کِھِڑکیاں / شاعر اسد رضا زیدیؔ

کِھِڑکیاں / شاعر اسد رضا زیدیؔ
٭
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمدصمدانی
اسد رضازیدیؔ صاحب سے پہلی ملاقات کراچی کی ادبی تنظیم ”نیاز مندانِ کراچی“ کی ادبی تقریب میں ہوئی۔ یہ ادبی تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلا حصہ شاہد الیاس شامی صاحب کا ناول ”ادھورا وعدہ“ کی تقریب رونمائی،جب کہ دوسرے حصے میں مشاعرہ کا اہتمام تھا۔ تقریب گلشن اقبال کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ شاہد الیاس شامی پاکستان کو خیر باد کہہ کر ترکی جو اب ترکیہ ہے کے باسی ہوچکے ہیں۔ راقم الحروف نے اس شعر و ادب کی تقریب کی صدارت کے فرائض انجام دیے۔ کراچی کے معروف شاعر جناب رونق حیات صاحب نے اس ادبی محفل کا اہتمام کیا تھا۔ ناول کی تعارفی تقریب کے بعد مشاعرہ کا اہتمام ہوا اور نیاز مندانِ کراچی سے تعلق رکھنے والے شاعروں نے اپنے کلام سے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔ تقریب حسب روایت کافی دیر سے شروع ہوئی۔ وجوہات میں عین وقت پر بار ش کا ہوجانا بھی تھا۔ وقت مقرہ پر پہنچنے والوں میں راقم،اسد رضا زیدیؔ اور دیگر چند احباب تھے۔ تقریب کے شروع ہونے میں جو وقفہ ہوتا ہے اس میں کوفت تو ضرور ہوتی ہے لیکن وقت مقررہ پرپہنچ جانے والے باہم گفت و شنید کرکے ایک دوسرے سے متعارف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اسد رضا زیدیؔ صاحب سے بھی انتظار کی گھڑیوں میں تعارف ہوا۔ پہلے تو دور دور تھے، گفتگو شروع ہوئی تو قربت ہوگئی، مختلف موضوعات پر گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ہم دونوں میں بہت سے باتیں مشترک ہیں، ہم مزاجی کے آثار بھی پائے گئے۔ ہماری عمریں بھی کچھ ہی آگے پیچھے ہیں۔وہ مجھ سے کچھ ہی آگے اور میں ان سے کچھ ہی پیچھے۔ زیدیؔ صاحب نے اپنا کارڈ عنایت کیا میں اس وقت بے کارڈ تھا، کاغذ پر اپنا فون نمبر لکھ کر زیدی صاحب کودے دیا۔ لکھنا ہمارے مابین ایک مشترک خوبی کہیں یا ایک عادت۔ گفتگوکے دوران ان کے ہاتھ میں ایک کتاب کی چند کاپیاں تھیں۔ عنوان سے عیاں ہورہا تھا کہ شعری مجموعہ ہے۔ تقریب کے اختتام پر زیدی صاحب نے ازراہ عنایت وہ کتاب جو ان کا شعری مجموعہ ”کھِڑکیا“ تھی اس نصیحت کے ساتھ عنایت فرمائی۔ انہوں نے لکھا ”ڈاکٹرصمدانی صاحب آپ کے لیے خود بھی پڑھیے اور دوسروں کو بھی پڑھوائیے۔ ”اسد زیدی“۔کھڑکیاں کے اولین صفحہ پر زیدی صاحب کا یہ شعر درج ہے ؎
کھڑکیاں میں نے بند کردی تھیں
آج برسوں کے بعد کھول ہیں
زیدی صاحب کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ان کے شعری مجموعہ پر اظہاریہ تحریر کررہا ہوں، یقینا اس اظہاریہ کے توسط سے زیدی صاحب کے شعری مجموعہ کا تعارف ادبی حلقوں میں ضرور ہوسکے گا۔نام سید اسد رضا اور زیدیؔ تخلص کرتے ہیں۔اپنے تعارف میں دوسرا جملہ انہوں نے اپنی عمر لکھی ہے۔ عام طور پرخواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات بھی اس بات پر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔یہ عمل زیدی صاحب کے بلند حوصلہ ہونے کی علامت ہے۔ یہ بات اچھی لگی۔ مجھے بھی حوصلہ ہوا اور میں نے بھی کہا کہ یہ نہ چیز 1948 ء میں دنیا میں آیا۔زیدی صاحب کے آباؤ اجداد کا تعلق یوپی کے ضلع بجنور کے گاؤں /شہر مین سادات اور ’نگینہ ’سے ہے۔ نگینہ کے بارے میں زیدی صاحب نے لکھا کہ یہ شہر یعنی نگینہ ادبی تواضع کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اس دور کی ادبی نششتوں میں بھی شرکت کی۔اس دور کی ادبی شخصیات کے جو نام زیدی صاحب نے لکھے ان میں نوح ناروی، اختر نگینوی اور فراق گورکھپوری شامل ہیں۔ سید اسد رضا زیدی کی ظاہری شخصیت اور مختصر گفتگو سے زیدی صاحب مجھے ’نگینہ“ لگے۔ میر ے پرکھو ں کی سرزمین راجستھان تھی یعنی میں بنیادی طور پر راجپوت ہوں، میرے بزرگوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد پہلے دہلی پھر یو پی کے ضلع مظفر نگر کے ایک قصبہ ”حسین پور“ کو آباد کیا، اس طرح ہم یوپی شہر کے ضلع مظفر نگر کے باسی ہوئی۔ پاکستان بنا تو والدین نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ والدین تو اب کراچی کی مٹی میں آسودہ خاک ہیں دیکھیں ہماری مٹی کہا کی ہے۔
”کھڑیاں“اصل موضوع تھا کہیں اور نکل گیا۔ اسد زیدی کے اس شعری مجموعہ کا مطالعہ تو کیا ساتھ ہی اس پر اظہار خیال کرنے کا ارادہ ہی نہیں بلکہ آغاز بھی کردیا لیکن یہ تحریر دیگر مصروفیات کے باعث مکمل نہ ہوسکی۔ اسد صاحب ڈاکٹر بھی ہیں لیکن ہومیوپیتھک ڈاکٹر، سائنس میں ماسٹرز ہیں،جامعہ کراچی کے بوٹنی ڈیپارٹمنٹ میں کام کر نے کے دوران Flora of west Pakistanمیں بھی کام کیا، بنکر بھی رہے، ہومیوپیتھی تھراپی اور ایکو پنکچر کے ماہر بھی ہیں اور کنسلٹنسی کررہے ہیں، پاکستان سے باہر جدہ میں بھی رہے، آخر میں سول ایسی ایشن میں ملازمت کی اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ کہتے ہیں کہ شاعری میری موروثیت میں شامل ہے، اختر نگینوی ان کے عزیز تھے، معروف شاعر مصطفی زیدی ان کے چچا تھے، نامور شاعر ضیغم زیدی بھی ان کے عزیز۔ شاعری کا مجموعہ زیدی صاحب کے دل کی آ واز ہے اسے انہوں نے اپنی سوچ اور احساسات کا مجموعہ قرار دیا ہے جو اپنی جگہ سچائی ہے اور ان کے اشعار سے نمایاں ہے۔ ان کی شاعری سے محسوس ہوتا ہے کہ زیدی صاحب شاعری کے جملہ رموز سے بخوبی آگاہ ہیں،ان کی طبع موزوں اور تخلیقی طبیعت کے مالک ہیں۔ ان میں الفاظ کوخوبصورتی سے مرصع کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ پیش نظر مجموعہ میں نظمیں، قطعات اور اشعار اسد زیدی کی شعری صلاحیت کا منہ بولتا اظہار ہے۔ وہ شعر کی اہمیت سے آگاہ، الفاظ و معنی سے پوری طرح وقف ہیں۔ ان کا ایک شعر دیکھئے ؎
مشقت، مروت، نجات، حلاوت
یہ کم ظرف لوگوں کا شجرہ نہیں ہے
اسد زیدیؔکے کلام کی ایک خوبی اختصار ہے۔ اہم اور طویل موضوعات کو مختصر سے شعر میں بیان کردیا۔ خواہش کے موضوع کا ایک شعر دیکھئے ؎
یا تو تم مجھ سے دوستی کرلو
یا مجھے بھولنے کا وعدہ دو
زندگی میں جو کچھ بھی گزرا، منفی یا مثبت انہوں نے اشعار میں اس کا اظہار کردیا۔ان کی نظم ’پہلی ملاقات‘ میں ملاقات کے منظر کی منظر کشی کس خوبصورت انداز سے کی ہے ؎
اُس کی آنکھوں میں محبت کے دیے جلتے تھے
ہم وہیں شام ڈھلے روز ملا کرتے تھے
شام ملتے تو صبح شکر ادا کرتے تھے
جب بچھڑتے تھے تو ملنے کی دُعا کرتے تھے
جب ملتے تھے تو ایفائے وفا کرتے تھے
ہم وہیں شام ڈھلے روز ملا کرتے تھے
خواہش کا اظہارکچھ اس طرح سے کیا ؎
یا تو تم مجھ سے دوستی کر لو
یا مجھے بھولنے کا وعدہ دو
مکافات کے تحت کہے گئے دو اشعار دیکھئے ؎
پہلے تو ہم کو سکھایا گیا
جیسا کرو گے ویسا بھروگے
جب عمر گزری تو معلوم ہوا
یہاں سب کریں گے مگر تم بھروگے
اسد زیدی نے قطعات بھی کہے، مجموعے میں ساٹھ قطعات شامل ہیں، ایک قطعہ دیکھئے ؎
میری ہرسوچ پہ تری دلکش آنکھیں
تیرے ہونٹوں سے نکلی ہیں نشیلی آنکھیں
تیرے خم مجھ کو مری جان جھکا دیتے ہیں
جب کبھی خود سے چلی آتی ہیں تیری یادیں
فرقہ بندی ہمارے معاشرہ میں ایک اہم اور تکلیف دہ موضوع ہے۔ اس موضوع پر کہا گیا قطعہ ؎
یہ فرقہ بندی کیا ہے اور کس نے شروع کی
اب وقت ہے کہ اس کو گڑھے میں دبائیے
اور ایک ہو کر نام بلند کیجیے اُس کا
وہ ایک تھا، وہ ایک ہے، سب کو بتائیے
مجموعے میں متفرقات کے تحت 224اشعار بھی شامل ہیں۔اشعار میں مختلف موضوعات، مختلف کیفیات، واقعات، پیغامات، احساسات کا اظہار کیا گیا ہے۔
=دل میں کب سے اتر آئے میرے
تم تو سانسوں میں رہنے والے تھے
=کتنی تکلیف میں کٹ گئی زندگی
ساتھ چلتے رہے، دل دکھاتے رہے
=آپ ہونی کو ٹال سکتے نہیں
اس سے بہتر ہے خود بدل جائیں
=غزل کہتے ہیں نظم لکھتے ہیں
لفظوں کی ترتیب دل آوازکے ساتھ
=جوانی کا جانا بڑھاپے کی آمد
عذاب الہٰی نظر آرہا ہے
=موت کو موت کیوں نہیں آتی
شاید اس میں بھی کوئی حکمت ہو
=سچ پوچھو تو سچ بولنے میں دکھ ہے زیادہ
عادت پڑی ہوئی ہو تو مشکل ہے بدلنا
= دل اور گل میں مشابہت کیسی
دل دھڑکتا ہے پھول کھلتا ہے
اسد رضا زیدیؔ کی شاعری اور ان کا اسلوب سادہ ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ حقیقت اور سچائی کے شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں رکھ رکھاؤ اور نظم وضبط اور محاسن کلام کا معیار عیاں ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ اردو زبان سے عشق اور چاہت رکھتے ہیں جو ان کے کلام سے صاف ظاہر ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ زیدی صاحب کے لیے نیک تمنائیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ (23اکتوبر2023ء)








Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281456 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More