“ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے “

تعارفی باتیں
1. یہ پوری سورت مکی ہے۔
2. اس میں سات آیات اور ایک رکوع ہے۔
3. یہ سورت قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے۔
4. مکمل نازل ہونے والی سورتوں میں بھی سب سے پہلی سورت یہی ہے۔
5. اس میں سیدھے راستے کی جو دعا مانگی گئی ہے پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھا راستہ ہے کیا؟
(از آسان ترجمہ قرآن ، ۳۶/۱)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فضائل:
1. احادیث سے ثابت ہے کہ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے۔
(صحیح البخاری ، کتاب فضائل القراٰن، باب فضل فاتحۃ الکتاب، الرقم:۴۷۲۱)
2. ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، اچانک آپ نے اوپر سے کوئی تیز آواز سنی، آپ نے سر مبارک اٹھایا، جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: ”یہ آسمان پر ایک دروازہ کھلنے کی آواز ہے، جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا، اس میں سے ایک فرشتہ زمین پر اترا ہے جو آج سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا، اور وہ فرشتہ کہہ رہا ہے کہ میں ایسے دو نوروں کو خوشخبری لایا ہوں جو آپ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کیے گئے، ایک سورۂ فاتحہ اور دوسرا سورۂ بقرہ کی آخری آیات، آپ جب بھی ان کی تلاوت کریں گے آپ کو یہ چیزیں ضرور عطا کی جائیں گی (جو سورۂ فاتحہ میں ہے جیسے ہدایت اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات میں ہے جیسے مغفرت)۔
(صحیح مسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل الفاتحۃ وخواتیم سورۃ البقرۃ، الرقم:۱۹۱۳)
3. جب بندہ نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر آیت کا جواب دیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا ہے اور بندہ اس چیز کا مستحق ہے جو وہ مجھ سے مانگتا ہے، جب بندہ کہتا ہے:
”اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۱“
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ۔“
”میرے بندے نے میری تعریف کی۔“
اور جب بندہ کہتا ہے:
”الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِۙ۰۰۲“
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”اَثْنٰی عَلَىَّ عَبْدِیْ۔“
”میرے بندے نے میری ثنا بیان کی۔“
اور جب بندہ کہتا ہے:
”مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ۰۰۳“
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ۔“
میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔“
اور جب بندہ کہتا ہے:
”اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُؕ۰۰۴“
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”هٰذَا بَيْنِیْ وَبَيْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَاَلَ۔“
یہ بات میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندہ اس چیز کا مستحق ہے جو وہ مانگے۔“
اور جب بندہ کہتا ہے:
”اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ۰۰۵ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۝۶ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَؒ۰۰۷“
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”هٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَاَلَ ۔“
یہ میرے بندے کو ملے گا اور میرا بندہ اس چیز کا مستحق ہے جو وہ مجھ سے مانگے۔“
(صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ ، الرقم:۹۰۴)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مسائل:
1. سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جائے، پھر اللہ کی عبادت اور اپنی بے بسی کا اعتراف، پھر ہدایت اور دیگر ضروریات کی دعا مانگی جائے۔
(احکام القراٰن للجصاص، ۳۲/۱، دار الکتاب کوئٹہ)
2. اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت جائز نہیں ہے، عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نہ کسی کی محبت اللہ تعالیٰ کے برابر ہو، نہ کسی کا خوف اس کے برابر ہو ، نہ کسی سے امید اس کی طرح ہو، نہ کسی پر بھروسا اللہ کے مثل ہو، نہ کسی کی اطاعت و خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا اللہ تعالیٰ کی عبادت کو، نہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی کی نذر اور منت مانے، نہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلل کا اظہار کرے، نہ وہ افعال کسی دوسرے کے لیے کرے جو انتہائی تذلل کی علامات ہیں جیسے رکوع و سجدہ۔
(معارف القراٰن للشفیع ، ۸۷/۱، ادارۃ المعارف۱۴۲۱ھ)
3. اس سورت کے ختم پر لفظ آمین کہنا مسنون ہے ، یہ لفظ قرآن سے خارج ہے۔
(تفسیر عثمانی)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خلاصہ:
سورۂ فاتحہ میں تین باتیں یہ ہیں:
1. اللہ تعالیٰ کی چار صفات : (1)رب (2)رحمٰن (3)رحیم (4)مالک
2. عبادت کرنے اور مدد مانگنے کے لائق ذات صرف اللہ کی ہے۔
3. سیدھے راستے پر چلنے کی دعا اور غلط راستے سے بچنے کی دعا۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ۔
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ۔ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.