کل اور آج کے ریاض میں سعودی لوگوں کا ردعمل

ماضی کا ریاض ایک تنگ نظر، دقیانوسی سوچ، اور ناخوشگوار جگہ تھی جو شاپنگ مالز کی روشنیوں سے ہی بمشکل جگمگایا کرتی تھیں. لوگ جب ریاض شہر میں داخل ہوتے تھے تو اس طرح ہی ایسے سانس روک لیتے گویا کسی کھڑے ہوئے پانی والے تالاب میں ڈبکی لگا رہے ہوں۔ تارکینِ وطن برسوں غائب رہتے اور کبھی کبھار ، چھٹیوں اور عشق معاشقے کی خبر کے ساتھ ہی دوبارہ ظاہر ہوتے۔
اکثر دکانداروں کو مذہبی پولیس کا ہمیشہ سے اپنے کاروباری اوقات میں ڈر رہتا تھا جو بے لگام شہر کا چکر لگاتی اور قانون توڑنے والوں کو گرفتار کر لیتی۔
شباب سعودیوں اور تارکین وطن کی زندگیاں گھر کی اونچی چار دیواریوں کے درمیان ایسا لگتا تھا جیسے آزاد قید میں تھیں اور سال ہا سال اس سنسان شہر کی زمین پر بنے گھروں کی چار دیواریوں میں توسیع تر توسیع ہوتی گئی۔ نوجوان ایک نجی جگہ سے دوسری نجی جگہ یعنی اپنے عزیزو اقارب کے بند گھروں کا رخ کرنے لگے۔
وہ ریاض اب ماضی کا حصہ بن گیا مگر جہاں ماضی کے اس حصے میں کچھ فائدے بھی تھے تو کچھ نقصانات اور یہ ہر آزاد ماحول یا قدامت پسند ماحول میں پائے جاتے ہیں.
ریاض ، جدہ اور دوسرے بڑے شہروں میں جو عوامی مقامات کے کھلنے سے شہر میں جس طرح تبدیلی آئی اور سعودی شباب کی روزمرہ کی زندگی سے جس سے ہر سعودی نوجوان خوف میں مُبتلا رہتا تھا مگر اب مذہبی پولیس کا بھی کافی حد تک خاتمہ ہو گیا ہے۔
اب تو اس قدر تبدیلی نے رنگ جما لیا ہے کہ بعض اوقات تو وہ فیملیاں جو سعودیہ سے مغرب مُلک میں رہائش پزیر ہوگیں تھیں جب وہ واپس سعودی عرب واپس آتی ہیں تو ملک میں پہلے سے مقیم اپنی رشتہ دار فیملیوں سے کہیں زیادہ قدامت بسند اپنے آپ کو محسوس کرتی ہیں۔
اس تبدیلی میں خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کا اختیار ملنا سعودیہ میں ایک بہت بڑا انقلاب رونما تھا. اس پر کتنے عرصہ سے خواتین انتیظار میں بوڑھی ہوگیں. اس وقت کافی تعداد سعودی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ اب اپنے گھروں کی خودمختیار مالک بنی ہوئی ہیں۔ اِنہی حقوق کے لیے کئی برسوں لڑنے والی کچھ خواتین جو اب ضمانت پر رہا ہوئیں.
اب ریاض میں آپکو سیرو و تفریح کے لیے ہر بڑے شہر میں جس میں اوپن ایئر سنیما، تھیٹرز اور پاپ کانسرٹس بھی شروع ہوگے ہیں. سعودی عوام جوق و درجوق ان تفریح مُقامات پر آکر لطف اندوز سے دو بالا ہورہی ہے. ہر رات ہزاروں لوگ شہر کے مضافات میں ریاض بولیوارڈ کہلانے والے علاقے کا رخ کرتے ہیں۔
سعودیہ کے بڑے شہروں اور خاص کر ریاض اور جدہ وغیرہ میں درجنوں ریستوران ایسے ہیں جہاں سعودی مرد اور خواتین بغیر کسی رکاوٹ کے ملاقات کرتے ہیں اور وہاں سے ہر گھنٹے بعد وہ ایک مصنوعی جھیل پر لائٹ شو کا نظارہ بھی بے خوب و لطف اندوز ہوتے ہیں.
اس سے پہلے چار پانچ سال پہلے تک سعودیہ میں اس طرح کے نظارہ کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جب سعودی علما اس منظر کے ہر ایک پہلو کی سخت مذمت کرتے تھے.
کچھ عرصہ پہلے ریاض کے خوشی بھرا ماحول اُس وقت لرز گیا جب ایک شو میں افراتفری کا واقعہ پیش آیا اور کئی غیر ملکی تھیٹر فنکار بھگدڑ میں معمولی زخمی ہو گئے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے کئی نائب و مُشیروں کا سعودی عوام اور دنیا سے یہ ہی مُطالبہ ہے کہ شہزادے محمد بن سلمان کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ مخالف قوتیں واپس آنے کی کوشش کریں گی۔
جبکہ اب تو سعودی عرب کے کئی مذہبی عالم کی جانب سے پہلی بار اس طرح کے بیان بھی سامنے آئے ہیں کہ دنیا کی 90 فیصد سے زیادہ نیک مسلمان خواتین عبایہ نہیں پہنتی ہیں چنانچہ ہمیں بھی اپنی خواتین کو عبایہ پہننے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد انٹرنیٹ پر سعودی لوگوں نے اس پر شدید ردِ عمل دیا ہے۔ کچھ افراد نے اس کی حمایت جبکہ کچھ نے مخالفت کی ہے۔ جبکہ کچھ سعودی حضرات نے ’عبایہ کا استعمال ہمارے خطے کی روایات کا معاملہ ہے اور یہ سب پر نافذ کیا جائے۔ یہ مذہب کا مسئلہ نہیں ہے۔
اس سے پہلے سعودی عرب کی ایسی خواتین جو عوامی مقامات پر عبایہ پہننا گوارہ نہیں کرتیں تھیں اور انھیں وہاں غیر مطلقہ مرد دیکھ سکتے تھے ان اُس وقت کی مذہبی پولیس کی جانب سے سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اور اب نئے سعودی احکامات میں خواتین نے حالیہ برسوں کے دوران روایتی کالے عبایہ کی جگہ مختلف رنگوں کے عبائیہ کا استعمال بیشتر شروع کردیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں لانگ سکرٹس یا جینز پر کھلے عبایہ پہننے کا استعمال عام ہوا ہے۔
لیکن اس وقت نئی قومی شناخت پانے کے باوجود بھی سعودی شبابوں نے زیادہ تر اس نئے سعودیہ کی تعریف میں ایک سے ایک قصیدے پیش کرتے ہیں.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81434 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.