فیض احمد فیضؔ کی یاد میں

فیض احمد فیضؔ کی یاد میں
(حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں اردو سندھی ادبی سنگت (اساس) کے تعاون سےفیض احمد فیض کی یاد میں تقریب)
فیض احمد فیضؔ کی یاد میں
(حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں اردو سندھی ادبی سنگت (اساس) کے تعاون سےفیض احمد فیض کی یاد میں تقریب)
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پروفیسر ایمریٹس۔ منہاج یونیورسٹی، لاہور
پروفیسرڈاکٹر شفیق احمد رندصاحب، اساتذہ، اردو سندھی ادبی سنگت کے جملہ ذمہ داران، مہمانان گرامی اور عزیز طلبہ!
اس وقت میری جو کیفیت ہے اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہورہا ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں میری جوانی کے اہم ترین سال گزرے، اس کالج میں دو سال طالب علم کی حیثیت سے (1969-1970)24سال 6ماہ) (1974-1997 استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دیں۔ آج میں جس مقام پر ہوں، جو میرے اندر گفتگو کا سلیقہ ہے، انداز ہے، علم کا جو اضافہ میری زندگی میں ہوا وہ سب کچھ یہاں کے ماحول اور اسی چار دیواری کا مرحون منت ہے۔ ان احباب کا جن کے ساتھ میں روز آنا بیٹھا کرتا تھا، مختلف موضوعات پر گفتگو کیا کرتا تھا، اس ماحول نے مجھے لکھنے کا سلیقہ دیا، ہنر دیا، شعور دیا، فہم و فراست مجھ میں اگر آئی ہے تو وہ اسی چار دیواری میں آئی۔ آج یہاں آکر اسٹاف روم، کلاس روم، لائبریری، پرنسپل آفس اور اس میں لگے ہوئے پرنسپلز کے نام دیکھے جو میرے دور میں رہے، وہ سب کچھ یاد آگیا، بعض دوست بہت یاد آئے، جی چاہتا ہے کہ ان سے کے نام باری باری لوں لیکن وقت اس بات کی اجازت نہیں دے رہا، جو اس دنیا سے جاچکے ان کے لیے مغفرت کی دعا، جو حیات ہیں اللہ پاک انہیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے آمین!اب میں اپنے اصل موضوع کی جانب آتا ہوں،شکر گزار ہوں پرنسپل پروفیسرڈاکٹر شفیق احمد رند صاحب کا کہ انہوں فیض احمد فیضؔ کی یاد میں یہ پروگرام اردو سندھی ادبی سنگت کے اشتراک سے ترتیب دیا اور مجھ ناچیز کو جو اس کالج کا طالب علم اور پھر استاد بھی رہا کو یہ سعادت بخشی کہ میں اس شاندار اور یادگار تقریب کی صدارت کے فرائض انجام دوں۔
فیض احمد فیضؔسے کون واقف نہیں،ادب کی دنیا کا ایک عظیم نام۔ معروف شاعر تابشؔ دہلوی نے بہت سچ کہا کہ ’عظیم شخصیتوں کو دیکھ لینا بھی عظمت ہے‘۔ الحمد اللہ مجھے یہ عظمت حاصل ہے کہ میں نے اردو ادب کی اس عظیم شخصیت کو نہ صرف دیکھا بلکہ بہت قریب سے دیکھا۔ فیض ؔ صاحب بلاشبہ پاکستان کے اُن چند گنے چنے شاعروں اور ادیبوں میں سے تھے جنہوں نے دنیائے ادب میں پاکستان کو بلند مقام دیا۔فیض صاحب 13 فروری1911ء میں پاکستان کے شہر سیال کوٹ کے نذدیک ’کالا قادر‘ کے مقام پرپیدا ہوئے۔20 نومبر 1984ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔
فیضؔ کو خراج تحسین پیش کر نے کا سلسلہ جاری رہے گا۔فیضؔ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جدید ادبی تحریک، ترقی پسند ادبی تحریک کے بانی ارکان میں سے تھے۔فیضؔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر اور ہر دل عزیز شاعر بھی ہے، فیضؔ کی شاعر ی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جارہا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا مگر میَں شاعری سے قطع نظر فیضؔ کے بحیثیت کالج کے پرنسپل کے تذکرہ کر وں گا، عام طور پر لوگ فیضؔ کو ایک بڑا شاعر ہی سمجھتے ہیں اور وہ ہے بھی لیکن بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ فیض ایک ماہر تعلیم، پروفیسر، منتظم اور کالج پرنسپل بھی رہے اور اس حیثیت سے انہوں نے آٹھ سال (1964ء۔1972ء) خدمات انجام دیں،آپ اس کالج کے بانی پرنسپل تھے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ فیض صاحب جب حاجی عبد اللہ ہارون کالج کراچی کے پرنسپل تھے تو میں اس کالج کا طالب علم تھا،دو سال (1969ء۔1970ء)میں اس کالج کا طالب علم رہا اور گریجویشن اسی کالج سے کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد 1974ء میں میرا تبادلہ اسی کالج میں ہوگیا،اس کالج میں میری خدمات ۳۲ سالوں (1974۔1997ء) پر محیط ہیں۔1972 ء میں حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا تو فیضؔ صاحب نے سرکاری ملازمت اختیار کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن وہ جب بھی کراچی میں ہوتے کالج ضرور آیا کرتے، اس طرح مجھے فیضؔ صاحب کو ہر دو حیثیتوں سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا کہ فیض صاحب نے ملازمت اختیارکی تھی،آپ نے اپنے کیرئیر کا آغاز استاد کی حیثیت سے ایم اے او کالج امرتسر سے1935ء میں کیا تھا،آپ برطانوی ہند میں فوج میں اعلیٰ عہد ہ پر بھی رہ چکے تھے، اس وقت جب آپ نے محسوس کیا کہ انگریز اندرون ِ خانہ پاکستان کے قیام کی مخالفت کررہا ہے تو آپ نے فوج کی ملازمت کو خیر بادکہا اور روزنامہ ’پاکستان ٹائمز‘ کی ادارت سنبھال لی۔ گویا فیض صاحب شاعر و ادیب ہی نہیں بلکہ فوجی، صحافی، استاد بھی، اعلیٰ منتظم اور ما ہر تعلیم بھی تھے اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے انسان تھے۔
کراچی کی قدیم بستی”مچھروں کی بستی“ ہے جو ’کھڈا مارکیٹ‘ کہلاتی ہے،اب اسے ’نواآباد اور میمن سوسائیٹی‘ کہا جاتا ہے،یہی مچھیروں کی بستی کراچی کا نقطہ آغاز تھا۔ حاجی عبد اللہ ہارون نے اسی بستی میں ۳۲۹۱ء میں غریب لوگوں کے لیے ایک یتیم خانہ قائم کیا تھا، جو آج بھی قائم ہے، خود حاجی عبد اللہ ہارون اسی یتیم خانے کے احاطہ میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ حاجی عبد اللہ ہارون کالج اور دیگر تعلیمی ادارے اسی احاطے میں قائم ہیں۔ حاجی عبد اللہ ہارون کے انتقال کے بعد ان کے مشن کو جاری و سا ری رکھنے کے لیے”حاجی عبد اللہ ہارون ایسو سی ایشن“ کا قیام عمل میں آیا، جس کی سر پر ستی حاجی عبد اللہ ہارون کے بیٹوں نے کی، حاجی عبد اللہ ہارون مسلم لیگی تھے، ان کے تینوں بیٹے تادمِ مرگ مسلم لیگی رہے۔اس ایسو سی ایشن نے حاجی عبد اللہ ہارون کے قائم کردہ یتیم خانے کو فعال بنا یا، اسکول، کالج، ٹیکنیکل کالج، اسپتال اسی احاطے میں قائم کیے۔ غریب بستی میں قائم یہ تمام ادارے آج بھی قائم ہیں اور خدمات فراہم کر رہے ہیں۔فیض احمد فیضؔ کا ایک خو بصو رت شعر ؎
پھر نظر میں پُھول مہکے، دل میں پھِر شمعیں جلیں
پھِر تصّور نے لِیا اُس بزم میں جانے کا نام
کالج سے فیضؔ کا منسلک ہونا
فیض صاحب نے جب اس کالج کی پرنسپل شپ اختیار کی وہ ایک بڑے اور معروف شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، ان کا بڑا نام تھا، کراچی کی غریب بستی میں نئے کالج کا سربراہ بننا، کیا مصلحت تھی، کیا راز تھا، اس بات کا جواب فیض صاحب کی اپنی زبان سے سنیے، فیضؔ صاحب نے ڈاکٹر غلام حسین اظہر کو ایک انٹر ویو میں دیا، یہ انٹر ویو ڈاکٹر طاہر تونسوی کی مرتب کردہ کتاب ”فیض کی تخلیقی شخصیت: تنقیدی مطالعہ“میں شامل ہے۔سوال کیا گیا کہ ’آپ نے اس ادارے کی سربراہی کیوں قبول کی تھی‘؟فیض صاحب کا کہنا تھا”جس علاقے میں حاجی عبد اللہ ہارون کالج قائم کیا تھا اس میں ہائی سکول کے علاوہ تعلیم کی اور سہولتیں نہ تھیں، اس علاقہ میں اکثریت غریب عوام کی ہے، ماہی گیر،گاڑی چلانے والے اور مزدور پیشہ لوگ جو بچوں کوکا لج نہیں بھجوا سکتے تھے، یہ علاقہ بُرے لوگوں کا مرکز تھا یہاں ہر قسم کا غیر مستحسن کاروبار کیا جاتا تھا، اکثر غلط راہ پر بچپن ہی سے پڑ جاتے تھے، یہاں عبد اللہ ہارون نے یتیم خانہ بنوایا تھا جو ہائی اسکول کے درجے تک پہنچ گیا تھا،باقی کچھ نہیں تھا،ان کے (حاجی عبد اللہ ہارون)جانشینوں کی مصروفیات کچھ اور تھیں، صرف لیڈی نصرت ہارون کو اس ادارے سے دلچسپی تھی۔لندن سے واپسی پر انھوں نے ہم سے فرمائش کی کہ ہم یہ کام سنبھال لیں۔ ہم نے جاکر علاقہ دیکھا، بہت ہی پسماندہ علاقہ تھا، یہاں انٹر میڈیٹ کالج بنایا، پھر ڈگری کالج پھر ٹیکنکل اسکول اور پھر آڈیٹوریم، کچھ رقم ہارون انڈسٹری سے خرچ کی گئی، کچھ ہم نے فراہم کی،ماہی گیروں کی سب سے بڑی کوآپریٹو سوسائیٹی بنی، انہوں نے ہمیں ڈائیریکٹر بنا لیا، ہم نے طے کیا کہ سوسائیٹی کے اخراجات سے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور بچوں کے سب اخراجات یہی ادارہ برداشت کرے، اس کالج میں طلبہ کی اکثریت کو مفت تعلیم دی جاتی تھی“۔
فیض حاحب کی ان باتوں کا میں بھی چشم دید گواہ ہوں، جیسا میں نے پہلے بھی کہاکہ۲۷۹۱ء کے بعد فیض صاحب جب کبھی کراچی میں ہوتے وہ بغیر بتائے کالج آجایا کرتے، ایک مرتبہ جب کہ ہمارے کالج کے پرنسپل پروفیسر سید احمد حسین زیدی مرحو م تھے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ فیض صاحب کرا چی آئے ہوئے ہیں، ہم چند ساتھیوں نے جن میں شبنم صدیقی مرحوم، اقبال احمد مرحوم، عبد الرشید راجہ اور میَں پیش پیش تھے، فیض صاحب کو کالج آنے کی دعوت دی جسے آپ نے فوراً قبول کرلی،یہ کوئی بڑی تقریب نہیں تھی، طے پایا تھا کہ ہم اساتذہ فیض صاحب سے خوب خوب باتیں کریں گے اور ان کی باتیں سنیں گے۔یہ تقریب کالج کی لائبریری میں منعقد ہوئی۔پروفیسر بشارت کریم کیفی مرحوم جن کاانتخاب فیض صا حب نے ہی کیا تھا، استقبالیہ کمیٹی کے چیر مین تھے، اساتذہ اور طلبہ نے فیض صاحب کا استقبال کیا، پہلے تو فیض صاحب نے پورے کالج کا ایک چکر لگا یا، ان میں آفس، لیباریٹریز، اسکول، یتیم خانہ، اسپتال وغیرہ، بعد میں آپ لائبریری تشریف لائے، لائبریری دیکھ کر آپ نے خوشی کا اظہار کیا، یہ لائبریری فیض صاحب کے زیر نگرانی ہی پروان چڑھی تھی۔پرنسپل صاحب نے استقالیہ کلمات کہے، اساتذہ کی جانب سے شبنم صدیقی صاحب جو اردو کے پروفیسر اور ادیب و شاعرتھے نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔فیض صاحب خوش پوش انسان تھے، زیادہ تر سوٹ پہنا کرتے، سگریٹ پینا ان کا محبوب مشغلہ تھا، آپ نے اپنے منفرد انداز میں اساتذہ اور طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کالج سے اپنی وابستگی پر روشنی ڈالی، آپ نے کہا’’اس کالج سے میرا جو تعلق رہا ہے اس وجہ سے میں اپنے آپ کو یہاں اجنبی یا مہمان تصور نہیں کرتا، آپ نے اس کالج سے اپنی وابستگی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ”لیڈی نصرت ہارون مرحومہ نے ہم سے کہا کہ لیاری میں جو کالج قائم ہوا ہے اس کی سرپرستی آپ حاصل کرلیں چناں چہ ہم لیاری میں آئے اور اس کالج کے علاوہ یہاں کے مکینوں کا جائزہ لیا مجھے یہاں عجیب سی مخلوق نظر آئی ہم نے فوراً حامی بھر لی، اس طرح ہمارا اس ادارے سے تعلق قائم ہوگیا۔پھر اساتذہ اور ساتھیوں کی ایک اچھی جماعت مل گئی اس طرح یہ کالج بہت جلدڈگری کالج بن گیا۔اس کی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی اس میں بھی کامیابی ہوئی۔ آپ نے کہا کہ ”لیاری جیسی بستی میں علم کو عام کرنے کی سخت ضرورت تھی۔اس کے لیے ہم نے کوشش کی اور کسی حد تک اس میں کامیاب ہوئے“۔اس سوال کے جواب میں کہ ”فیض صاحب آپ عبد اللہ ہاران کالج سے الگ کیوں ہوئے“؟ آپ کا جو اب تھا کہ یہ ادارہ قومی تحویل میں لیا جا نے والا تھا اور مجھے گھر بھی واپس جانا تھا، کراچی میں کالج بن گیا، اسپتال بن گیا، اتنا کچھ بن گیا اب آگے دوسرے لوگ چلائیں“۔آپ سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ فیض حاحب ”ان امور کے علاوہ اس ادارے کو ایک مثالی ادارہ بنانے کے لیے آپ نے کن امور پر توجہ دی“؟ فیض صاحب کا جواب تھا ”کراچی میں خاص طور پر بدامنی، بے چینی، ہڑتالوں وغیرہ کے قصے ہوتے رہتے تھے، طلباء اور اساتذہ میں بھی رابطہ نہیں تھا، ہم نے کوشش کی کہ اس امر کی اصلاح کی جائے، طلباء اور اساتذہ مل کر کام کریں چناں چہ ہمارے کالج میں ایک مرتبہ بھی ہڑتال نہیں ہوئی، گورنمنٹ ادارے بند ہوجاتے تھے مگر ہمارا کالج کھلارہتا تھا اور طالب علم پڑھائی کے لیے آتے تھے۔ اس کالج کانقشہ دوسرے کالجوں سے بالکل مختلف تھا، درسی کتابیں پڑھانے کے علاوہ اساتذہ اور طلباء کی بصیرت میں اضافہ کے لیے لائبریری کو بہتر بنانے کی طرف خصو صی توجہ دی گئی،اہل ثروت سے مدد لی گئی،
اساتذہ سے اپنے اپنے موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھوائے گئے، میرے خیال میں محدود ذرائع کے باوجود یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا“۔
فیض احمد فیض کی ہم نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی
فیض صاحب کالج کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں بھر پور دلچسپی لیا کرتے تھے، اس زمانے میں طلبہ یونین باقاعدگی سے تشکیل پاتی تھیں، ان کے انتخابات ایک عام سے بات تھی، اس زمانے میں بھی انتخابات ہوئے ہم نے بھر پورحصہ لیا، اسلامی جمعیت طلبہ، نیشنل اسٹو ڈنٹ فیڈریش NSF، بلوچ اسٹو ڈنٹ آرگنائیزیشن BSOاس دور کی خاص طلبہ تنظیمیں تھیں، فیض صاحب تمام تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کالج کے طلبہ کو یکساں اہمیت دیا کرتے تھے۔تقریری مقابلے، بیت بازی کے مقابلے، حمد و نعت، مضمون نویسی اورطلبہ کے ساتھ پکنک منانا،مجھے یاد ہے کہ تعلیمی سال کے اختتام پر کالج کی طرف سے ٹھٹھہ میں کلری جھیل پر پکنک کا پروگرام تشکیل دیا گیا، تمام طلبہ دو بسوں میں تھے، فیض صاحب اپنی فوکس ویگن میں بعض اساتذہ کے ساتھ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، وہ کچھ دیر ہمارے ساتھ رہے، فیض صاحب کے پاس اس وقت فوکس ویگن تھی، ان کا ڈرائیور ایک دبلا پتلا نوجوان تھا، اُسے ہم نے ہمیشہ صاف ستھر ا، خوش پوش دیکھا، اس مانے میں تنگ پتلون، نوک دار جوتوں کا رواج تھا جسے عرف عام میں ’ٹیڈی فیشن‘ کہا جاتا تھا، یہ ڈرائیور ٹیڈی لباس اور جوتوں میں ہوا کرتا تھا، زلفیں بڑی بڑی، سامنے سے وحید مرادبنارہتا تھا۔ ا س کی خوش پوشی اور اسمارٹ رہنا اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ فیضؔ صاحب کو اپنے ڈرائیور کا یہ انداز دلبر انہ بھی پسند تھا، وہ خوش پوش تھے اور خوش پوشی کو پسند کیا کرتے تھے۔
ٓاساتذہ کا انتخاب
کالج میں اساتذہ کا انتخاب فیض صاحب نے از خود کیا تھا، کچھ اساتذہ اسکول سے لے لیے گئے تھے، فیض صاحب ترقی پسند مصنفین کی تحریک اور مارکسی فلسفہ حیات کے علم بردار تھے لیکن اساتذہ کے انتخاب میں آپ نے غیر جانبد اری اور میرٹ کو بنیاد بنا یاتھا، اسا تذہ کا انتخاب ان کی تعلیمی قابلیت و اہلیت کو بنیاد بنا کر کیا گیا تھا، تمام اساتذہ اپنے اپنے مضمون میں یکتا تھے، پروفیسر ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان واضح طور پر مارکسی فلسفہ کے پیروکار نطر آتے تھے تو دوسری جانب پروفیسر شفیق رحمانی صاحب پکے جماعت ا سلامی کے حامی تھے، دیگر اساتذہ میں ڈاکٹر فہیم الدین، پروفیسر جمیل واسطی سید، معروف شاعر دلاور فگار،سندھی کے ادیب رشید احمد لاشاری، پروفیسر یونس صدیقی، پروفیسر انیس الرحمٰن قریشی، بشارت کریم، عبد الرحیم میمن، پروفیسر ریاض الحسن قدوائی، پروفیسر عبد الرشید راجہ،پروفیسر اقبال احمد،پروفیسر اطہر صدیقی، نجم الدین انصاری، اطہر آفریدی، پروفیسر شمشاد احمد خان، راشد حیئ، غلام اصغر، نظام سحرائی، عزیزانصاری اور ذکی حسن شامل تھے۔ ان اساتذہ میں متعدد ڈایریکٹرکالجز، چیرئمین تعلیمی بورڈ اور پرنسپل بھی ہوئے۔
اساتذہ سے رویہ اور کالج کے طلبہ کا خراب نتیجہ آنا
اساتذہ کے ساتھ فیض صاحب کا رویہ ہمدردانہ ا،اور شفقت آمیز ہوا کرتا تھا۔ پروفیسر عبد الرشید راجہ جو اسلامیات کے استاد تھے میرے بڑے مہربان، محبت کرنے والے، انہوں نے فیض صاحب کا اساتذہ سے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے بتایاتھا کہ’ایک سال کالج کا نتیجہ صرف دس فیصد رہا، ہم سب کو اس پر بہت تشویش تھی، ڈر و خوف بھی تھا، کیونکہ یہ ایک پرائیویٹ کالج تھا، تمام اختیارات پرنسپل اور وائس پرنسپل کے پاس ہوا کرتے تھے، فیض صاحب پرنسپل اور پروفیسر ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان وائس پرنسپل تھے، فیض صاحب نے اسٹاف کی ایک میٹنگ طلب کی، تمام ساتھی بے انتہا پریشان اور تشویش میں مبتلا تھے، نہیں معلوم کیا ہونا ہے، بعض ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہم فیض صاحب سے کہیں گے کہ وہ ہماری تنخواہ سے انکریمنٹ واپس لے لیں، فیض صاحب اپنے مخصو ص انداز سے تشریف لائے اور میٹنگ شروع کی،آپ نے میٹنگ میں کسی کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا، از خود ان وجوہات پر روشنی ڈالی جن کے باعث نتیجہ بہت خراب آیا، ساتھ ہی اساتذہ کو مخاطب کر کے یہ بھی کہا کہ اب تمام ساتھی محنت سے پڑھا ئیں اور طلبہ پر خصو صی توجہ دیں، جس ٹیچر کا نتیجہ آئند ہ اچھا ہوگا اسے اضافی انکریمنٹ دیئے جائیں گے، بعد میں فیض صاحب نے اپنی اس تجویز پر عمل بھی کیا، ریاضی کے پرفیسر جو بعد میں کالج کے پرنسپل بھی ہوئے پروفیسر انیس الرحمن کا نتیجہ اچھا آیاجس کے نتیجے میں انہیں اضافی انکریمنٹ بھی دئے گئے۔۴۷۹۱ء میں میَں جب اس کالج میں ٹرانسفر ہوکر آیا تو یہ کالج سرکاری تحویل میں آچکا تھا اور یہ حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج بن چکا تھا، اس کالج میں سائنس، آرٹس اور کامرس فیکلٹیز تھیں، پروفیسر جمیل واسطی سید اس کالج کے پرنسپل تھے۔ بعض اساتذہ جو اسی کالج میں میرے استاد رہے تھے اب میرے ساتھی تھے ان میں پروفیسر شفیق رحمانی، ریاض الحسن قدوائی، محمد یونس صدیقی، عبد الرشید راجہ، بشارت کریم شامل تھے۔اسی کالج کے طلبہ جو استاد کی حیثیت سے اسی کالج میں ٹرانسفر ہوکر آئے ان میں پروفیسر نور محمد شیخ بھی شامل ہیں۔ شیخ صاحب میرے ساتھی رہے، اسٹاف روم میں بیٹھنا، چائے پینا اور گفتگو کرنا آج بھی میری یادوں کا خوبصورت اثاثہ ہے۔رہا برہوں برسوں فیض ؔکے کالج میں میری زندگی کا کل اثاثہ یہی تو ہے
فیض صاحب کو1963ء میں لینن انعام سے نوازا گیا،فیض صاحب ترقی پسند بھی تھے، مارکسی فلسفہ حیات کے علم بردار بھی تھے۔دانشوروں کا دائیں اور بائیں سے تعلق عام سی بات تھی اور آج بھی ہے۔فیض صاحب نے اپنے خیالات زبردستی کسی پر تھوپنے کی کبھی کوشش نہیں کی، ایک زمانے میں آپ نے جلا وطنی کی زندگی بھی گزاری،ایک دور ایسا بھی تھاکہ لوگ فیضؔ کے اشعار بر ملا بڑھتے ہوئے ڈرا کرتے تھے اور پھر یہ دور بھی آیا کہ مشاعروں، ریڈیواور ٹیلی ویژن پر فیض ہی فیض ہوا کرتے تھے، متعدد گلوکاروں کو فیض کا کلا م گانے سے ہی شہرت ملی۔
فیض ؔ کی خواہشات جو پوری نہیں ہوئیں:
فیض ایک سیدھے سادھے مسلمان تھے، افتخار عارف نے ایک انٹر ویو میں فیض صاحب سے پوچھا آپ جب پیچھے مڑکر اپنی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو کوئی پچھتاوا تو نہیں ہوتا؟”فیض صاحب نے بغیر کسی تامل کے یہ بات کہی کہ زندگی میں دو پچھتاوے ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں قرآن حفظ کرنا چاہتا تھا مگر چار پانچ پاروں کے حفظ کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ مجھے ساری عمر اس کا ملال رہا۔دوسرا یہ کہ میں کرکٹر بننا چاہتا تھا اور نہیں بن سکا“۔یہ بات تو اکثر لوگ جانتے ہیں کہ فیض صاحب عربی جانتے تھے اور انہوں نے عربی میں ایم اے کیا ہوا تھا لیکن یہ بات کہ وہ قرآن مجید حفظ کرنا چاہتے تھے اور یہ کہ چند پارے حفظ بھی کر چکے تھے بہت کم لوگ اس سے آگاہ ہوں گے۔آپ کی اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اندر کا فیض کیسا تھا۔ یہ بات آغاناصر نے اپنے مضمون ’فیض کی چند باتیں‘ جو اخبار اردو کی جلد 28 شمارہ2، 2011ء کی اشاعت میں نقل کی ہے۔ عبداللہ ہارون کالج کے ایک استاد پروفیسر عبد الرشید راجہ جو30 سال اس کالج سے منسلک رہے،اسلامیات کے پروفیسر تھے، آپ نے بتا یا کہ جب تک فیض صاحب کالج کے پرنسپل رہے ہم نے فیض صاحب کو رمضان میں سگریٹ پیتے نہیں دیکھا، جب کے ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوا کرتا تھا۔
فیض صاحب نے شہر کراچی میں رہتے ہوئے کئی ادبی، ثقافتی، تعلیمی اور سماجی تنظیموں کی سرپرستی بھی کی۔ کراچی میں ادارہ یاد گار غالب فیض احمد فیضؔ نے مرزا ظفر الحسن سے قائم کروا یا تھا۔ فیض صاحب تو اس ادارے کی سرپرستی کیا کرتے تھے، مرزا ظفر الحسن کی زندگی کا مقصدِ حیات یہ ادارہ تھا۔
غالب لائبریری اپنی مثا ل آپ ہے۔ کراچی کے علاقے ناظم آباد میں گورنمنٹ کالج برائے طلباء کے احاطے میں اس ادارے کی عمارت ہے۔ 1997ء میں میرا تبادلہ حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج سے گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد میں ہوگیا اور پھر میَں اپنے ریٹائرمنٹ 2009ء تک اسی کالج میں خدمات انجام دیتا رہا۔ یہاں مجھے فیض صاحب کے قائم کردہ ادارے ادارہ یا دگار غالب اور غالب لائبریری کی قربت بھی میسر رہی کیونکہ یہ ادارہ میرے کالج کے احاطے میں ہی تھا۔آخر میں فیضؔ صا حب کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎
تمہاری یاد کے جب زخم بھر نے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کر نے لگتے ہیں
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281077 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More