اگر انتخابات نہ ہوئے یا ان میں تاخیر ہوگئی

پاکستان میں اڈیالہ کا قیدی نمبر 804 کی حکومت گرانے کے بعد پاکستان میں سیاسی بحران نے اس مُلک اور عوام کا جو بیڑا غرق کیا ہے. اس سے عوام کا اور خاص کر روزانہ اُجرت کمانے والا طبقہ و مزدور کے لیے اب دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گیا ہے.

آج کل پاکستان کے جس طرح معاشی حالات نے پاکستان کے ہر طبقے کو بری طرح ہلا کے رکھا ہوا ہے، اس وقت پاکستان کے اکثریتی عوام ان حالات کا ذمہ دار ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو ٹہرارہے ہیں۔ مگر اس سیاسی بحران کا ذمہ دار عوام کس کو قرار دیتے ہیں. جبکہ اس سیاسی بحران کے ذمہ دار عوام سیاستدان کو ہی قرار دیتی ہیں یا ادارے خود کو اس کا ذمہ ٹھہراتے ہیں . کیا سیاستدان بھی اس بحران کو مانتے ہیں کہ اس افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں؟ یا ادارے خود کو اس کا ذمہ ٹھہراتی ہے؟

مگر اس مُک کی 76 سالہ تاریخ میں آج تک کسی بھی سیاستدان ، سیاسی حُکمران ہوں یا اداروں نے کبھی بھی ملکی معاشی صورتحال کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمہ داری لینے کو آج تک کوئی بھی تیار نہیں۔ سب اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دیتے ہیں. یہی اس مُلک کی سب سے بڑی کمزوری ہے.

اگر کسی بھی سیاسی حکمران کے دور میں اس طرح کی صورتحال پر جب بھی سیاسی حکمراں جماعت یا حزب اختلاف سے سوال پوچھا جائے ان کے جوابات میں یہ ہی آئینگے کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو موروالزام قرار دینے سے ہمیشہ اپنا پلو کھینچیں گے انکا ہمیشہ سے ایک ہی نکتہ رہا ہے کہ وہ مخالف جماعت یا حزب اختلاف کو ہی موروالزام قرار دینگے.

جبکہ اکثر سیاسی رہنما اپنے روزمرہ کے نیوز چینل پر بیٹھ کر ہمیشہ سے تنقیدی انداز میں اداروں اور ان کی زیر نظر جماعتوں کو ہی تنقید کا نشانہ بناتے نظر آئینگے. انکا ہمیشہ سے یہ ہی بیانیہ رہا کہ اداروں کے کردار کی سزا ہمیشہ سے سیاستدانوں اور ملک کو بھگتنا پڑتی ہے۔ جس کا خمیازہ بنگلادیش ، سیاچین، کارگل ، اور اب کشمیر کی صورت میں عوام کے سامنے نظر آرہا ہے.

جبکہ پاکستان کا بچہ بچہ اب تو یہ ہی سمجھتا ہے کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے اور پاکستان کو آگے بڑھنے کا حل ایک یہ ہی نظر آتا ہے کہ اداروں کو سیاست سے دور رکھنے میں ہی پاکستان کی ترقی کا دارومدار ہے.

’جب تک پاکستانی سیاسی جماعیتیں پارلیمنٹ کو طاقت نہیں دینگی اور اہنی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کے حوالے سے خود مختیار پارلیمنٹ سے منظور کرانا کی شروعات نہیں کرینگی۔ جب تک پاکستانی ادارے ان چیزوں پر اپنا عمل دخل کرتے رہینگے . اس نظام میں کوئی بہتری یا ترقی کی اُمید لگانا بھی اب جان جونکوں کا کام ہے. اگر اپنے آپ کو خوش کرنا ہے. اور مُلک میں ہر 3 سال بعد اس ہی طرح افراتفری اور انارکی سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے۔‘

پاکستان کو سیاسی بحران سے نکالنے کا حل ایک ہی ہے، حکومت منصفانا الیکشن کراکے اقتدار جو بھی جماعت اکثریت حاصل کرئے اور اُس ہی کو اقتدار حوالے کیا جائے. جب ہی پاکستان کے دوست ممالک مطمئن ہوں گے۔ اور پاکستانی حکومت کا کچھ اثر دوست ممالک پر بھی پڑئیگا.

اگر 8 فروری کے انتخابات کسی وجہ سے نہ ہوئے، یا ان میں تاخیر ہو گی، ان سوالوں کے جوابات کسی ادارے یا سیاسی جماعت کے پاس نہیں۔ مگر ان سوالوں کے جواب ملک میں غریب، مڈل کلاس اور اب تو صاحب حیثیت طبقہ کے معاشی بدحالی کی کی جانب بھی مُلک میں تیزی سے بڑھ سکتا ہے.اگر مُلک میں انتیخابات میں اپنی مرضی کے رزلٹ بنائے گئے تو ملک میں کوئی بھی سیاسی جماعت ان الیکشن میں دھاندلی کو جواز بناکر مُلک میں تحریک شروع کرتی ہے.

یہ مُلک اب اس کا متھمل نہیں ہوسکتا. اس لیے تمام پاکستان کے اسٹیک ہولڈر مل بیٹھ کر الیکشن کو آزادنہ اور منصافانہ و سب جماعتوں کو موقع دیں جو اکثریت میں آئے ایسے حکومت کرنے کا موقع دیں. کیونک اب اس ملک اور عوام کے خوابوں کو حقیقت میں بدلاو لانے کے لیے مُلک میں ترقی کا پہیہ صیح ٹریک پر لایں اور وہ جبھی آئیگا کے جب سیاستدانوں کو اسمبلی میں اس مُلک کی قسمت کا بیڑہ اُٹھانے کا مکمل اختیار دے جب تک ان پر ذمہ داری نہیں ڈالی جائیگی جب تک اس مُلک میں جمہوریت برائے رہیگی اور یہ ملک بجائے آگے کہ پیچھے کی صف میں ہی اپنی جگہ پر براجمان رہیگا.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.