“انڈین بیگمات کی طاقت اور پاکستانی بیگمات؟ “

1975ء میں اندرا گاندھی کو بیٹے سنجے گاندھی نے مشورہ دیا کہ اماں حضور! اب ملک میں نئے انتخابات کروانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ہم ماں بیٹا ملکر ہندوستان پر بیس سے پچیس سال حکومت کر سکتے ہیں.. آئین اس کی اجازت دیتا ہے..اگر مغل سنڑل ایشیا سے اُٹھ کر چار سو سال ہندوستان پر حکومت کر سکتے ہیں تو ماں بیٹا کیوں نہیں؟

تاہم ایمرجنسی کے دو سال بعد اندرا گاندھی انتخابات کروانے پر راضی ہو گئیں.

خیر مارچ 1977ء میں الیکشن ہوئے اور تمام شمالی علاقوں اور ریاستوں میں کانگریس کو شکست ہوئی.. تمام غریبوں نے پیغام دیا کہ انھیں کانگریس سے زیادہ اپنی آزادی عزیز ھے.. وہ اپنے بنیادی حقوق غصب کرنے والی لیڈر سے اس سے بہتر بدلہ نہیں لے سکتے تھے.. جس کانگریس نے 1971ء میں 350 سیٹیں حاصل کی تھیں اسے صرف 150 نشستیں مل سکیں..جنتا پارٹی نے 298 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی.. الیکشن سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غریبوں کو اپنی آزادی پیاری ہوتی ہے اور وہ جمہوریت کے ذریعے اندرا سے بدلہ لے سکتے ہیں..

جب ساری دنیا انتخابی نتائج پر حیران ہو رہی تھی تو اندرا گاندھی کے اپنے حلقے رائے بریلی کا ڈپٹی کمشنر ونود ملہوترہ زندگی کے سب سے بڑے امتحان سے گزر رہا تھا.. وہ اس حلقے کا ریٹرنگ افسر تھا جب نتائج کی گنتی شروع ہوئی تو ملہوترہ کو احساس ہوا کہ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی برے طریقے سے ہاری ہیں..

اب مسلئہ یہ تھا کہ ایک ڈپٹی کمشنر اتنی جرات کیسے کرے کہ ملک کی وزیراعظم کے ہارنے کا اعلان کرے؟ ووٹوں کی گنتی کے وقت ریڈیو اور ٹی کی نشریات بند تھیں.. نتائج کا اعلان رات گئے ہوتا تھا..ڈپٹی کمشنر کو علم نہ تھا کہ ہندوستان کے دیگر حصوں سے انتخابی نتائج کیا آ رہے ہیں.. کانگریس جیت رہی ہے یا ہار رہی ہے..

اندرا گاندھی کا پولنگ ایجنٹ منانے کو تیار نہ تھا کہ وزیراعظم بھی ہار سکتی ہیں اس نے تین دفعہ ووٹوں کی گنتی کرائی مگر نتیجہ شکست ہی تھا.. ڈپٹی کمشنر کو بہت اوپر سے فون آنا شروع ہوئے کہ وہ اندرا گاندھی کی شکست کا اعلان ابھی نہ کرے..

جب ڈپٹی کمشنر کو علم ہو گیا کہ اندرا گاندھی ہار چکی ہیں تو اس کے سامنے دو راستے تھے وہ نتیجہ روک لے یا پھر فوراّ اعلان کر دے.. کافی سوچ بچار کے بعد جب بیوی کے پاس گیا جو گھر کے لان میں چارپائی پر اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کھیل رہی تھی.

اس نے بیوی کو بتایا کہ اگر اس نے اندرا گاندھی کے ہارنے کا اعلان کر دیا تو انھیں اندرا کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا... بہت ساری مشکلات کھڑی ہو جائیں گی.. وہ ضمنی انتخابات میں دوبارہ جیت جائے گی اور حکومت اسی کی ہی بنے گی.. ڈپٹی کمشنر کی بیوی اطمینان سے اپنے بیٹے کے ساتھ کھیلتی رہی.. اس نے سر اُٹھا کر خاوند کو دیکھا تک نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے.. کتنے بڑے امتحان سے گزر رہا ہے.. اس نے اندرا گاندھی جیسی لیڈر کے ہارنے کا اعلان کرنا ہے..

ڈپٹی کمشنر نے بیوی سے دوبارہ پوچھا کہ وہ کیا کرے تو اس کی بیوی نے شانِ بے نیازی سے کہا کہ" جاؤ وہی کرو جو جائز ہے، ہم برتن مانجھ لیں گے مگر بے ایمانی نہیں کریں گے.."

ڈپٹی کمشنر نے اعلان کر دیا کہ اندرا گاندھی ہار چکی ہیں.. ہندوستان کیا پور دنیا ششدر رہ گئی.. یہ جرآت بیوی نے ڈپٹی کمشنر کو دی تھی..
کتاب:: Beyond the lines
مصنف:: کلدیپ نائر

بحوالہ جونا گڑھ کا قاضی اور دکن کا مولوی صفحہ 184 و 185

کاش ہمارے ملک کی بیگمات بھی انڈین بیگمات کی طرح بہادر ہوجایں اور اپنے شوہروں کو بہادر بنایں تو پاکستان میں بھی کیا کچھ نہیں بدل سکتا؟
بس ہمت کریں .

Shahid Siddique Khanzada
About the Author: Shahid Siddique Khanzada Read More Articles by Shahid Siddique Khanzada: 187 Articles with 80769 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.