جب یورپ میں یونیورسٹیاں بن رہی تھیں. مسلم حکمران تاج محل و باغات بنا رہے تھے

آج کا جس طرح پاکستان اور دنیا کا میڈیا کا زہر جس تیزی سے مسلمان مُلکوں اور مسلم نوجوانوں میں پھیلایا جارہا ہے کہ جب انگریز آکسفورڈ اور کیمبریج بنا رہے تھے اس وقت ہمارے حکمران تاج محل بنارہے تھے.
اس پر کافی لکھا اور پڑھا جاچکا ہے مگر ہمارا مُسلم نوجوان یہ ہی سمجھتا ہے کہ واقعی اس میں کچھ سچ ہے جبکہ اصل حقیقت کو وہ پرکھیں، جانچیں، سمجھیں تو حقائق اس کے برخلاف ہی آئینگے کیونکہ ہمارے نوجوانوں کو ایک غلط تاریخ پیش کی جارہی ہے.


ہمارے کئی مُلکی ٹیلیویژن چینل چند سال سے اس ملک کے ٹیلیویژن چینلز پر تعلیم کے نام پر من گھڑت سفید جھوٹ پر مبنی پروگرام چلائے جا رہے ہیں اور نوجوانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں کہ جب یورپ کے بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں کُھل رہی تھیں تو مسلم بادشاہ تاج محل اور شالامار باغ بنا رہے تھے.

اگر ان چینلز یا پروگرامز میں کوئی سنجیدہ ، تاریخ میں سمجھ بوجھ والا آدمی بیٹھا ہوتا تو اسکو سمجھنے میں یہ مشکل درپیش نہیں آتی کہ مسلم ادوار کی شاندار عمارات جس عظیم تخلیقی و آرٹ کی صلاحیت سے تعمیر کی گئی، وہ اب دو چیزوں کے بغیر قطعی ممکن نہ تھیں. پہلی فن تعمیر کی تفصیلی مہارت، جس میں جیومیٹری، فزکس، کیمسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال وضع کرنے تک کے علوم شامل ہوتے ہیں. دوسری کسی ملک کی مضبوط معاشی اور اقتصادی حالت، اس قدر مضبوط کے وہاں کے حکمران شاندار عمارات تعمیر کرنے کا خرچ برداشت کر سکیں. اس پر آج کل اس ترقی یافتہ دور میں ناممکنات سے ہے.

جبکہ معاشی حوالے سے ہندوستان بالعموم و بلخصوص مسلم ادوار حُکمرانی اور بالخصوص مغلیہ دور (اکبر - عالگیر) میں دنیا کے کل GDP میں اوسطاً 25% فیصد حصہ رکھتا تھا. اس پر دنیا کی تاریخی کتابوں میں اور اُس وقت کے مغربی معاشیت دانوں نے اپنی کتابوں میں قلمبند کیے ہیں کہ در آمدات انتہائی کم اور برآمدات انتہائی زیادہ تھیں اور آج کے ماہر معاشیات جانتے ہیں کہ کامیاب ملک وہ ہے جس کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہوں. جبکہ سترویں صدی میں فرانسیسی سیاح فرانکیوس برنئیر ہندوستان آیا اور کہتا ہے کہ ہندوستان کے ہر کونے میں سونے اور چاندی کے ڈھیر ہیں. اسی لئے سلطنت مغلیہ ہند کو اُس وقت مغرب کے لوگ سونے کی چڑیا کہتے تھے.

اور اس ہی طرح فن تعمیرات پر اکثر ہمارے نام نہاد تاریخ مورخین و مغرب کے نام نہاد پے رول پر لفافہ اینکرز جو فن تعمیرات پر یہ نکتہ اکثر اپنے چینل پروگرام میں یہ راگ اُلاپ رہے ہوتے ہیں کہ مغرب اُس وقت درسگاہوں پر درسگاہیں بنارہے تھے اور مُسلم حکمراں شاہی محل ، شالیمار باغ و تاج محل وغیرہ بنارہے تھے. ان نام نہاد مورخین و اینکرز کو یہ پتہ نہیں کہ اُس وقت انکے معمار جیومیٹری کے علم کی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے تھے. جبکہ مغرب کے معمار آج اس پر پہنچ پائے ہیں اُس وقت تاج محل کے چاروں مینار صرف آدھا انچ باہر کی جانب جھکائے گئے تاکہ زلزلے کی صورت میں گرے تو گنبد تباہ نہ ہوں. جبکہ سول انجئنیرینگ میں صرف مستری کے اینٹیں لگانے سے یہ سب ممکن نہیں، اس میں حساب کی باریکیاں شامل ہیں. پورا تاج محل 90 فٹ گہری بنیادوں پر کھڑا ہے. اس کے نیچے 30 فٹ ریت ڈالی گئی کہ اگر زلزلہ آئے تو پوری عمارت ریت میں گھوم سی جائے اور محفوظ رہے.

لیکن اس سے بھی حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنا بڑا شاہکار دریا کے کنارے تعمیر کیا گیا ہے اور دریا کنارے اتنی بڑی تعمیر اپنے آپ میں آج کل کے اس کرپشن کے دور میں مُشکل سمجھی جاتی ہے یہ واقعی اُس دور میں ایک چیلنج تھی، جس کے لئے پہلی بار برصغیر کی ان عمارتوں کے لیے ویل فاونڈیشن (well foundation) متعارف کرائی گئی یعنی دریا سے بھی نیچے بنیادیں کھود کر انکو پتھروں اور مصالحہ سے بھر دیا گیا، اور یہ بنیادیں سینکڑوں کی تعداد میں بنائی گئی گویا تاج محل کے نیچے پتھروں کا پہاڑ اور گہری بنیادوں کا وسیع جال ہے، اسطرح تاج محل کو دریا کے نقصانات سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا گیا.

عمارت کے اندر داخل ہوتے ہوئے اسکا نظارہ فریب نظر یعنی (Optical illusion ) سے بھرپور ہے. یہ عمارت بیک وقت اسلامی، فارسی، عثمانی، ترکی اور ہندی فن تعمیر کا ایک آج کل کے دور میں ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے. یہ فیصلہ کرنے کے لئے حساب اور جیومیٹری کی باریک تفصیل درکار ہے. پروفیسر ایبا کوچ (یونیورسٹی آف وینیا) نے حال میں ہی تاج محل کے اسلامی اعتبار سے روحانی پہلو واضح (decode) کئے ہیں.اور بھی کئی راز مستقبل میں سامنے آ سکتے ہیں.

جبکہ حیران کن ریکارڈ کے مُطابق انگریز نے تعمیرات میں (well foundation) کا آغاز انیسویں صدی اور (optical illusions) کا آغاز بیسویں صدی میں کیا. جب کے مُسلم حُکمرانوں نے تاج محل ان طریقہ تعمیر کو استعمال کر کے سترھویں صدی کے وسط میں مکمل ہو گیا تھا. آج تاج محل کو جدید مشین اور جدید سائنس کو استعمال کرتے ہوئے بنایا جائے تو 1000 ملین ڈالر لگنے کے باوجود ویسا بننا تقریباً ناممکن ہے. 'ٹائل موزیک' فن ہے ، جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین ٹائلوں سے دیوار پر تصویریں بنائی جاتی اور دیوار کو منقش کیا جاتا ہے. یہ فن لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کلومیٹر لمبی منقش دیوار اور مسجد وزیرخان میں نظر آتا ہے. ان میں جو رنگ استعمال ہوئے، انکو بنانے کے لئے آپ کو موجودہ دور میں پڑھائی جانے والی کیمسٹری کا وسیع تر علم ہونا چاہئیے.
یہی حال فریسکو پینٹنگ کا ہے، جن کے رنگ چار سو سال گزرنے کے باوجود آجتک مدہم نہیں ہوئے . تمام مغل ادوار میں تعمیر شدہ عمارتوں میں ٹیرا کوٹا (مٹی کو پکانے کا فن) سے بنے زیر زمین پائپ ملتے ہیں. ان سے سیوریج اور پانی کی ترسیل کا کام لیا جاتا تھا. کئی صدیاں گزرنے کے باوجود یہ اپنی اصل حالت میں موجود ہیں. مسلم فن تعمیر کا مکمل علم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ دور کے سائنسی پیمانوں پر ایک نصاب کی صورت تشکیل دیا جائے تو صرف ایک فن تعمیر کو مکمل طور پر سیکھنے کے لیے پی ایچ ڈی (phd) کی کئی ڈگریاں درکار ہوں گی.

کیا یہ سب کچھ اُس وقت برصغیر ( ہندوستان ) میں ہو سکتا تھا، جس میں جہالت کا دور دورہ ہو اور جس کے حکمرانوں کو علم سے نفرت ہو؟؟ یہ سب کچھ مسلم نظام تعلیم ہی میں تھا جو سب کے لئے یکساں تھا، جہاں سے بیک وقت عالم، صوفی، معیشت دان، طبیب، فلسفی، حکمران اور انجینئر نکلتے تھے. شیخ احمد سرہندی رح ہوں یا جہانگیر ہو یا استاد احمد لاہوری ہو، یہ سب مختلف گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک ہی تعلیمی نظام میں پروان چڑھے، اسی لئے ان سب کی سوچ انسانی مفاد کی تھی.
جبکہ کئی مغربی مصنفین کی گواہی بھی ان فن تعمیرات پر اپنی اپنی کتابوں میں درج کیے جس میں ، جب کہ ہمارے یہ نام نہاد تاریخ دان و پے رول پر لفافہ اینکرز جو سوائے مسلم فن تعمیرات کو تنگ نظر سے اپنے نوجوانوں کے سامنے لے کر آتے ہیں . اس لیے میرے ان "عظیم" صاحبان علم کو کسی مسلمان یا لوکل مصنف کی گواہی سے بھی بو آتی ہے. جبکہ ول ڈیورانٹ مغربی دنیا کس مشہور ترین مورخ اور فلاسفر ہے. وہ اپنی کتاب story of civilization میں مغل ہندوستان کے بارے میں لکھتا ہے: "ہر گاوں میں ایک اسکول ماسٹر ہوتا تھا، جسے حکومت تنخواہ دیتی تھی. جبکہ حیران کن چیز جب انگریزوں کی آمد سے پہلے صرف بنگال میں 80 ہزار اسکول تھے. ہر 400 افراد پر ایک اسکول ہوتا تھا. ان اسکولوں میں 6 مضامین پڑھائے جاتے تھے. گرائمر، آرٹس اینڈ کرافٹس، طب، فلسفہ، منطق اور متعلقہ مذہبی تعلیمات. " اس نے اپنی ایک اور کتاب A Case For India میں لکھا کہ مغلوں کے زمانے میں صرف مدراس کے علاقے میں ایک لاکھ 25 ہزار ایسے ادارے تھے، جہاں طبی علم پڑھایا جاتا اور طبی سہولیات سے بھرپور میسر تھیں.

اس ہی طرح میجر ایم ڈی باسو نے برطانوی راج اور اس سے قبل کے ہندوستان پر بہت سی کتب لکھیں. وہ میکس مولر کے حوالے سے لکھتا ہے "بنگال میں انگریزوں کے آنے سے قبل وہاں 80 ہزار مدرسے تھے". اورنگزیب عالمگیر رح کے زمانے میں ایک سیاح ہندوستان آیا' جس کا نام الیگزینڈر ہملٹن تھا، اس نے لکھا کہ صرف ٹھٹھہ شہر میں علوم و فنون سیکھانے کے 400 کالج تھے. میجر باسو نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہندوستان کے عام آدمی کی تعلیم یعنی فلسفہ، منطق اور سائنس کا علم انگلستان کے رئیسوں حتیٰ کہ بادشاہ اور ملکہ سے بھی زیادہ ہوتا تھا.

جیمز گرانٹ کی رپورٹ یاد رکھے جانے کے قابل ہے. اس نے لکھا " تعلیمی اداروں کے نام جائیدادیں وقف کرنے کا رواج دنیا بھر میں سب سے پہلے مسلمانوں نے شروع کیا. 1857ء میں جب انگریز ہندوستان پر مکمل قابض ہوئے تو اس وقت صرف روحیل کھنڈ کے چھوٹے سے ضلع میں، 5000 اساتذہ سرکاری خزانے سے تنخواہیں لیتے تھے." مذکورہ تمام علاقے دہلی یا آگرہ جیسے بڑے شہروں سے دور مضافات میں واقع تھے.

انگریز اور ہندو مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کا عروج عالمگیر رح کے زمانے میں اپنی انتہا کو پہنچا. عالمگیر رح نے ہی پہلی دفعہ تمام مذاہب کے مقدس مذہبی مقامات کے ساتھ جائیدادیں وقف کیں. سرکار کی جانب سے وہاں کام کرنے والوں کے لئے وظیفے مقرر کئے. اس دور کے 3 ہندو مورخین سجان رائے کھتری، بھیم سین اور ایشور داس بہت معروف ہیں. سجان رائے کھتری نے "خلاصہ التواریخ"، بھیم سین نے "نسخہ دلکشا" اور ایشور داس نے "فتوحات عالمگیری" لکھی. یہ تینوں ہندو مصنفین متفق تھے کہ عالمگیر نے پہلی دفعہ ہندوستان میں طب کی تعلیم پر ایک مکمل نصاب بنوایا اور طب اکبر، مفرح القلوب، تعریف الامراض، مجربات اکبری اور طب نبوی جیسی کتابیں ترتیب دے کر کالجوں میں لگوائیں تاکہ اعلیٰ سطح پر صحت کی تعلیم دی جا سکے. یہ تمام کتب آج کے دور کے MBBS نصاب کے ہم پلہ ہیں. اورنگزیب سے کئی سو سال پہلے فیروز شاہ نے دلی میں ہسپتال قائم کیا، جسے دارالشفاء کہا جاتا تھا.

عالمگیر نے ہی کالجوں میں پڑھانے کے لیے نصابی کتب طب فیروزشاہی مرتب کرائی. اس کے دور میں صرف دلی میں سو سے زیادہ ہسپتال تھے.
تاریخ سے ایسی ہزاروں گواہیاں پیش کی جا سکتی ہیں. ہو سکے تو لاہور کے انارکلی مقبرہ میں موجود ہر ضلع کی مردم شماری رپورٹ ملاحظہ فرمالیں. آپکو ہر ضلع میں شرح خواندگی 80% سے زیادہ ملے گی جو اپنے وقت میں بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ تھی، لیکن انگریز جب یہ ملک چھوڑ کر گیا تو صرف 10% تھی.

بنگال 1757ء میں فتح کیا اور اگلے 34 برسوں میں سبھی سکول و کالج کھنڈر بنا دیئے گئے. ایڈمنڈ بروک نے یہ بات واضح کہی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلسل دولت لوٹی جس وجہ سے ہندوستان بدقسمتی کی گہرائی میں جاگرا. پھر اس ملک کو تباہ کرنے کے لئے لارڈ کارنیوالس نے 1781ء میں پہلا دینی مدرسہ کھولا. اس سے پہلے دینی اور دنیاوی تعلیم کی کوئی تقسیم نہ تھی. ایک ہی مدرسہ میں قرآن بھی پڑھایا جاتا تھا، فلسفہ بھی اور سائنس بھی. یہ تاریخ کی گواہیاں ہیں. لیکن اشتہار و پروگرام بنانے والے جھوٹ کا کاروبار کرنا چاہے تو انہیں یہ باطل اور مرعوب نظام نہیں روکتا۔

جب دہلی جائیں تو ان عمارات کے سحر سے نکلنا ایک مشکل کام ہوتا جائیگا اور فخر اور حیرانی بھڑتی جائیگی کہ ان ادوار میں مشین کا وجود نا ہونے کے باوجود ایسے شاہکار تعمیر کرنا ناممکن لگتا ہے.

لاہور میں مغلیہ فن تعمیر پر کبھی نظر دوڑائیے، آپ انجینئرنگ کے کارناموں پر محو حیرت رہے گے کیونکہ جب یورپ یونیورسٹیاں بنا رہا تھا تو یہاں وہ تعلیمات عام ہو چکی تھیں.

لیکن اس کے بعد انگریز کا ہندوستان پر ظالمانہ قبضہ اور ان کے جانے کے بعد کالے انگریزوں کا یہ موجودہ ظالم نظام جہاں ہمیں اپنی اعانت کے لئے اپنا کلرک بناتا ہے وہاں ہماری عظیم تاریخ کو بھی مبہم بناتا ہے.

"آج ہم مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہیں ذرائع ابلاغ (Media) انتہائی جھوٹا و مکار جو چند ٹکوں پر ان کا پروپیگنڈا بہا کے لےگیا.

اس تحریر میں مندرجہ بالا مورخین شخصیات کے الفاظ زیادہ ہیں. اس سے اندازہ لگائیں مسلمان نے کس طرح ہر میدان میں 17 ویں صدی میں فن تعمیرات، طب، آرٹ وغیرہ میں کہاں پہنچ گئے تھے.

اور ہمارے بچوں کے ذہنوں میں جس طرح مغربی میڈیا چاروں طرف سے اپنے لے پالک مورخین و دانشور و اینکرز سے مسلم حکمرانوں کے ادوار کی ترقی کو کس طرح سے پیش کرتا ہے.

ہمیں چاہیے اپنی نئی نسل کو اپنے مُسلمان حکمرانوں کے ادوار کا موازنہ مغربی ادوار کی ترقی سے کروایں اور ان کو بتایں یہ فن تعمیرات تو ہم کب کی کرچکے ہمیں تباہ کرکے یہ ہی ہمارا علم ہمیں تقسیم کیا جارہا ہے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.