بغیر پائلٹ والی فضائی گاڑیوں کا دور

چین میں اس وقت ٹیکنالوجی کا ایک عروج دیکھا جا سکتا ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ مسلسل نئی جہتیں سامنے آ رہی ہے۔آج شدید موسم سرما میں منجمد پہاڑوں میں، آسمان کو چھوتی ہوئی ہائی وولٹیج لائنوں سے برف کو صاف کرنے کے لئے ہیوی ڈیوٹی ڈرونز استعمال کیے جا رہے ہیں۔کپاس کے کھیتوں کے وسیع حصوں میں، زرعی ڈرونز کو منظم طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ مٹی اور فصلوں کے بارے میں حقیقی وقت کے اعداد و شمار جمع کیے جاسکیں، جس سے کسانوں کو درست کاشتکاری میں مدد ملتی ہے۔ آتش ذدگی جیسی مشکل صورت حال میں فائر فائٹنگ ڈرونز ہوا میں ہائی پریشر واٹر کالمز کا چھڑکاؤ کرتے ہیں، جس سے عمارت کی بالائی منزلوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے شعلوں پر کامیابی سے قابو پایا گیا ہے۔فلم کے ایک مصروف سیٹ پر فضائی ڈرون شوٹنگ میں مدد کرتے ہیں اور ہائی ڈیفینیشن کیمروں کی مدد سے دلفریب مناظر کو قید کرتے ہیں۔

یوں چین میں ڈرون انتہائی تیزی سے مختلف صنعتوں میں ضم ہو رہے ہیں اور کم اونچائی والی معیشت کا تصور حقیقت کا روپ دھار چکا ہے ۔یہ معیشت ان گنت شعبوں کو بااختیار بنا رہی ہے اور جدید کاروباری شکلوں کو جنم دے رہی ہے۔یہاں"کم اونچائی" کی اصطلاح عام طور پر فضائی حدود سے مراد ہے جس کا عمودی فاصلہ سطح زمین سے 1000 میٹر سے کم ہوتا ہے لیکن علاقائی خصوصیات اور عملی ضروریات کے مطابق یہ فاصلہ 4000 میٹر تک بڑھ سکتا ہے
.
چین، اس مارکیٹ کو متحرک کرتے ہوئے ، پالیسی معاونت ، بہتر تکنیکی صلاحیتوں ، اور صنعت کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے ،کم اونچائی والی معیشت کی صلاحیت سے مکمل طور پر فائدہ اٹھا رہا ہے ، جس سے صنعت کو نئی بلندیوں تک پہنچنے کے قابل بنایا جارہا ہے۔اب سے کچھ عرصہ قبل "فلائنگ ٹیکسی" لینا کسی سائنس فکشن فلم کے منظر کی طرح لگتا تھا لیکن یہ آج کل ایک حقیقت بنتا جا رہا ہے کہ ہوائی سفر سے رش کے اوقات میں ٹریفک کی بھیڑ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔چین کے معروف تجارتی شہر شین زن میں "ایئر ٹیکسیوں" کے کاروبار اور خدمات کی رینج میں مسلسل توسیع جاری ہے۔یہاں کے مرکزی کاروباری ضلع کو ملانے والے فضائی مسافر روٹ نے سفر کا وقت 60 منٹ سے کم کرکے صرف 13 منٹ کردیا ہے۔ایک دوسرےشہر ہیفی میں دنیا کی پہلی تجارتی طور پر تعینات بغیر پائلٹ والی فضائی گاڑی
سول یو اے وی) نے باقاعدہ پروازیں شروع کر دی ہیں۔

ماہرین کے خیال میں کم اونچائی والی معیشت کا مستقبل بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے اور اس صنعت کو نہ صرف نقل و حمل کے نظام کے لئے بلکہ صنعتی نظام کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مزید ایپلی کیشن منظرنامے کے ابھرنے سے نئی صنعتی زنجیروں کو بھی جنم ملے گا۔ جدید ٹیکنالوجیز جیسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، ذہین ٹیکنالوجی، اور ڈیجیٹل ٹوئن ٹیکنالوجی ، سب کم اونچائی کی صنعت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں.اسی دوران، چینی کمپنیاں پہلے ہی کم اونچائی والی معیشت میں سبقت لے چکی ہیں۔عالمی مارکیٹ شیئر اور مصنوعات سازی کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ، چینی مینوفیکچررز ، پہلے ہی انتہائی مسابقتی ہیں۔چینی کمپنیوں نے فلائٹ کنٹرول، گمبل سسٹم، امیج ٹرانسمیشن اور خود ساختہ امیجنگ سسٹم جیسے شعبوں میں نمایاں برتری قائم کی ہے، جس میں موجودہ عالمی مارکیٹ شیئر 70 فیصد سے زیادہ ہے۔2023 میں ، چین کی بغیر پائلٹ والی فضائی گاڑیوں کی صنعت نے 120 بلین یوآن (16.85 بلین ڈالر) کی پیداوار کی اطلاع دی ، جو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ توقع ہے کہ 2025 تک یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو جائے گی۔

انٹرنیشنل ڈیجیٹل اکانومی اکیڈمی (آئی ڈی ای اے) کے جاری کردہ ایک حالیہ وائٹ پیپر کے مطابق، چین کی قومی معیشت میں کم اونچائی والی معیشت کا جامع حصہ 2025 تک 3 ٹریلین سے 5 ٹریلین یوآن تک پہنچ جائے گا۔کم اونچائی والی معیشت زیادہ سے زیادہ شہروں کے لئے ایک نیا ٹریک بن رہی ہے۔حالیہ برسوں میں ، کم اونچائی والی معیشت کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ، چین نے فضائی حدود، اقتصادی اور صنعتی پالیسیوں جیسے متعدد پالیسی سپورٹ کو مسلسل مضبوط کیا ہے. اس سے اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور مقامی تحقیقاتی اقدامات کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ ملا ہے۔ا س ضمن میں یکم جنوری 2024 کو ، بغیر پائلٹ والی فضائی گاڑیوں کے انتظام پر ایک عبوری ضابطہ نافذ کیا گیا ہے ، جس کا مقصد کم اونچائی والی معیشت کی ترقی ہے۔یہ ریگولیشن بغیر پائلٹ والی فضائی گاڑیوں کی پرواز اور متعلقہ سرگرمیوں کو معیاری بنائے گا، اور تجارتی آپریشن کے لئے معیاری حفاظتی اقدامات فراہم کرے گا، جس سے کمرشلائزیشن کو آگے بڑھانے اور کم اونچائی والے معاشی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس بنیاد رکھی جائے گی۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1155 Articles with 446964 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More