”آج شاید آپ بہت زیادہ مغموم ہیں
،اتنی افسردگی سے بولنے کی وجہ کیا ہے ؟ہاں ، ہاں ،ہاں ! بولئے نا ،کیا ہوا
، کیوں افسردہ ہیں آپ اتنے ؟ اچھا نہیں بولیں گی آپ ؟ ۔بولوں گی ،واللہ
پوری رات عجیب کشمکش میں گزری ہے ، سچ تو یہ ہے کہ نیند ہی نہیں آئی ہے ،بات
دراصل یہ ہے کہ ابا کا خیال ذہن میں جب بھی آتاہے تو عجیب سی کیفیت مجھ پر
طاری ہوجاتی ہے۔ آنکھوں کی نیند اڑ جاتی ہے ،دماغ دھواںدھواں ہونے لگتا
ہے“۔جی قارئین !یہ کوئی فلمی اسکرپٹ یاڈائیلاگ نہیں ، کسی افسانہ کاجز
نہیںبلکہ یہ ہے ”زندہ معاشرہ“ کے زندہ افراد کی ”زندہ حقیقت“۔یعنی کوئی
انیس بیس برس کی لڑکی کی آواز!!
فی الواقع صنف نازک کا انسانی زندگی میں متعدد روپ ہوتے ہیں ۔ ماں کا رو پ
جو سراپا ممتا کاپیکرہوتاہے ۔ بہن کا روپ جو محبت والفت کی لاثانی ولافانی
نشانی ہوتی ہے ۔ بیوی جو شریکِ حیات اور رفیقِ زندگانی ہوتی ہے ۔ بیٹی جو
مقدس رشتہ کی ایک مثال ہوتی ہے ۔ الغرض سفینہ حیات کو رواں دواں رکھنے میں
وہ ممد ومعاون ہوتی ہے ۔ کبھی لزرتے قدم کو سہارادیتی ہے توکبھی سرد
انگیٹھیوں کوگرمادیتی ہے ۔ کبھی حوصلہ شکن حالات میں غیرمعمولی شجاع
وبہادری اور جوانمردی کے سبق سے مردوں کواولوالعزم اوردلیر بنادیتی ہے تو
کبھی بے کیف وبے نو ر زندگی کو سرور آنگیں بنادیتی ہے ۔ گویا عورتوں سے ہی
زندگانی کی رعنائی ہے ، اسی سے دلکشی و دلفرینی ہے اور نغمگی بھی ۔حتی کہ
اس کے بغیر افزائش نسل اور بقاءنوع انسانی متصور نہیں ۔ تصویرکائنات میں
اسی سے رنگ ہیں ، اسی کے دم سے رس ہے ، اسی کی وجہ سے سرورہے ۔ سچ کہاہے
نباض فطرت علامہ اقبال نے
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
مگر افسوس صد افسوس! یہی صنف نازک معاشرہ کی ستم رسیدہ ہے ۔ ہر طرح سے اس
کا استحصال کیا جاتاہے ۔آزادی کے پر فریب نعروں میں اس کے استحصال کے سامان
ہوتے ہیں ۔ برابری کے فلک شگاف نعروں میں اس کی ذلت و رسوائی پنہاں ہوتی ہے
۔ معاشرہ کے متعدد رسومات میں اسے ہی بلی کا بکرہ بننا پڑتا ہے ۔ معاشرہ کی
ترچھی نگاہوں سے مسخ ستم بنتی رہتی ہے۔ بے شمار غلط الزامات میں پھانس کر
اسے ذلت و رسوائی کے بحر بیکراں میں دھکیل دیا جاتاہے ۔ان کی عصمت وعفت
کوتار تار کرنے کی گھات میں ہمہ دم شہ زور سرگرم عمل رہتے ہیں ۔ مختصراً
پاکدامن اورعفت مآت خواتین کا بھی معاشرہ میں کوئی احترام نہیں ۔
معاشرہ میں عصمت دری اور جہیز سے متاثر بے شمار خواتین اپنی زندگی کو کوستی
نظر آتی ہیں ۔ عصمت دری معاملہ میں تو شہ زور ، بدطنیت اور جرائم پیشہ
افراد ہی نہیں ، بلکہ حاذق وماہر اطبا سے لے کرپولیس انتظامیہ اوربے شما ر
ممبران اسمبلی بھی ملوث ہیں ۔ وہ بہیمانہ سلوک کرکے عورتوں کو زدوکوب کرتے
ہیں ۔ ا سکی مثال ریاست اترپردیش میں بہت واضح ملتی ہے ۔ جون اورجولائی
2010میں اطباءسمیت پولیس اورممبران اسمبلی نے عصمت دری کا وہ ننگا ناچ کیا
جو شاید تاریخ کا سیا ہ باب بن جائے ۔ حالانکہ یہاں برسراقتدار پارٹی کی
صدر خود عورت ہے ، عورت کی سربراہی والی ریاست میں عورتوں کے ساتھ یہ
بہیمانہ سلوک ،ہائے ہائے !!اس پارٹی سے معطل چھ ممبران میں سے تین عصمت دری
معاملہ میں ہی ماخوذ ہیں ۔
عصمت دری معاملہ میں ریاست کے ڈاکٹر اورممبران اسمبلی کے کالے کارنامے سے
آگاہی کے لئے ذیل میں قدرے تفصیلی گفتگوکرنا مناسب ہے :
پرشوتم نریش دویدی جوحلقہ نرینی باندہ سے بسپا کے ممبر اسمبلی ہیں ، شالو
آبروریزی معاملہ میں پارٹی سے معطل کئے گئے ہیں ۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ
شالوکی ماں کا جب انتقال ہواتو وہ مدھیہ پردیش میں ننیہال میں رہتی تھی،وہ
وہاں سے فرارہوگئی ۔ ننیہال والوں نے اس کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کروائی
۔ چنددنوںبعداس کے والدکواطلاع ملی کہ شالورجو کے گھر میں بحیثیت باندی ہے
۔ انہوں نے اس کی شکایت پرشوتم نریش دویدی سے کی ۔ ممبرصاحب نے اسے اپنے
گھر بلالیا ،مگر شالو 13-14نومبر2010کی شب پھر وہاں سے بھاگ نکلی ۔ ممبر جی
نے اس پر چوری کا الزام عائد کرکے ا س کے خلاف مقدمہ درج کروادیا ، مگر
شیلو کا کہناہے کہ انہوں نے دومرتبہ اس کی آبروریزی کی ہے اور تیسری مر تبہ
جب انہوں نے بہیمانہ سلوک کرنا چاہا تو رفو چکر ہوگئی ۔ چنانچہ پارٹی سے
انہیںمعطل کردیا گیا، تحقیق کی ذمہ داری پی سی بی آئی ڈی کوسو نپ دی گئی کہ
تین ہفتہ میں رپورٹ پیش کرے ۔ مگر اب تک کوئی رپورٹ کسی نے نہیں پیش کی ۔
ہر پھر کر اب یہ مقدمہ کوئی دس مہینہ بعدستمبر2011میں سی بی آئی کوسونپ دیا
گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کب اس کا خلاصہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح بجنور کے ممبر
اسمبلی شاہنواز رانا شاہدرہ کی مکیں ایک عورت کے ساتھ ناکام عصمت دری ،ملکی
پورفیض آباد کے ممبراسمبلی آنندشین ششی کے اغواو قتل اورشری بھگوان شرما
عرف گڈو پنڈت شیتل کی جنسی استحصال میںمعطل کئے گئے ہیں ۔لکھیم پوری کھیری
سونم قتل میں تو ڈاکٹر اور پولس اہلکاروں نے انسانیت کی تمام حدیں پھلانگ
دی ۔ معصوم سونم فریاد لے کر تھانہ پہونچی ، پولیس والوں نے اس سے
زنابالجبر کیا ، اس کی موت واقعہ ہوگئی ،پھر ڈاکٹروں نے اس کی پوسٹ مارٹم
رپورٹ میں خورد برد کی ۔ گو یا یہ محافظ بھی ہیں رہزن !
جہیز جو معاشرہ کا ناسور بن چکاہے ، سے پورے ہندوستان کی صنف نازک متاثر ہے
۔ جہیز کے بھوت کے شکار بے حسی اوربے رحمی کے مرض میں مبتلاءہیں ۔ ان پر
مادیت کا بھوت سوارہے ۔ لڑ کیوں کے بے شمار والدین اپنی بچیوں کے لئے شریک
حیات ڈھونڈنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں ،نت نئے مشکلات کا سامنا کررہے ہیں
، مگر جہیز کے لالچیوں کو ان کی کوئی پر واہ نہیں۔ اپنے معاشرہ کے افراد کے
دکھ درد کا کوئی احساس نہیں ۔ اسی جہیز کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے
معاشرہ کی بے شما ر لڑکیاں بن بیاہی اپنے والدین کے گھر بیٹھی ہیں تو بے
شمار رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے باوجود بھی جہیز کے لالچیوں کے ہاتھوں
پس رہی ہیں ،انہیں زدوکوب کیا جارہا ہے ۔ الہٰ آباد میں توایک ایسا روح
فرسا واقعہ رونما ہوا جس سے روح کانپ جاتی ہے ۔ سسرال والوں نے شوہر کی
موجودگی میں بہوکا اسقاط حمل یہ کہہ کرایا کہ تمہاری گو د اولادکے پھول سے
اسی وقت سج سکتی ہے ، جب تم اپنے گھر سے موٹر سائیکل (سسرال ایکسپریس ) لے
آؤ ۔ حالانکہ یہ لڑکی حتی المقدور جہیز لے کر آئی تھی ۔
مضمون کی ابتداءجس واقعہ سے ہوئی ہے وہ بھی جہیز سے متعلق ہے ، ایک لڑکی جس
کے والدین اپنی بچی کو ازدواجی زندگی سے منسلک کرنے کی جی جان کی بازی
لگارہے ہیں ، مگر جہیز کی مکمل فراہمی میں بے شمار ارچنیں آرہی ہیں ۔چنانچہ
والدین کی حالت بہت پتلی ہوگئی ہے ۔ ان کی حالت دیکھ یہ لڑکی ایک دن فون پر
وہ جملے اداکرتی ہے جو ابتدائًی مذکورہیں۔ یہ ہے معاشرہ جو عورتوں کو اس حد
تک استحصال کررہا ہے ۔ لہذا یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر کب تک یہ سلسلہ
دراز ہوتا جائے گا ؟ کب ہمارے معاشرہ میں زندہ دلی اور رحم کی فضاقائم ہوگی
؟کب جہیز کے خاتمہ کے لئے ہم پیش قدمی کریں گے ؟ کن اصولوں کو اپنا کر ہم
خاتمہ جہیز میں بامراد ہوسکتے ہیں ؟۔
خاتمہ جہیز کے لئے راقم کی نظر میں دوباتیں ہیں(۱)مذہبی لیڈران خواہ وہ کسی
بھی مذہب کے شیدائی ہوں ، جہیز سے اجنتاب کریں۔ (۲)اسی طرح معاشرہ کے اہل
ثروت بھی ۔ کیوں کہ دونوں کی لین دین سے معاشرہ میں رسمیں اپنی جڑیں مضبوط
کرتی ہیں ۔ یہ بات یادرکھیں کہ ان کا لینا دینا حسب حیثیت مطلق غلط نہیں ۔
ان کا لینا درست سہی مگر معاشرتی لحاط سے وہ قابل ماخوذ ہیں ۔ جن کے پا س
سیم وزر ہے وہ تو خوب لین دین کرتے ہیں ، رسمیں ان کا کچھ بگاڑ نہیں پاتی
ہیں ، مگراہل ثروت کی لین دین سے معاشرہ میں رسم زندہ و جاوید نظرآتی ہے ،
اسی سے دبے کچلے افراد کیا ، متوسط طبقہ بھی غیر معمولی بوجھ تلے دب جاتاہے
۔ چنانچہ جہیز کی قباحت سے معاشرہ کو پا ک کرنے کے لئے ان دونوں کو پیش
قدمی کرناہوگی ۔ ہاں!انہیں جہیز کا معاملہ کرنا ناگریز محسوس ہوتا ہوتو
خفیةً ہی کرلیں ، اس طریقہ سے لین دین بھی ہوجائے گی اور معاشرہ سے رسم کا
خاتمہ بھی ۔
عصمت دری ،نسوانیت پر تنقید ، جہیز کے لئے زد وکوب کرنے والوں کے خلاف
متعدد دفعات کے تحت مختلف سزائیں ہیں ۔ عصمت دری سے متاثر خواتین کی شناخت
ظاہر کرنے والوں کے لئے دوبر س قید اورجرمانہ ۔فحش عمل اورگانے کی پاداش
میں تین مہینہ کی سزا یا جرمانہ یادونوںہے ۔نسوانیت پر تنقید کرنے کی سزا
ہے دوسال ۔ اسی طرح زورزبردستی عصمت دری کی سزادس سال اور جرمانہ ہے ۔ جہیز
کے لئے پریشان کرنے پرتین سال قید اورجرمانہ ہے ۔ حتی کہ کسی خاتون کی طرف
بیہودہ اشارہ کرنے یا اکسانے پر ایک برس قید کی سزا ہے ۔
ایسی ایسی سزاﺅں کے باوجود آئے دن واقعات میں اضافہ ہونا کس بات کا غماز ہے
؟ کس کی کوتاہی ہے ؟ کو ن اس کا ذمہ دارہیں ؟ اس کا ساد ہ سا جواب ہے ،
انتظامیہ اور معاشرہ کی کوتاہی ۔چنانچہ حیوان نما انتظامیہ اوردرندہ صفت
معاشرہ کو بڑھتے واقعات پرماتم کنا ں ہونا چاہئے ۔ اپنے گریبان میں جھانکنا
چاہئے ۔ جنسی استحصال میں عورتوں کی جانب سے جو کوتاہی ہوتی ہے اس میںبھی
معاشرہ ذمہ دارہے اسی طرح لڑکیوں کے خود کشی اقدام میں بھی ۔ کیوں جہیز کی
ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں عین وقت پر رشتہ ازدواج سے منسلک ہونا ایک امر
محال ہے ان دنوں ۔
ایک موقر اردوروزنامہ کے 21ستمبر 2010کے شمارہ میں عورتوں کے استحصال کے
تقریباً دس خبریں تھیں ، کوئی عصمت دری کا معاملہ تھا توکوئی پولیس کے ظلم
وستم کی شکار تھی ۔ کسی کو شو ہر نے موت کے گھاٹ اتاردیا تھا توکوئی پڑوسی
کے ذریعہ غلط الزامات عائد کی وجہ سے پریشان تھی ۔ اسی سے اندازہ کیا
جاسکتاہے کہ سال بھرمیں جہیز وعصمت دری سمیت دیگر معاملا ت میں ملک کے طول
وعرض میں کتنی عورتوں کا استحصال کیاجاتاہوگا؟کتنی عورتیں معاشرہ کے درندہ
صفت افراد کے ہتھے چڑھتی ہوں گی ؟ تما م صورت حال کے مدنظر یہ کہنے میں ذرا
بھی باک نہیں کہ عورتوں کے تئیں معاشرہ نے حیوانیت کے حدوں کو پھلانگ دیا
ہے ۔ معاشرہ کے اتا رچڑھاؤ سے صنف نازک آج بہت کچھ کرنے پر مجبور ہے ۔ اس
لئے معاشرہ کو ذراٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا ۔ معاشرہ کے نشیب وفراز کی بات
چلی تو سردست ”ش مظفرپوری “کے افسانہ ”کنول“کا خلاصہ تحریر کرنا مناسب
معلوم ہوتاہے ۔
کنول ، جس کے نام سے یہ افسانہ منسوب ہے ، انتہائی پاکدامن تھی ۔ با حیااور
عفت مآ ب تھی ۔ دل پر کسی کی بادشاہت نہیں ہوتی کہ معاشرہ کے کسی لڑکے سے
اس کی راہ ورسم ہوگئی ۔ دلی لگاؤ کے باوجود کنول اس سے ملنا پسند نہیں کرتی
تھی ۔ وجہ صرف معاشرہ کا خوف تھا یااس کا احترام ۔ اس رسم وراہ کے باوجود
اس کے والدین نے دوسرے فرد سے اس کی شادی کردی ۔ مگر سوئے قسمت چند دنوں
میں ہی اس کے شوہر نامدار کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی ۔ اب کنول بیوگی کی زندگی
گزاررہی ہے ۔ پہلے جس سے رسم وراہ ہوئی تھی اس کا بھی خیال کنول کے رگ وپے
میں پیوست ہے ، ہرلمحہ اسی کی یاد سے سرشار رہتی ہے ، ادھر وہ بھی بیقرار
ہے ، یعنی پہلی محبت صدقے جانے پر تیار ! مگر کنول ہے کہ اس کسمپرسی کے
عالم میں بھی ملنے ملانے کو تیار نہیں ۔ کیوں ؟ معاشرہ کے لحاظ میں ۔ مگر
چند دنوں بعد کنول کا ایک مکتوب عاشق زار کے پاس آتاہے کہ جتنی جلدی ممکن
ہوسکے مجھے لینے آجاؤ۔ کیوں ؟ معاشرہ کے افراد کی نیت مجھ پر خراب ہورہی ہے
۔ ہرطرف سے بدنظری کی شکار ہوں ، یہانتک کہ دیور مہراج بھی ؟۔ جی آپ بھی
سمجھ گئے ہوں کہ معاشرہ کے اتارچڑھاؤ کا کیا اثرہوتاہے ۔ معاشرہ کے احترام
میں جو عزت مآب خاتون غلط سمت نہیں جانا چاہتی ہے وہ معاشرہ کے ظالمانہ
کردار سے عاجز آکر بادل نخواستہ وہ کچھ کرگزرتی ہے ، جس کا کبھی سان گما ن
بھی نہیں ہوتاہے ۔ یہ ہے معاشرہ کا کردار ۔ سوچئے! کہیں ہمارامعاشرہ عورتوں
کوبے راہ روی کا شکار تونہیں کررہاہے ؟۔ |