ہم نئے کراچی کے باسی ہیں

کراچی کے علاقے نیو کراچی اور نئی آبادی کے شہری مسائل

سابق وزیر اعظم عمران خان " نیا پاکستان " کا نعرہ "پولیٹیکل سلوگن " کے طور پر لگاتے رہے لیکن وہ شاید یہ بات بھول گئے کہ آج سے 52 سال پہلے بھی اس دور کی عوامی حکومت نے "نیا پاکستان" بنایا تھا،جو سقوط پاکستان اور پاک، بھارت جنگ کے نتیجے میں تباہ حال پاکستان کے ملبے پر بنا تھا۔ 1971 کے اختتام سے چند روز قبل جنرل یحیی خان کے استعفے
کے بعد صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے کا حلف اٹھانے والے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جنگ سے معاشی اور دفاعی طور سے تباہ حال پاکستان کو نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسے خوش حال اور دفاعی لحاظ سے مضبوط پاکستان بنادیا۔ بھٹو شہید نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان کو بیرون ملک سے پاکستان بلوایا اور انہیں ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا ٹاسک دیا۔ ان کی اقتدار سے معزولی اور شہادت کے بعد بھی ایٹمی پروگرام جاری رہا اور 1999 میں پاکستان دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت بن گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی کے شہری اس بات سے بے خبر ہیں کہ صدیوں پرانے شہر "کولاچی " کی کوکھ سے جنم لینے والے کراچی کے شکم سے چند سال بعد نئی کراچی اور نارتھ کراچی (جسے نئی آبادی بھی کہتے ہیں) کی پیدائش ہوئی تھی۔ آج بڑھاپے کی حدود میں داخل ہونے کے بعد دونوں بستیوں کا چہرہ حوادث زمانہ کے ہاتھوں داغدار ہوچکا ہے، لیکن آج بھی اسے "نواں کراچی" ہی پکارا جاتا ہے۔ نیوکراچی یا نیا کراچی جس کا غربی حصہ نارتھ کراچی یا نئی آبادی کہلاتا ہے، نام سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نیا نویلا، جدید سہولتوں سے آراستہ شہر ہو لیکن یہ ہماری خوش فہمی ہوتی ہے کیونکہ جیسے ہی ہم یوپی موڑ کے بعد نیو کراچی کی حدود میں قدم رکھتے ہیں تو ہمارا واسطہ موئن جو دڑو جیسے کھنڈرات سے پڑتا ہے۔ ناگن چورنگی جہاں قدیم روایات کے مطابق ایک ناگن کا بسیرا تھا۔اسی لئے یہ علاقہ ناگن چورنگی کے نام سے معروف ہوا۔ ناگن کے مرنے کے بعد یہ چورنگی آج بھی آں جہانی ناگن سے موسوم ہے۔لیکن یہ صرف من گھڑت کہانی ہے، کیوں کہ نیو کراچی آباد ہونے کے بعد ناظم آباد سے روٹ نمبر 4، 4-,اے، 4- کے، کی بسیں سخی حسن سے گزرتی ہوئی نیوکراچی کی جانب جاتی تھیں۔ ہم 1966 میں ناظم آباد میں حسینی اسکول میں زیر تعلیم تھے اور لیاقت آباد میں رہتے تھے۔ ہمارے چند دوست نیو کراچی کے رہائشی تھے۔ کبھی کبھار ہم ان کے ساتھ 4-اے بس میں بیٹھ کر نیوکراچی جاتے تھے۔ شام کو وہاں سے 4 ایچ یا کے آر ٹی سی کی ڈبل ڈیکر بس میں بیٹھ کر لالوکھیت اپنے گھر جاتے تھے۔ اس دور میں سخی حسن کا علاقہ آباد ہونا شروع ہوا تھا۔ بس کی کھڑکی سے سخی حسن کا مزار نظر آتا تھا۔ وہاں اس وقت تک عالیشان اور بلند و بالا بنگلے نہیں بنے تھے۔ اس سے آگے بفر زون کے علاقے میں مکانات، فلیٹوں کے جھنڈ اور تجارتی مراکز کا نام و نشان نہیں تھا۔ مزار کے بعد کیکر کی جھاڑیاں اور ببول کا جنگل تھا جس کے درمیان بل کھاتی ہوئی باریک سی کچی سڑک تھی جو میلوں دور تک چلی گئی تھی۔ ناگن چورنگی پر یہ اتنی خم دار ہوجاتی تھی کہ بالکل ناگن کی مانند لگتی تھی اور گولائی میں گھوم جاتی تھی۔ اسے دیکھ کر بس کے ایک مسافر نے رائے دی کہ اس جگہ کا نام تو " ناگن چورنگی،" ہونا چاہئے۔ بس کے مسافروں کو یہ تجویز بہت معقول لگی جب کہ کنڈیکٹر کو یہ نام اتنا پسند آیا کہ اس نے اس اسٹاپ کو ناگن چورنگی کے نام سے پکارنا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ دوسرے کنڈیکٹر بھی اس جگہ پہنچ کر "ناگن چورنگی، ناگن چورنگی" کی آوازیں لگانے لگے، جس کے بعد یہ علاقہ ناگن چورنگی کے نام سے معروف ہوتا گیا۔ چورنگی تو دس سال قبل ختم ہوچکی ہے، اس کی جگہ اوپر تلے دو فلائی اوورز اور گرین بس کا اسٹیشن بن گیا ہے۔ فلائی اوورز میں سے ایک پر ناظم آباد کی جانب سے آنے والی گاڑیاں، پل کی بلندی سے راشد منہاس روڈ پر اتر کر سہراب گوٹھ، گلشن اقبال اور شارع فیصل کا رخ کرتی ہیں جبکہ دوسری بالائی گزرگاہ پر سے لیاقت آباد ،گلشن اقبال، ملیر لانڈھی سے نارتھ کراچی جانے والی بسیں، کوچز، سکس سیٹر گزر کر جاتے ہیں جب کہ اسی پل پر سے بائیں ہاتھ پر ایک سڑک انڈا موڑ کی طرف جاتی ہے۔

راشد منہاس روڈ پر شفیق موڑ تک بڑے بڑے گڑھے ہیں۔ ٹریفک بے ہنگم ہے۔ شفیق موڑ سے بائیں ہاتھ پر نیو کراچی کی جانب راستہ جاتا ہے۔ گبول ٹائون کے چوراہے تک اس کے دونوں اطراف ملز اور فیکٹریاں ہیں۔ اس چوک پر
 ٹمبر مارکیٹ سے صبا سینما سے آگے تک نیوکراچی انڈسٹریل زون ہے جس میں تقریباً ڈھائی ہزار چھوٹی بڑی فیکٹریاں اور ملز ہیں۔ اس انڈسٹریل اسٹیٹ سے حکومت کو مختلف اقسام کے محصولات کی مد میں کھربوں روپے سالانہ آمدنی ہوتی ہے۔صبا سینما سے دائیں ہاتھ پر ایک راستہ ندی پر بنے پل سے ہوتا ہوا سپر ہائی وے کی طرف جاتا ہے۔ اس پر سے گزرتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ یہ انتہائی مخدوش حالت میں ہے، پل کے درمیان سڑک کے ٹکڑے ٹوٹ کر ندی میں گرتے رہتے ہیں۔ علاقہ مکینوں کے مطابق یہ پل کسی بھی وقت گر سکتا ہے جس کے بعد سپر ہائی وے کی کچی بستیوں کا رابطہ نیو کراچی سمیت ضلع وسطی کے دیگر علاقوں سے منقطع ہوجائے گا۔ شفیق موڑ کے چوراہے سے دو طرفہ سڑک میں گہرے گڑھے پڑے ہوئے ہیں، جن سے نیو کراچی میں اس پانچ کلومیٹر طویل شاہراہ کے آخری سرے اللہ والی تک جگہ جگہ کھڈ، گندے پانی کے جوہڑ ملیں گے۔چند سال قبل تک اس شاہراہ پر 4 ایچ بس، کوچز اور ویگنیں چلتی تھیں لیکن اب صرف ،W-11 ویگن اور چنگچی رکشہ چلتے ہیں۔ اس شاہراہ سے تین مختلف سڑکیں ناگن چورنگی، یوپی سوسائٹی، پانچ نمبر بس اسٹاپ سے پاور ہائوس چورنگی، سندھی ہوٹل سے نازیہ اسکوائر اور ڈی کا موڑ سے دو منٹ چورنگی جاتی ہیں۔ ان تمام سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سرکاری ریکارڈز میں تو ان کا وجود طویل شاہراہوں کے طور پر درج ہے لیکن یہ دو عشرے قبل قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ ان کی مرمت، استرکاری کی مد میں آج بھی ٹائون آفس سے مبینہ طور پر باقاعدگی سے ٹینڈر منظور ہوتے ہیں جس کے بعد فنڈ بھی مختص ہوتے ہیں جو اعلیٰ افسران کا بینک بیلنس بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ یوپی موڑ پر تقریباً پچاس ایکڑ رقبے پر محیط ایک بڑا پارک ہے۔ تین عشرے قبل تک اس کا شمار نیوکراچی کی خوبصورت تفریح گاہ کے طور پر ہوتا تھا۔

اس میں گھاس کے قطعات کے درمیان ایک تالاب بنا ہوا تھا، بچوں کے لئے جھولے جبکہ خواتین اور مردوں کے بیٹھنے کے لئے بنچیں، سبزہ زار اور ہرے بھرے درخت لگے ہوئے تھے۔ لوگ شام کے اوقات میں یا عام تعطیل کے دنوں میں پکنک منانے آتے تھے۔ پارک کا تو وجود مٹ چکا ہے۔ اب اس کی قیمتی آراضی پر سرکاری و نیم سرکاری عمارتیں تعمیر ہوگئی ہیں جب کہ پارک کی شمالی و جنوبی دیواروں کے ساتھ کی جگہ چائنا کٹنگ کی نذر ہوچکی ہے جس میں درجنوں مکانات اور تجارتی مراکز بن چکے ہیں۔ یوپی کے پارک سے نالا اسٹاپ پر جانے والی سڑک پر کچھی برادری کا کمیونٹی سینٹر ہے اس کے عقبی علاقے میں جگہ جگہ کچرا گھر اور گندے پانی کے جوہڑ ہیں۔یہ صورت حال الیون ڈی میں پانچ نمبر کی سڑک تک ہے۔ اس علاقے میں پارک بھی ہیں لیکن دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان کا وجود مٹ گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے نیوکراچی بساتے وقت الیون ایف، الیون ڈی، فائیو ای، الیون جی فور ایچ بس اسٹاپ کے قریب نصف درجن سے زائد پختہ مارکیٹیں تعمیر کرائیں لیکن وہ بے مصرف رہی ۔ ان میں خرید وفروخت کے کاروبار کی بجائے لوگوں نے قبضہ کرکے یا تو رہائش گاہیں بنالی ہیں یا لوہار اور خراد مشین کے کارخانے بنا لئے ہیں جب کہ ان میں گھوڑے، گدھے سمیت دیگر مویشی بھی باندھے جاتے ہیں۔ نیوکراچی پانچ نمبر کی سڑک پر جب ہم پاور ہائوس چورنگی کی جانب چلیں گے تو دائیں جانب سیکٹر 5ای کا علاقہ ہے۔ یہاں کافی بڑا میدان ہے جس میں بلند و بالا مینار والی مسجد اسلامیہ ہے جس کے اطراف دور دور تک گند آب کا دریا بہہ رہا ہے۔ اس سے آگے جھونپڑیاں تجاوزات کی صورت میں موجود ہیں۔ یوپی سوسائٹی گورنمنٹ اسپتال سے مرکزی سڑک، کالا اسکول تک جاتی ہے۔ اس سڑک پر نیوکراچی تھانے اور ایس پی آفس کے سامنے ہر اتوار کو مین شاہراہ کے دونوں ٹریکس پر ہمہ اقسام کی کاریں اور دوسری گاڑیاں فروخت کے لئے کھڑی ہوتی ہیں جب کہ پارک کے تقریباً پچاس ایکڑ کے وسیع و عریض رقبے میں اتوار کار بازار لگتا ہے۔ اس سڑک پر سے گزرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔کار بازار سے جب کالے اسکول کی جانب چلیں گے تو ایک وسیع و عریض پارک کی تقریباً سو ایکڑ اراضی میں سے بیشتر رقبہ محکمہ پارکس نے قانونی یا غیر قانونی طور پر قبضہ مافیا کے حوالے کردیا ہے۔ تقریباً پانچ ایکڑ اراضی پر "اربن " نام کے پرائیوٹ اسکول کی عظیم الشان عمارت بن چکی ہے۔ اسکول کے مرکزی گیٹ سے اصل عمارت تک پچاس گز کا فاصلہ ہے جہاں جانے کے لئے پختہ روش بنی ہوئی ہے، اس کے ساتھ وسیع و عریض کار پارکنگ ہے۔ اسکول سے ذرا ہٹ کر موٹر مکینکس کے گیراج ہیں۔ اسی پارک کی حدود میں بلال کالونی پولیس اسٹیشن، کراٹے سینٹر و جمنازیم اور ہیلتھ کلب بنے ہوئے ہیں جب کہ تقریباً ایک ایکڑ سے زیادہ قطعہ اراضی پر پاکستان آرٹس کونسل ضلع وسطی کی عمارت بن گئی ہے۔

اب ہم نارتھ کراچی یا نئی آبادی کی سمت چلتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ 65 سال قبل نارتھ کراچی کا علاقہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بسایا گیا تھا۔ سخی حسن کے چوراہے سے سرجانی یا 4 کے چورنگی تک انتہائی کشادہ اور شفاف سڑک تعمیر ہوئی تھی، جس کے دونوں ٹریکس کے درمیان سایہ دار درخت لگائے گئے تھے۔ اس کے بارے میں محکمہ پی ڈبلیو ڈی کے حکام کا کہنا ہے کہ جب کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا تو اس وقت سرکاری اہل کاروں اور افسران کے لئے پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز میں دو کمروں کے مکانات بنائے گئے تھے۔ جن میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کی معروف شخصیات اور اعلیٰ سرکاری افسران رہائش پذیر تھے۔ دو منٹ کی چورنگی پر سرکاری افسران و اہل کاروں کی نئی رہائش گاہیں تعمیر کرانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ لیکن ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے بعد اسلام آباد کو دارالخلافہ بنالیا جس کے بعد یہ منصوبہ بھی ادھورا رہ گیا۔ اس کی نشانی اس دو رویہ شاہراہ کی صورت میں باقی رہ گئی ہے۔اب اس سڑک کو سرجانی ٹائون، خدا کی بستی اور لیاری ٹائون تک وسعت دے دی گئی ہے جب کہ 4 کے چورنگی کے دائیں ہاتھ پر ایک سڑک اللہ والی، گلشن معمار سے گزرتی ہوئی سپر ہائی وے جاتی ہے۔ لیکن اس سڑک کے دونوں ٹریکس تباہ حال ہیں اور ان میں بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے ہیں۔ دوسری طرف پاپوش نگر قبرستان اور عبداللہ کالج سے شاہراہ نور جہاں کا آغاز ہوتا ہے۔ جب اس سڑک کی تعمیر ہوئی تھی تو اس پر سفر بہت خوشگوار لگتا تھا۔ سڑک کے ساتھ انٹر میڈیٹ بورڈ کی عمارت، بختیاری یوتھ سینٹر، ڈی سلوا ٹائون میں بنے عالیشان بنگلے،کراچی کا دوسرا بڑا اسٹیڈیم، اصغر علی شاہ اسٹیڈیم واقع ہیں۔ دو عشرے قبل قلندریہ چوک سے عبداللہ کالج تک صبح کے وقت اس شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے یوں لگتا تھا جیسے ہم سوات یا شمالی علاقہ جات کی پہاڑی وادیوں کی سڑک پر محو سفر ہوں ۔ قصبہ بنارس کی پہاڑی بلندیوں کے نشیب میں صاف و شفاف اونچی نیچی چڑھائیوں پر بل کھاتی سڑک، جس کے دونوں اطراف لہلہاتے درخت،حسین منظر پیش کرتے تھے۔ بنارس کی پہاڑیوں پر جو ماضی میں " خاصہ ہلز" کہلاتی تھیں، ان کی بلندیوں پر" پہاڑ گنج" نامی بستی ہے جسے 70 سال قبل کوہستان سے آنے والے جفا کش لوگوں نے آباد کیا تھا جو پہاڑی کاٹ کر منگھوپیر میں واقع سیمنٹ فیکٹریوں کو چٹانی پتھر فراہم کرتے تھے۔ اب شہری اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے ماضی کی یہ بل کھاتی خوبصورت سڑک بھی تباہ حالی کا شکار ہے۔سڑک کی بل کھاتی چڑھائیاں آج ابھی باقی ہیں لیکن گڑھوں کی وجہ سے اس پر سفر کرنے والے مسافروں کے گاڑیوں میں لگنے والے دھچکوں کی وجہ سے جسم کے سارے "کس بل " نکل جاتے ہیں۔ نصرت بھٹو کالونی یا قلندریہ چوک کو کراس کرکے یہی سڑک انڈا موڑ، محمد شاہ قبرستان، خواجہ اجمیر نگری پولیس اسٹیشن کے سامنے بنے پمپنگ اسٹیشن سے ہوتی ہوئی حب ڈیم والے روڈ کی جانب جاتی ہے۔ قلندریہ چوک پر سخی حسن قبرستان ہے جس کے سامنے سڑک کے دونوں ٹریکس تباہ حال ہیں۔ قبرستان کے سامنے اور قلندری پارک کے سروس روڈ پر ٹینکر مافیا کا قبضہ ہے۔ محمد شاہ قبرستان کے بعد ہم جس علاقے میں داخل ہوتے ہیں، اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم افریقہ یا تھر کے مفلوک الحال علاقوں پر مشتمل قصبات میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہاں پہنچ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق بستی ہے۔ جدید تہذیب کا اس علاقے سے گزر نہیں ہوا۔ محمد شاہ قبرستان سے آگے، پہاڑی علاقہ ہے جس کے اوپر اور نشیب میں تنگ و تاریک گلیوں کے اندر کچے پکے مکانات بنے ہوئے ہیں جسے پختون آباد کا نام دیا گیا ہے، حالانکہ اس میں پختونوں کے علاؤہ کشمیری، ہزارہ وال، سندھی، بلوچوں اور سرائیکیوں پر مشتمل کچی آبادی ہے۔اس علاقے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ نہ تو یہاں شہری سہولتیں میسر ہیں اور نہ حکومتی رٹ نظر آتی ہے۔

سڑک کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ پمپنگ اسٹیشن کے بعد تو گاڑیوں کے علاؤہ پیدل چلنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اس علاقے تک پہنچنے کے لئے دوسری سڑک ڈسکو موڑ سے آتی ہے۔ چار کلومیٹر یہ دو رویہ سڑک ڈسکو موڑ سے شروع ہوکر بابا موڑ پر ختم ہوتی ہے۔ لیکن بابا موڑ سے حب ڈیم جانے والی شاہراہ عبور کرکے کراچی کی سب سے بڑی کچرا کنڈی، لینڈ فل سائٹ کی سڑک سے منسلک کیا گیا ہے۔ بابا موڑ سے سڑک پار کرکے سرجانی ٹائون میں داخل ہوتے ہیں۔ یہی سڑک تین کلومیٹر آگے لینڈ فل سائٹ تک جاتی ہے۔ بیس سال قبل اس سڑک کی تعمیر سے پہلے یہاں کیکر کی جھاڑیاں اور ببول کا جنگل تھا۔ حکومت نے چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے تحت جنگل صاف کرکے کاٹیج انڈسٹری کے لئے سستے پلاٹ الاٹ کئے گئے جن پر زیادہ تر پولٹری فارمز ،ڈیری فارمز یا بھینسوں کے باڑے بنائے گئے تھے۔ لیکن 2017 میں پولٹری فارمز اور بارے ختم کرکے کاٹیج انڈسٹری کے قیمتی پلاٹس بلڈرز مافیا کو فروخت کردیے گئے جن پر کمرشیل پلازہ اور بنگلے تعمیر کئے جارہے ہیں۔ لینڈ فل سائٹ سے بابا موڑ تک کا راستہ انتہائی مخدوش ہے۔ دو رویہ سڑک کے درمیان ڈیڑھ فٹ اونچے مٹی کے تودے اور گہرے گڑھے ہیں جن پر گاڑیاں چلانا دشوار ہوتا ہے۔ بابا موڑ سے جب ڈسکو موڑ تک چلتے ہیں تو آغاز میں ہی ڈسکو موڑ کی طرف جانے والا ٹریک کیچڑ، سیوریج کے پانی، کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا سارا دبائو بابا موڑ کی جانب آنے والے ٹریک پر ہوتا ہے۔ لیکن بابا موڑ کے چوراہے پر چنگچی رکشوں کے غیرقانونی اسٹینڈ بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں سے گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس ٹریک پر بھی گہرے کھڈ ہیں لیکن گاڑی مالکان اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ دو عشرے قبل اس سڑک پر کراچی کے تمام علاقوں کی طرف جانے کے لئے یو ٹی ایس کی آرام دہ ائیر کنڈیشنڈ بسیں،4 جے بس، کوچز، منی بسیں چلتی تھیں۔ یہاں سے سلال کوچ، نیاز کوچ، جمال کوچ، W-22 کی منی بس چلتی تھیں ۔ سڑکوں کی تباہی کی وجہ سے ساری بسیں اور کوچز اس راستے پر چلنا بند ہوگئیں۔

کلفٹن اور لانڈھی کورنگی جانے والی یو ٹی ایس بسیں، ٹاور جانے والی 4 جے بس بند ہوچکی ہیں۔ اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر چنگچی یا سکس سیٹر رکشے کی اجارہ داری ہے۔ علاقہ مکین ڈیڑھ کلومیٹر پیدل یا چنگ چی رکشے میں سفر کرکے دو منٹ چورنگی یا یوپی موڑ جاتے ہیں وہاں سے گرین بس یا خان کوچ کے ذریعے ٹاور اپنے دفاتر پہنچتے ہیں۔ یہ علاقہ تقریباً ڈھائی لاکھ نفوس پر مشتمل ہے لیکن یہاں کوئی شہری سہولت میسر نہیں۔ بابا موڑ سے رحمانیہ موڑ تک سڑک کے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر حصے پر پانچ پانچ فٹ گہرے گڑھے ہیں، سڑک کا ایک ٹریک تین سال قبل سیوریج لائن ڈالنے کے لئے ہونے والی کھدائی کی وجہ سے بالکل بند ہے۔ کیوں کہ لائن ڈالنے کے بعد شہری اداروں نے گڑھوں سے نکلنے والا ملبہ سڑک پر ہی چھوڑ دیا، اسے اٹھوانے کی زحمت نہیں کی۔ سڑک کی جگہ گند آب کے تالاب بن چکے ہیں جب کہ کئی فٹ گہرے گڑھوں کو بھرا نہیں گیا۔ کچھ مقامات پر یہ گڑھے پانچ سے چھ فٹ گہرے ہیں۔ سڑک کے وسط میں واقع ان گڑھوں میں گر کر اب تک درجنوں موٹر سائیکل سوار زخمی ہوچکے ہیں۔ واٹر بورڈ اہل کار سڑک کی تباہی کے لئے پی ڈبلیو ڈی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں جبکہ پی ڈبلیو ڈی افسران واٹر بورڈ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ دوسرے ٹریک جس پر آنے اور جانے والی گاڑیاں چلتی ہیں یہ بھی تباہ حال ہے۔ اس میں بھی جگہ جگہ مین ہولز کھلے ہوئے ہیں۔ سڑک پر سیوریج کا پانی جمع رہتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مرتبہ نارتھ کراچی این اے 247 کے ممبر قومی اسمبلی کو فون کرکے ان مسائل کی نشان دہی کی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے صاف جواب دے دیا کہ سڑکیں مرمت کرانا اور فراہمی و نکاسی آب کا مسئلہ حل کرانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ متعدد مرتبہ سابقہ مئیر کراچی محترم وسیم اختر اور موجودہ مئیر مرتضیٰ وہاب کو بھی فون کرکے ان مسائل سے آگاہ کیا لیکن ان دونوں شخصیات نے فنڈ نہ ہونے کا عذر پیش کیا۔ پانچ سے چھ فٹ گہرے گندے پانی سے بھرے ان گڑھوں میں واٹر بورڈ کی پانی کی فراہمی کے لئے والوو لگے ہوئے ہیں۔ لوگ پانی سے بھرے گڑھوں میں اتر کر اپنے طور پر والوو آپریٹ کرتے ہیں اور دوسرے علاقوں خاص طور سے سیکٹر تھری کی واٹر سپلائی روک کر پانی کا رخ اپنے علاقے کی طرف موڑ لیتے ہیں۔واٹر بورڈ کے عملے اور افسران کے مطابق یہاں کے الحمید پمپنگ اسٹیشن سے فراہمی آب سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ سیکٹر تھری کا بالائی علاقہ گزشتہ دو ماہ سے پانی سے محروم ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہے۔ دوسری جانب سیکٹر تھری کے پورے علاقے میں ایک ہی پارک ہے جو 2010 میں تعمیر ہوا تھا۔اب اس کے صرف آثار باقی رہ گئے ہیں۔ پارک کا بیشتر حصہ کچرا گھر بنا ہوا ہے۔

 اس میں ٹخنوں تک ریت ہے۔ پارک کی باقیات کی صورت میں پتھروں سے بنی پختہ روش رہ گئی ہے جس پر شام کے وقت کچی آبادی کے بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ مالی اور چوکیدار کے لئے جو کمرہ اور اس میں واٹر ٹینک بنایا گیا تھا، وہ جرائم پیشہ افراد کی کمین گاہ بنا ہوا ہے۔ ایک ماہ قبل علاقہ مکینوں نے وہاں سے ایسے شخص کو پکڑا جو کتے کو مارنے کے بعد اس کی کھال اتار رہا تھا۔ مذکورہ شخص کے بیان کے مطابق وہ کتوں، مردہ مرغیوں کا گوشت کٹی پہاڑی اور دیگر پسماندہ علاقے کے ہوٹلوں اور بار بی کیو ریستوران میں فروخت کرتا ہے۔ یہ اسٹوری ایک ماہ قبل روزنامہ محافظ پاکستان میں شائع ہوچکی ہے۔ سیکٹر تھری میں آغا خان لیب کے عقب میں وسیع و عریض میدان میں ایک سرکاری اسکول ہے۔ پورا میدان اور اسکول کئی سال سے گٹر کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے، اس لئے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ہم اس شہر کے باسی ہیں جو نیو کراچی ٹائون کا نارتھ کراچی یا نئی آبادی کہلاتا ہے۔ یہاں بنکار، صحافی، شاعر، دانش ور ملازمت پیشہ افراد، کاروباری طبقہ رہتا ہے لیکن عوامی نمائندوں، مئیر کراچی، فراہمی و نکاسی آب کے افسران اور وزیر ٹرانسپورٹ کی چشم پوشی و نااہلی کی وجہ سے ازمنہ وسطٰی کے باسیوں _جیسی زندگی گزار رہا ہے۔مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب سمیت کمشنر، ڈپٹی کمشنر_ یا دیگر اعلیٰ افسران اس علاقے کی تباہ حال سڑکوں اور غیر انسانی ماحول کی وجہ سے یہاں سے گزرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں کی طاقت سے منتخب ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنے "ووٹ بینک " کے مسائل بنیادی حل کرانے کی بجائے ہر سال ترقیاتی بجٹ کی مد میں ملنے والے پچاس کروڑ روپے کے فنڈ کے بیشتر حصے کو بینک بیلنس بڑھانے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ سیکٹر تھری میں دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے بارہ گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ لیکن بجلی کا بل مختلف النوع محصولات لگ کر پندرہ سے تیس ہزار روپے ماہانہ تک آتا ہے۔ سوئی گیس شام سات بجے سے صبح سات بجے تک بند رہتی ہے لیکن اس کا بل بھی ہزاروں روپے آتا ہے۔ پانی سے لوگ مہینوں محروم رہتے ہیں لیکن پانی کا ہزاروں روپے کا بل معینہ تاریخ تک بھرنا لازمی ہے ورنہ آپ کی جائیداد بحق سرکار قرق کرلی جائے گی۔ دور دور تک سرکاری اسپتال کی سہولت موجود نہیں ہے۔ بیس سال قبل صوبائی حکومت کی جانب سے فور جے کے چوک کی مرکزی سڑک پر اسپتال کی عمارت کی تعمیر کے لئے ایک ایکڑ کا پلاٹ مختص کیا گیا تھا۔ اس پر پہلے ایک سیاسی جماعت نے قبضہ کرنے کی کوشش کی، اس کے بعد صوبائی اسمبلی کے ایک رکن نے علاقہ مکینوں کو فراہمی آب
کے لئے واٹر بورڈ حکام کی اجازت سے مبینہ طور پر اپنے ذاتی پیسے سے پمپنگ اسٹیشن تعمیر کرا دیا۔ ہمیں انتخابات میں بزور قوت ووٹ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے "کیونکہ ہم نئے کراچی کے باسی ہیں"..

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 4 Articles with 174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.