عنوان : جومٹانے سے مٹ نہیں سکتی ، اسے اردو زبان کہتے ہیں،

گر ہم تاریخی صفحات کا مطالع کریں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کے اردو زبان کی ابتداء مسلمانوں کی آمد سے ہوئی ۔ ہمارے بڑے اپنے بیانوں میں یہ بات تو زرور بولتے ہے کے ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد ایک سروے کے مطابق 427 ہے، تاہم کچھ زبانیں ایسی ہیں جو اپنی نمایاں خصوصیات کی بنیاد پر الگ شناخت رکھتی ہیں اور پوری دنیا کے لئے مرکز توجہ بنی ہوئی ہیں، انہی زبانوں میں سے ایک زبان اردو بھی ہے جس کی خمیر میں مختلف تہذیبوں، زبانوں اور فرقوں کی خوبیوں کو سمولینے کی مکمل استعداد موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہر کوئی اردو کو بڑی آسانی سے اپنا لیتا ہے تو دوسری طرف اردو بھی بڑی آسانی سے ہر کسی کو اپنالیت


9 / نومبر تاریخ ہندوستان کا وہ سال ہے جس میں جشن عالمی یوم اردو ہوکر منایا جاتا ہے، ہم نے ہمارے بڑوں سے سنا ہیں ، وہ کہتے ہے کہ ۹/ نومبرکوبیسویں صدی کے معروف ومشھور و مفکرجسے دنیا ایک شاعر سے جانتی ہے ،جن کا نام ہروہ معصوم بچوں کی زبان پر ہیں ، جو ابھی تعلیم کے میدان میں گوتا ہی لگے ہیں ،جن کا نام علامہ اقبال ہے،علّامہ اقبال اردو کے پہلے وہ شاعر ہیں جن کا کلام ملّی تشخص، دینی فکر اور فلسفۂ خودی سے آراستہ ہےاسی بنیاد پر انھیں پیامبر شاعر بھی کہا جاتا ہے انھیں ہم حکیمُ الاّمت اور شاعرِ مشرق کے نام سے بھی پہچانتے ہیں۔ آج کے دن بہ طور خاص علامہ اقبال کو یاد کیا جاتا ہے کیونکہ علامہ اقبال نے اپنی حالات زندگی میں شاعری کے ذریعہ دنیائے اردو میں ایسا انقلاب برپا کیا اورایسی روح پھونکی جسے محبان اردو کبھی فراموش نہیں کرسکتے کبھی اسے بھول نہیں سکتے ۔ لہذا ان کی یوم پیدایش کے موقع پر عالمی یوم اردو کا جشن انعقاد کرکےدنیا کو اردو کی اہمیت و ضرورت سے روشناس کرنا یہ کوئی چھوٹی بات نہيں،
سال 1997، ہندوستان کا وہ تاریخ سال تھا جس میں یوم اردو منانا شروع ہوا، اور یہ سفر اتنے زرو وخروش سے اپنا سفر باندھا کے انے والے وقت میں صرف یوم اردو ہی نہیں بلکہ عالمی یوم اردو ہوکر لوگ اسے منانا شروع کردے ،
اگر ہم تاریخی صفحات کا مطالع کریں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کے اردو زبان کی ابتداء مسلمانوں کی آمد سے ہوئی ۔ ہمارے بڑے اپنے بیانوں میں یہ بات تو زرور بولتے ہے کے ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد ایک سروے کے مطابق 427 ہے، تاہم کچھ زبانیں ایسی ہیں جو اپنی نمایاں خصوصیات کی بنیاد پر الگ شناخت رکھتی ہیں اور پوری دنیا کے لئے مرکز توجہ بنی ہوئی ہیں، انہی زبانوں میں سے ایک زبان اردو بھی ہے جس کی خمیر میں مختلف تہذیبوں، زبانوں اور فرقوں کی خوبیوں کو سمولینے کی مکمل استعداد موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہر کوئی اردو کو بڑی آسانی سے اپنا لیتا ہے تو دوسری طرف اردو بھی بڑی آسانی سے ہر کسی کو اپنالیتی ہے اور اس طرح اپناتی ہے کہ نہ سرحدوں کے اختلاف کو دیکھتی ہے نہ مذہب و ملت کی تفریق کو گوارہ کرتی ہے میرا خیال ہے کہ اگر کسی زبان کو یہاں کی روایتی گنگا جمنی تہذیب کی ترجمانی کا حق حاصل ہوسکتا ہے تو وہ صرف اردو زبان ہی ہوسکتی ہے، اردو زبان محض علاقوں اور خطوں کو آپس میں نہیں جوڑتی بلکہ دلوں کو فتح بھی کرتی ہے
اردو زبان ایک خوبصورت و جمیل زبان ہے جسے بچہ بچہ خوبصورت انداز سے بولنے کی کوشش کرتا ہیں ، یہ زبان مختلف ثقافتوں کی مظھر توثیق ہے اور اس کی تاریخ میں ادب وفن کا کنز چھپا ہوا ہے ،
1877 ، یہ وہ سال تھا جس دن سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر میں ایک بچے نے اپنی آنکھیں کھولی ، ماں باپ نے خوشی خوشی اس کا نام محمد اقبال رکھا،
انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا اور اس شوق کو فروغ دینے میں آپ کے ابتدائی استاد مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔ لاہور کے بازار میں آپ نے ایک کڑکتی شاعری پڑھی جسے دیکھ کر وقت کے فصحاء اورادباء کانپ اٹھے اور کسی کی زبان یہ کھ پڑی کے انے والے وقت کا اگرکسی کو شاعر دیکھنا ہے تو اقبال کو دیکھوں ، آج آگر ہم کسی جاھل سے بھی پوچھے گیے کے آپ کو کوئی شاعری بےزبان یاد ہے کیا ؟ تو وہ کہے گا کے مجھے تو ابھی ایک شعر بھی یاد نہیں ہے لیکن میں جب چھوٹا تھا تو میرے کانوں میں ایک شاعری بہت گونجتی تھی وہ (لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ، ذندگي شمع کی صورت ہوخدا یہ میری)اور بھی نہ جانے کتنی نظمیں لکھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلا مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنا دیا۔
لاہور اورینٹل کالج میں 1893 سے لے کر 1897 تک سرایڈون آرنلڈ کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے کے دوران اقبال نے پہلی مرتبہ جدید فکر کا مطالعہ کیا تھا۔ 1899 میں یہاں سے ایم ۔ اے فلسفہ کیا، ساتھ ہی عربی شاعری پڑھانا شروع کی اور معاشرتی و معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔
1922 میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا تاہم اسی دور میں علامہ اقبال کا شکوہ بھی لکھیں ، شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ بھی لکھ کر تمام نقادوں، معترضین کو لاجواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ اور اسطرح کے نا جانے کتنے شاعری آپ نے لکھی اور اردو دنیا میں ایک نیا نام کر دیکھایا،
1938/ 21 اپریل کو آپ خالق حقیقی سے جاملیے، اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اور اس دور میں مسلم امہ میں موجود مایوسی کے باوجود وہ روشن مستقبل کی توقعات کا اظہار کیا تو ہمیں خود پر ناز ہیں کے ہمیں اقبال جیسا شاعر ملا ،
تو ہمیں جشن عالمی یوم اردو پر پروگرام منعقد کرنا ہیں ، شاعروں کی محفل تیار کرنا ہیں ، اور اہل اردو کی ساری کہانی احباب اردو تک پہچانا ہیں، اور ہمیں تو خود پر ناز ہے اوریہ بات پھر سے کہنا ہوگا کے جومٹانے سے مٹ نہیں سکتی ، اسے اردو زبان کہتے ہیں



MUHAMMED ABUSAIF
About the Author: MUHAMMED ABUSAIF Read More Articles by MUHAMMED ABUSAIF: 4 Articles with 1023 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.