“ ماں تو ماں ہوتی ہے کیا میری اور کیا تیری؟”

شام کو شوہر کے گھر میں داخل ہوتے ہی
بیوی کا غصہ پھٹ پڑا:

سارا دن کہاں رہے؟ آفس میں پتہ كيا، وہاں بھی نہیں پہنچے!
آخر معاملہ کیا ہے؟

"وہ-وہ ... میں ..."

شوہر کی ہكلاہٹ پر بیوی پھر برسی،
بولتے کیوں نہیں؟ کچھ منہہ سے پھوٹو بھی کہاں چلے گئے تھے؟
اور
یہ گندا باکس اور کپڑوں کی پوٹلی کس لاوارث کی اٹھا لائے ہیں؟

وہ میں ماں کو لینے گاؤں چلا گیا تھا.
شوہر تھوڑی ہمت کر کے بولا

کیا کہا؟ آپ ماں کو یہاں لے آئے؟
شرم نہیں آئی آپ کو؟ میری اجازت کے بغیر

تمہاری بہن کے پاس انہیں کیا تکلیف تھی؟

بیوی چراغ پا تھی!

اس نے پاس کھڑی پٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بیمار اور شکستہ بیمار بوڑھی عورت کی طرف دیکھا تک نہیں.

انہیں میری بہن کے پاس نہیں چھوڑا جا سکتا تم سمجھ کیوں نہیں رہی.

شوہر نے دبی زبان سے کہا.

کیوں؟ یہاں قارون کا خزانہ رکھا ہے؟ آپ کے باپ دادا نے پیچھے جائیداد کا ٹکڑا تمھاری عیش و آرام کے لیے چھوڑا ہے۔
تمہاری 30 ہزار روپے کی تنخواہ میں بچوں کی پڑھائی اور گھر کا خرچ کس طرح چلا رہی ہوں، میں ہی جانتی ہوں!

بیوی کا لہجہ اتنا ہی شدید تھا

اب یہ ہمارے پاس ہی رہے گی شوہر نے سختی سے پیروی کی

میں کہتی ہوں،
انہیں اسی وقت واپس چھوڑ کر آؤ. ورنہ میں اس گھر میں ایک لمحہ بھی نہیں رہوں گی اور ان مہارانی صاحبہ کو بھی یہاں آتے ذرا سی بھی شرم نہیں آئی؟

یہ کہتے ہوئے بیوی نے بوڑھی عورت کی طرف دیکھا، تو پاؤں تلے زمین ہی سرک گئی!

جھپٹتے ہوئے بیوی بولی:
"امی آپ؟"

ہاں بیٹی! تمہارے بھائی اور بہن نے مجھے گھر سے نکال دیا.
داماد جی کو فون كيا تو یہ مجھے یہاں لے آئے.

بڑھیا نے کہا، تو بیوی نے چہکتی نظروں سے شوہر کی طرف دیکھا اور بولی.

ڈارلنگ
آپ بھی نا بڑے وہ ہیں! پہلے کیوں نہیں بتایا کہ میری امی کو لانے گئے تھے؟
آئی لو یو

____________________

کاش ہمیں یہ بات سمجھ آ سکے کہ ماں تو ماں ہوتی ہے!
کیا میری اور کیا تیری؟

.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.