ذہنی غلام

میں ایک پرندوں کی دکان کے مالک کے پاس گیا اور پوچھا ایک کبوتر کتنے کا مل سکتا ہے۔ دکاندار نے پوچھا پکانے کے لئے، پالنے کے لئے یا آزاد کرنے کے لئے میں نے جواب دیا آزاد کرنے کے لئے۔ اس نے چالیس روپے قیمت بتائی اور پھر پیسے وصول کرکے کبوتروں کے ایک ڈربے میں ہاتھ ڈالا اور ایک کبوتر اس میں سے نکال کر میرے حوالے کردیا میں نے باقی کبوتروں اور اردگرد کے پنجروں کے قیدیوں سے دل ہی دل میں معذرت کی اور کبوتر کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے دکان سے نکل کر باہر کھلی فضا میں آگیا۔ درختوں اوربجلی کے کھمبوں پر بہت سے پرندے بیٹھے آزاد فضائوں کا لطف اٹھا رہے تھے میں بہت خوش تھا کہ ایک اورمعصوم سے پرندے کو اس کی آزادی واپس ملنے والی ہے چنانچہ میں نے اپنا دایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا اور پھر مٹھی کھول کر کبوتر کو آزاد کردیا۔ کبوتر اڈاری مار کر تقریباً تیس فٹ بلندی تک گیا اور پھر ایک چھوٹے سے دائرے میں چکر کاٹ کر اسی دکان کی منڈیر پر آبیٹھا جہاں سے میں نے اسے حاصل کیا تھا۔ اب وہ منڈیر پر بیٹھا گردن کو تیزی سےادھر ادھر حرکت دے کر آزاد فضائوں کا نظارہ کررہا تھا لگتا تھا کہ وہ ابھی کچھ کنفیوژ ہے اور صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہے جب اسے منڈیر پر بیٹھے تقریباً دس منٹ گزر گئے تو میں نے جانا کہ وہ ابھی تک خودکو قید سمجھ رہا ہے ورنہ اسے اگر اپنی آزادی کا احساس ہوتا تو ایک لمبی قید کے بعد وہ دوبارہ ایک جگہ بیٹھے رہنے کی بجائے فضا میں لمبی اڈاریاں مارتا۔ اس پر میں نے سڑک پر کھیلتے ہوئے ایک بچے سے کہا کہ وہ منڈیر پر بیٹھے ہوئے کبوتر کو اڑانے کی کوشش کرے۔ بچے نے زمین سے کنکر اٹھا کر کبوتر کو نشانہ بنایا یہ کنکر اس کی ٹانگ کو لگا جس کے نتیجے میں اس نے ایک دفعہ پھر اڈاری ماری اور ایک مختصر سے دائرے میں چکر لگا کر دکان کی چھت پر دھرے ایک بڑے ڈربے کے اوپر جا بیٹھا جس میں اس کے بھائی بند قید تھے میں سڑک کے کنارے کھڑا ہوگیا اور منتظر رہا کہ وہ کب پرواز کے لئے پر کھولتا ہے لیکن وہ اسی طرح گم سم اسی ڈربے پر بیٹھا رہا۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ اڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تو میں نے دکان پر کام کرنے والے ایک نوجوان سے کہا کہ وہ اوپر جا کر اس کبوتر کو پکڑ لائے نوجوان دھڑا دھڑ سڑھیاں چڑھتا ہوا چھت پر پہنچا اور ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیا کبوتر نے رتی بھر مزاحمت نہیں کی تھی میں نے نوجوان کا شکریہ ادا کیا اور یہ کبوتر دوبارہ فضا میں چھوڑ دیا اس نے ایک بار پھر ایک مختصر سی اڈاری ماری اور دوبارہ چھت کی منڈیر پر جا بیٹھا۔ میں نے سڑک پر کھیلنے والے بچے کی مدد سے اسے وہاں سے اڑایا تو وہ ایک دفعہ پھر چھت پردھر ےڈربے پر جا بیٹھا میں نے پھر اسی نوجوان سے درخواست کی کہ وہ اسے پکڑ کر لائے جوپہلے بھی اس ضمن میں میرے کام آیا تھا۔ نوجوان چھت پر گیا اور دوبارہ بہت آسانی سے پکڑ لایا۔ جب تیسری بار آزاد کرنے پر بھی ذہنی طور پرغلام اس کبوتر نے آزاد فضائوں میں آزادانہ پرواز کی سہولت سے فائدہ نہ اٹھایا اور وہ نوجوان اسے میرے لئے تیسری بار پکڑ کرلایا تو میں نے یہ کبوتر اسے واپس کرتے ہوئے کہا ’’یہ تم رکھ لو نوجوان اس پر بہت خوش ہوا مگر اس نے اوپر سے کہا’’جناب! میں اس کا کیا کروں گا‘‘۔
اسے دکاندار کے پاس بیچ دو جو اسے دوبارہ قیدکردے یا اسے ذبح کرکے کھا لینا۔ جو کوئی اپنی آزادی کی حفاظت نہ کرسکتا ہو یا ذہنی غلامی میں پختہ ہو جائے چاہے وہ کوئی پرندہ ہو یا کوئی قوم اس کے مقدروں میں غلام یا ذبح ہونا لکھ دیا جاتا ہے‘‘

 وشمہ خان وشمہ
About the Author: وشمہ خان وشمہ Read More Articles by وشمہ خان وشمہ: 308 Articles with 431264 views I am honest loyal.. View More