عکسِ باطن (افسانوں کا مجموعہ)/ کرن نعمان

عکسِ باطن (افسانوں کا مجموعہ)/ کرن نعمان
(یہ تحریر بطور مہمان اعزاز پیش کی گئی)
زیر اہتمام: محبان بھوپال فورم بہ تعاون انجمن ترقی اردو پاکستان
(منعقدہ 16ستمبر2023بہ مقام انجمن ترقی اردو، اردو باغ، کراچی
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
کرن نعمان یقینا بہت عرصہ سے افسانہ نگاری کررہی ہیں لیکن ’عکسِ باطن‘ کی اشاعت نے انہیں صاحب کتاب افسانہ نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ وہ اب بجا طور پر صاحب تصنیف افسانہ نگار کہیں جائیں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادب سے تعلق اور محبت، افسانہ نگاری یا ادب کی کسی بھی صنف میں طبع آزمائی کی تکمیل اسی وقت سندِ تخلیق عطا کرتی جب لکھنے والے کی تحریر خواہ کسی بھی موضوع پر ہو تصنیف کی صورت میں منظر عام پر آجاتی ہے۔ عکس باطن کی افسانہ نگار جن کا ادبی سفر کا نقطہ آغاز ضرور ہے لیکن ان کے لکھے افسانے اس بات کا پتہ دے رہے رہیں کہ ادب سے دلچسپی اور مشقت کا عمل ا سی طرح جاری رہا تو افسانہ نگار جلد اپنا نام بڑے افسانہ نگاروں میں شامل کرانے میں کامیاب ہوں گی۔مَیں موصوفہ کو دل کی گہرائیوں سے پہلے افسانوں کے مجموعہ کی
اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ نثری ادب میں افسانہ دیگر اصناف میں زیادہ پسند کی جانے والی صنف ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ شعر و سخن اور نثری ادب میں تغیر وتبدیلی آئی،کہانی نے چند لفظوں کی کہانی کا روپ دھارا جب کہ افسانہ افسانچہ کے روپ میں آگیا ہے۔ مختصر کہانی اور مختصر افسانے سے قاری کی دلچسپی بڑھ گئی ہے،اس نے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ادب دوامی ہے، اسے زندگی کے کسی موڑ پر زوال ہوا، نہ اِس وقت ہے اور نہ ہی کبھی روبہ زوال ہوگا۔یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ ہم کتاب سے دور ہوگئے ہیں، ہم نے مطالعہ کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیاہے، کتابیں مہنگی اور قوت خرید سے باہر ہوگئیں ہیں، کتابیں چھپنا شاید بند ہوگئیں ہیں، لکھنے والوں نے خدا ناخواستہ قلم کی بساط لپیٹ دی ہیں،یہ وہ باتیں ہیں جوکہی جاتی ہیں۔وقت اور حالات نے افسانہ نگار کو مختصر کہانی اور افسانہ لکھنے اور قاری کو اختصار میں مطالعہ کی لذت سیمٹنے کا عادی بنا دیا ہے۔ ادب وہی ہے جو زمانے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھے، قاری کی سوچ اور خواہش کی تکمیل کرے اور ایسا ہی ہوا افسانہ نگاروں نے معاشرہ میں بدلتی صورت حال کو محسوس کرتے ہوئے اپنے قاری کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مختصر افسانہ نگاری پر توجہ دی اور وہ ایسے افسانوں میں روزمرہ کے مسائل، خوشی و غمی کاا ظہار طویل تحریر کے بجائے مختصر افسانے کے ذریعہ کرنے لگے اور وہ مقبول بھی ہوئے۔ اس عمل سے لمحہ موجود کے افسانہ نگاروں نے اپنے قاری کا دل جیت لیا۔ بات برقی میڈیا، کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور موبائل کی نہیں بلکہ بے شمار قسم کے حالات نے قاری کو پڑھنے سے دور کردیا ہے۔ ادب تو ہمیشہ رہنے والی شہ ہے۔ گزشتہ75سالوں میں یہ کبھی بھی زوال پزیر نہیں رہا۔ البتہ حالات اور واقعات
اس پر اثر انداز ہوتے رہے اسی مناسبت سے اس کی رفتار بھی کبھی سست اور کبھی تیز رہی۔
افسانہ نگار ڈاکٹر شہناز شورو کے مطابق ”افسانہ ابتداء ہے، افسانہ انتہا ہے،افسانہ قاتل ہے، افسانہ مقتول ہے، افسانہ بنائے زندگی، افسانہ بقائے زندگی، افسانہ راز، افسانہ بے خودی، افسانہ ہوش مندی، افسانہ نگاہ، افسانہ نشتر، افسانہ واردات، افسانہ خلق اور افسانہ خدا ہے“۔ افسانہ نگاری کے موجد منشی پریم چند ہیں۔ پھر ایک لمبی بارات ہے افسانہ نگاروں کی جنہوں نے اردو ادب کی اس صنف میں اپنا اپنا حصہ خوبصورتی سے ڈالا۔ یوں توبے شمار نام ہیں لیکن کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، انعام الرحمان سحری، غلام عباس، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، قرۃ العین حیدر، ممتازمفتی،سہیل عظیم، نیاز فتح پوری، نگار سجاد ظہیر، فرحت اللہ بیگ، ڈپٹی نذیر احمد، ڈاکٹر فہیم اعظمی، جمال ابڑو،انتظار حسین، واجدہ تبسم، مظہر الحق علوی، احمد ندیم قاسمی، اسد محمد خان، مستنصر حسین تارڑ، عبد اللہ حسین، مرزا ادیب، اشفاق احمد، محمد منشایاد، مسعود مفتی، مجنوں گورکھپوری، گلزار، اختر حسین رائے پوری، انیس ناگی، زاہدہ حنا، اقبال الیاس احمد، عشرت معین سیما، ڈاکٹر شہناز شورو، قمر انساء قمر اور دیگر کے علاوہ اب کرن نعمان نے اردو کے افسانہ نگاروں کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔
کرن نعمان کے افسانے عہد حاضر کی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔افسانہ کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ان کی نظر قاری کے مزاج اور اس کی ادبی خواہش پر بھی دکھائی دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں اور اس کے کرداروں کو غیر ضروری طور پر طول دینے سے پرہیز کیا۔ ان کے افسانوں کی ایک اہم خصوصیت اختصار ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتی ہیں۔ ان کی زبان آسان اور سادہ، لہجے میں پختگی، الفاظ کا چناؤ اور استعمال عمدہ اور بر وقت، اس کی نشست و برخاست دل میں اتر جانے والی ہے، ان کے افسانوں کا پلاٹ دیو مالائی اور کردار مصنوعی نہیں بلکہ ان کی کہانیاں زندگی کے ارد گرد ہونے والے واقعات، حادثات، رسم و رواج کے گرد گھومتی ہیں جب کہ ان کے کردار معاشرہ میں موجود عام کردار ہیں جو ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دیتے ہیں۔ عام لوگ ان کرداروں پر غور ہی نہیں کرتے لیکن ایک افسانہ نگار عقاب کی نظر رکھتا ہے وہ ان کرداروں کو اپنے افسانوں میں خوبصورتی سے پیش کرتاہے، یہی خصوصیت ’عکسِ باطن‘ کی افسانہ نگار میں دکھائی دیتی ہے۔کرن کے افسانے لمحہ موجود کے حالات، واقعات، کیفیات، رنج و غم، دکھ سکھ، شدت پسندی، دہشت گردی، جنونیت، مظالم اور مظلوموں کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔کرن نعمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’عکسِ باطن‘ کے ذریعے خود کو کہیں نہ کہیں کوشش کے درجے پر رکھا ہے‘، افسانہ نگار اپنی اس کوشش میں کامیاب و کامران نظر آتی ہیں۔ سچ ہے کہ اگر ہم اپنے باطن کا عکس محسوس کر لیں تو زندگی آسان ہوجائے، بہت سے مسائل اور مشکلات آسان ہوجائیں۔ ان الفاظ کے ساتھ افسانہ نگار کے لیے دعائیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔


Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281688 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More