پاکستان کو خطرہ ہماری جہالت سے ہے

جہالت انسان کی سوچ اور سمجھ پر پردہ ڈال دیتی ہے جسکے نتیجے میں خرافات و تعصبات جنم لیتے ہیں اور لوگ مختلف لسانی ، قومی ، فرقوں ، ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں. پاکستان میں جہالت روز بروز بڑھتی جارہی اس کا سدباب کرنے کے لیے نہ ہی حکومت نے اور نہ ہی پرائیوٹ سیکٹر نے کوئی عملی اقدام اُٹھایا ہے. ملکی اور غیر ملکی این جی اوز نے جو انسانی حقوق کا آئے دن پاکستان اور پاکستان سے باہر ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں اُنہوں نے بھی اس پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا آئے دن مختلف شہروں اور قصبوں میں جس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں اس سے ہمارا وجود بھی کانپ جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ معاشرہ نے جہالت کو قبول کرلیا ہے۔ پاکستان میں اگر کسی چیز نے اس کے عوام کو شدید نقصان پہنچایا ہے تو وہ ہے جہالت . جہالت کسی خاص نظریہ یا عمل کا نام نہیں بلکہ یہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے جس میں ہر ایک انسان شامل ہے اور اس کی شروعات ہوتی ہے عدم برداشت سے ایک پڑھا لکھا شخص بھی زندگی میں کبھی کبھی وہ کام کر جاتے ہیں جو جہالت کی انتہا تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، جہالت ہی وہ پھندا ہے جس میں پھنس کر انسان اپنے اشرف المخلوقات کے شرف کو بھول جاتا ہے اور وہ جو کچھ بھی کرتا ہے پھر اس کی سمجھ میں نہیں آتا چاہے وہ کسی کا خون ہو کسی عورت کی عزت کا جنازہ ہو یا پھر کسی معصوم پھول کو پاؤں تلے روندنا ہو,
یعنی جہالت موت ہے اور دانش یا جاننا زندگی ہے، نادان مردہ ہوتے ہیں اوردانا زندہ۔ جہالت "نہیں ہے" کی طرح ہے اورعلم "ہے" کی طرح۔ جہالت "درد" کی طرح ہے اور علم اس کے "علاچ" کی طرح۔۔۔۔جوقوم ترقی کرنا چاہتی ہے اس کے ادارے اپنے معاشرے میں معیاری سوچ، معیاری تعلیم کے ذریعے پیدا کرکے ہر قسم کی تعصابات پر قابو پالیتی ہے۔۔جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں جب تعلیم ہماری ترجیحات میں نہیں تواس کا مطلب یہی ہے کہ بطور قوم ہم نے خود جہالت یعنی موت کا انتخاب کیا ہے ) ان پڑھ ہونا کوئی جرم نہیں آپ کسی وجہ سے ان پڑھ رہیگے ہونگے مگر جہالت بہت بڑا جرم ہے جہالت ہو تو کیا ہوتا ہے؟… افرادِ قوم کے دامن ،علم و ہنر کی دولت سے خالی ہوجاتے ہیں۔ قحط الرّجال چھا جاتا ہے۔ بچے، بوڑھے ، جوان…سب کے سب بے خبر ہوتے ہیں۔ سب بیگانگیئی ذات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر افرادِ قوم کی حالت بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ عوام ایک ہجوم بن جاتی ہے۔ نہ زندگی کی رمق ، نہ روشنی کی جستجو ،نہ مستقبل کی امید، نہ حال کی خبر، نہ دل ، نہ دھڑکن ، نہ تپش ، نہ حرارت ، نہ رنگ ، نہ آہنگ ، نہ ترنگ، نہ ولولہ ، نہ جوش ، نہ ہمت، نہ جرأت ، نہ استقامت ، نہ استقلال ، نہ امید ، نہ ذوق، نہ کرن، نہ جستجو ، یہ سب بے جان مردہ کی طرح ہوجاتیں ہیں . پاکستان میں جہالت اور غربت اور پسماندگی کے اندھیروں کو دور کرنے کیلئے تعلیم لازمی ہے جب تک ہر بچہ تعلیم حاصل نہیں کرے گا اس وقت تک ترقی مشکل ہے۔ جہالت کے اس کاروبار کو پاکستان میں تقریبا جو حکومتی ادارے اور سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل رہی ہے. جہالت کا نقطہ عروج ضیا کی آمریت کے دور میں اپنے جوبن کو پہنچا۔ معاشرے کو عقائد کی تفریق سے متصب بنانے کا منظم اور عملی آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والے سبھی سیاسی اور غیر سیاسی راہنما اور نجات دہندے اس کارخیر میں اپنا اپنا حصہ بقدر پیش ڈالتے رہے. اب ہم سب کچھ ہیں مگر ایک قوم نہیں ہیں۔ کسی بھی اہم اور حساس معاملے پر مٹی ڈالنی ہو تو ایک جھوٹا اور متضاد بیانیہ جاری کردیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد ایسا غبار اُس پر اڑایا جاتا ہے کہ حقیقت دور کھڑی سر پر آنچل لیے شرمسار کھڑی دیکھتی رہتی ہے کہ یہ کونسی پڑھی لکھی جہالت ہے جو ڈکشنری میں بھی تلاش کرو نہیں ملتی آج بھی ہمارے نصاب کے مضامین اپنی کمزوریوں کو زیر بحث لانے کے بجائے غیر ضروری مواد سے اٹے پڑے ہیں۔ ان سے زیادہ ضروری تھا کہ ہمارے قومی نصابِ تعلیم میں نوجوانوں کو یہ پڑھایا جاتا کہ ہم ایک علیحدہ مملکت قائم کرنے کے باوجود ملک سے جہالت و غربت مافیاز کے راج، وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کو ختم کیوں نہ کرسکے.
جب تک انسان کا زہن تعلیم کی روشی سے منور نہیں ہوتا، اس وقت تک وہ اچھے اور برے کی تمیز نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ہمارا پہلا بنیادی اقدام جو ہونا چاہیے پاکستان میں پرائمری اور سیکینڈری نصاب تعلیم یکساں نافذ ہو تاکہ غریب اور امیر کے درمیان تعلیم کا معیار یکساں ہو سکے. اس پر عمران حکومت کے دور میں وفاقی خکومت نے ایک اُمید کی نوید سنائی تھی اور اس پر کام بھی شروع ہوگیا تھا کہ ملکی سطح پر پرائمری اور سیکنڈری تعلیم نصاب کو یکساں کررہے ہیں اگر اس اقدام پر جلدازجلد عملدرآمد شروع ہوجائے تو کچھ برسوں میں ہی اس کا اثر نظر آئیگا مگر بدقسمتی اس ملک کی یہ ہے کہ آنے والی حکومتیں جانے والی حکومتوں کی اچھی بھلی کامیاب ملکی پالیسیاں کو عملی جامہ نہیں پہنا پاتیں جس کی وجہ سے پاکستان آج اس دوراہے پر کھڑا ہے کہ پاکستان کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہے اور اس وقت غربت کی وجہ سے تقریباً 70 لاکھ سے ذائد بچے اسکولوں سے جاہی ہی نہیں پاتے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق افریقن ملک نائجیریا کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ بچے اسکولوں میں نہیں جاتے ۔ یہ ان پڑھ بچے بڑے ہوکر ، بے روزگاری ،جرائم اور جہالت میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے، کیونکہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم کی غربت یتیم نہیں، جہالت اس کی ماں اور پسماندگی اس کا باپ ہے۔ یوں پاکستانی قوم جہالت ، غربت اور پسماندگی کا تین رکنی کنبہ ہے. پاکستان کو قائم ہوئے 75 سال ہوگئے ہیں مگر ہم آج تک پاکستان سے جہالت ، غربت اور پسماندگی کو عملی طور پر ختم کرنے کے لئے کوئی پائیدار لائحہ عمل مرتّب نہیں کر سکے ہیں، آج تک کوئی ایسا مربوط نظام قائم نہیں کرسکے ہیں ، جو جہالت غربت اور پسماندگی کو جڑسے اکھاڑ سکے۔ گذشتہ 75 سالوں سے ہمارے سسٹم میں موجود خرابیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ اب ان پر ماتم کرنا بھی اپنے آپ کو شرمسار کرنا ہے اب تو لگتا ایسا ہی ہے کہ زندہ رہنے کے لئے پاکستانی قوم کو اب جہالت ، غربت اور پسماندگی کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑنا پڑے گی. ہماری پسماندگی ہی ہماری جہالت اور غربت کا شاخسانہ ہے۔ جہالت کو ناپنے کا ایک ہی طریقہ ہے جو حرف عام میں سمجھا جاتا ہے جیسے ہم شرح خواندگی کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر اس جہالت کو آپ کیا کہیں گے جو تعلیم یافتہ لوگوں میں پائی جاتی ہے؟ جس کی گزشتہ سال اسلام آباد میں نور مقدم والا حادثہ یا ڈیفینس کولاہور کے کیمبرج اسکول کا حالیہ حادثہ بظاہر تو کہنے میں یہ ہے کہ پاگل پن یا اس کو کوئی بھی نام دیدیں مگر یہ ایک جاہلانہ حرکتیں تھیں اس سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انتہائی معزز پڑھے لکھے لوگ بھی جاہل ہو سکتے ہیں اور اس جہالت کو ناپنے کا بھی ایک آسان سا نسخہ ہے اور وہ ہے کہ اگر بندہ پڑھا لکھا ہے مگر اس کے اندر سے تعصب ختم نہیں ہوا تو وہ ایک طرح سے جاہل ہی تصور ہو گا مگر جہاں بھی جہالت کی بات ہوئیگی اُدھر غربت اور ان پڑھ ہی مورالزام ٹھہرائیں جائینگے. غربت ، جہالت اور پسماندگی ختم کرنے کے لئے ہمیں ان بنیادی وجوہات کا تعیّن کرنے کی ضرورت ہے، جہاں سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اگر ہم دیانتداری کے ساتھ مشاہدہ کریں اور مسائل کی نشاندہی کرکے ، کوئی مربوط و مضبوط اور موثّر نظام وضع کریں ، تو یقینا“ہم غربت ، جہالت اور پسماندگی سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ہمیں واقعات سے خاطرخواہ اہم واقعات کا مشاہدہ کرنا ہوئیگا ہم کدھر غلط ہیں . تعلیم ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی جی ڈی پی کا صرف دو فیصد سے بھی کم تعلیم پر لگا رہے ہیں جس کی وجہ سے اسکا نیٹ رزلٹ زیرو ہے اگر ہم اپنا جی ڈی پی کا دس فیصد تعلیم پر لگادیں تو ہمارا بنیادی مسئلہ تھوڑے ہی عرصہ میں حل ہوجائیگا ۔ ہماری پسماندگی ہماری غربت اور جہالت کا شاخسانہ ہے۔ ہم غربت ، جہالت اور پسماندگی سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔اس کے لیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف پارٹیوں کو اب فیصلہ کن اور پائیدار موثر اقدامات کرنے پڑینگے پاکستان میں ایک مضبوط اور دیرپا جمہوری اور پائیدار سیاسی نظام وضع کرنا ، اور اقتدار کو نچلی سطح تک لانے کے لئے بنیادی جمہوریت میں انقلابی اقدام کا نظام اور سیاست سے پاک شہری حکومتوں کا قیام عمل میں لانا ملک میں ضلع سطع پر سوشل و فلاحی و بہبود اور انسان دوست اسکیمیںوں کو مترادف کرانا اور ان پر عمل کرنا ، کرپشن سے پاک معاشرہ ترقّی و بھلائی کا ایک جامع اور وسیع تر مضبوط نظام قائم کرنا۔ ملک میں امن وامان قائم کرنا اور قانون کی بالادستی اور سستا انصاف کی فوری فراہمی قائم کرنا. اگر ہم ترقی چاہتے ہیں تو بڑے پیمانے پر Awareness Programsکرنا ہونگے۔ افرادِ و ملت کو آگاہ کرنا ہوگا۔ اپنے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہونگی۔ اپنے خیالات اور سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ہر شہر اور گاؤں میں ’’جدید سائنس اسٹڈی پروگرام ‘ کے ادارے کھولے جائیں۔ جہاں عام لوگوں کو دنیا میں ہونے والے جدید انکشافات سے آگاہ کیا جائے۔ جو عام عوام کی آنکھیں کھولی جائیں۔ انہیں ان کے حقوق بتائے جائیں۔ جمہوریت اور ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ لوگوں کو شعور دیا جائے۔ قومی دستاویزات کی نقول تک ،ہر شہری کی رسائی ہو۔ بڑے پیمانے پر سیمینارز منعقد کیے جائیں، جن میں اسکولوں کے اساتذہ اور معلمات کو تربیت دی جائے تاکہ وہ اپنے اسٹوڈنٹس سے کہہ سکیں. اصل چیز ہے۔’’ آگہی‘‘… یعنی آگاہی… ’’جاننا‘‘۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور فرشتوں کے درمیان فرق واضح کرنے کے لیے جو الفاظ چنے ہیں وہ ہیں:۔

’’وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّھَا۔

قرآن کے یہ الفاظ ثبوت ہیں اس بات کاکہ جہالت مردہ قوموں کا شیوہ ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمیشہ بلند پایہ اور ترقی یافتہ قومیں ، اپنے وقت کے جدید ترین علوم سے آراستہ اور پیراستہ رہی ہیں. جس کسی قوم نے جہالت کے کوہ ہمالیہ بت کوپاش پاش کیا ، اس نے بجاطور پر ترقی پائی۔ وہ قوم دنیا کی حکمران بنی لیکن اس کے برعکس جو جہالت ، توہم پرستی ، غیبت، ضمیر فروشی ، بددیانتی اور مکروفریب میں مبتلا رہے وہ اس دنیا میں بھی اندھے ہوکر مرے اور اگلے جہان میں بھی اندھے ہی اٹھائے جائیں گے۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 82072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.