں. اس تباہی کی ذمہ داری پچاس سال سے حکومت کرنے والوں کو لینی پڑے گی، یہاں کی معیشت، سیاست اور ثقافت کی تباہی کی۔ اس کی ذمہ دار پی پی پی بھی ہے، متحدہ قومی موومنٹ بھی ہے اور طویل مارشل لا ادوار میں ان جماعتوں پر بھی عائید ہوتی ہیں جنہوں نے ہمیشہ مارشل لا کی چھتری میں ڈکٹیٹروں کو سیاسی راستہ دیا جس طرح 1977 میں مرکزی کردار جماعت اسلامی کا تھا ، تصور کریں آج پچاس سال بعد وہی منصوبے دوبارہ شروع کئے جا رہے ہیں۔ سرکلر ریلوے، نئی بس سروس، نالوں کی صفائیاں اور دیگر منصوبے جو ایک مثبت سوچ ضرور ہے. اور اگر جلد اس پر عمل ہو جاتا ہے تو شہریوں کو سکون کا سانس بھی ملے گا مگر بنیادی مسئلہ اپنی جگہ موجود رہے گا اور وہ ہے ’’اختیارات کی جنگ‘‘۔ آخر اس شہر کو ایک ’میٹرو پولیٹن سٹی‘ کا درجہ کیوں نہیں دیا جاتا جو شہر پورے ملک کو 75 فیصد ریونیو دیتا ہے اس کا میئر 34 فیصد شہر کا میئر کیوں ہے۔ کمال نہیں کہ تین ساڑھے تین کروڑ کے شہر کو دو کروڑ دکھایا جاتا ہے؟ سارا مسئلہ ایک سوچ اور مائنڈ سیٹ کا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے. کچی آبادیاں بنتی جائیں گی یا پھر سہراب گوٹھ سے لے کر حیدرآباد تک لاکھوں لوگ غیر قانونی پروجیکٹس میں رہیں گے۔ پتا نہیں کتنے نسلہ جیسے ٹاورز کھڑے ہیں، کتنی عمارتیں نالوں پر بنی ہیں یہاں تو ہر سیاسی ، مذہبی و لسانی جماعتوں کے علاوہ مذہبی اداروں کے لوگوں نے اسپتالوں اور کھیلوں کے میدانوں و پارکوں پر قبضہ کرکے پلازہ و مدرسہ و مسجد بنا دیے ہیں ۔چائنا کٹنگ تو آج بھی جاری ہے، ان علاقوں میں جہاں ’ریڈ لائن‘ آتی ہے. پی پی پی کے پاس شاید کام کرنے کے سب سے زیادہ کراچی میں مواقع تھے۔ ماضی کو ایک طرف رکھ بھی دیں تو بڑا سیاسی فیصلہ یہ ہوتا کہ تمام اختیارات بلدیہ کو منتقل کردیتے۔ پورے صوبہ میں اداروں کو اختیارات کی منتقلی دراصل 18ویں ترمیم کی اصل روح تھی۔ یہاں تو پہیہ ہی الٹا چلا دیا گیا ابتدا کراچی بلڈنگ کنٹرول سے کی گئی اور اختتام بلدیاتی بل پر۔ اس شہر میں پی پی پی کا ایک ووٹ بینک رہا ہے یہاں سے دو بار 1979 اور 1983 میں ڈپٹی میئر بھی اس کا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کو اس شہر نے ماضی میں ووٹ بھی دیا اور تین بار اس کا میئر بھی منتخب کرایا مگر مثال وہ صرف نعمت اللہ مرحوم کی دیتے ہیں جبکہ اختیارات لینے کی اصل لڑائی عبدالستار افغانی مرحوم نے لڑی تھی. نعمت صاحب ہوں یا مصطفیٰ کمال یہ دونوں اس لیے کامیاب رہے کیونکہ وسائل کی تقسیم میں کہیں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ وفاق، سندھ اور شہری حکومت کے درمیان اب اگر تمام اختیار صرف بلدیاتی اداروں کے پاس ہوں تو یہ رونا بند ہو جائے گا کہ فنڈز نہیں مل رہے۔
جب تک کراچی کی درست مردم شماری نہیں کی جاتی تب تک کراچی کی ترقی و خوشحالی ممکن نہیں جبکہ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ( ن ) ، انصاف تحریک ، جماعت علمائے اسلام ، عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ بھی کراچی کی مردم شماری کے لیے اس طرح آواز نہیں اٹھاتیں جیسی انھیں اٹھانی چاہیے۔ وہ ہلکی پھلکی بات تو کرتی ہیں لیکن یہ بات بھرپور سیاسی طاقت سے نہیں کی جاتی بلکہ محض رسماً کی جاتی ہے کراچی کی عوام کو دیکھایا جائے ہم بھی کراچی کی مردم شُماری کے لیے اتنے ہی فکرمند ہیں ، جتنا کراچی کے لوگ اور اس ہی طرح پی ڈی ایم کی قیادت نے ملک میں کتنے جلسے کیے اور کتنی ان کے مرکزی عہدیداران نے بڑی بڑی پریس کانفرنس مگر کبھی انہوں نے کراچی کی صیح مردم شماری کے لیے آواز اُٹھائی ہو یا کراچی کی صیح حلقہ بندی پر اپنا احتیجاج ریکارڈ کرایا ہو ویسے تو اس موضوع پر کراچی کی نمایندہ کہلانے والی جماعتوں کو ایک نکتہ پر کراچی کے حق کے لیے اپنی اپنی ناراضگیاں ایک طرف رکھ کے کراچی کے حق کے لیے متحد ہوتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں سب پر بولنا ہے. مگر کراچی اور سندھ کے شہری حقوق کے لیے نہیں بولنا اگر مسئلہ حل ہوگئے تو پھر یہ سیاست کون کریگا 35 سال سے کہ ان کا یہ ہی وطیرہ رہا ہے.
یہ بھی کتنی نہایت افسوسناک بات ہے کہ ملک میں اٹھارویں ترمیم اور صوبائی خو د مختاری کی کے لیے آواز اٹھانے والی جماعتیں بھی اپنے اپنے صوبوں میں مضبوط بلدیاتی نظام قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مضبوط وفاق کے خلاف آواز ٹھانے والے سیاستدان اپنے لیے مضبوط صوبائی حکومت کے دفاع میں توکھڑے نظر آتے ہیں لیکن بااختیار بلدیاتی نظام کی بات نہیں کرتے۔
جماعت نے ایم کیو ایم کی تقسیم اور زوال سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے محنت بہت کی ہے، پروگرام بھی کئے ہیں، مسائل کا حل بھی سامنے رکھا ہے مگر قیام پاکستان سے پہلے قائم ہونے والی جماعت اسلامی جمہوری پاکستان میں بڑی انتخابی کامیابی کیوں نہ حاصل کرپائی یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آنے والےجماعتیں حکومت بھی بھرپور طریقے سے کرکے چلے بھی گئے۔ اور یہ جماعت ہمیشہ کی طرح 2 یا 3 سیٹ ہی لیکر مُلک میں انقلاب ووٹ کے زریعے حاصل کرنے کی جستجو میں لگی ہوئی ہے.

ذراسوچیں؟

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.