اسلامو فوبیا کا دوسرا پہلو

تنازع کا کوئی فریق جب اپنے حریف کو کم زور ‘ احمق اور بے وقوف سمجھنا شروع کردے تو سمجھ لیں کہ اس کا زوال شروع ہوچکاہے۔یہ حربیات کا متفقہ ‘ مسلمہ اور مصدقہ قانون ہے۔ برصغیر میں تعینات برطانوی عہدے دار ‘ بدنامِ زمانہ لارڈ میکالے نے 1835ءمیں برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”تم غلط سوچ رہے ہو ۔ اگر میں تمام مدرسے بند کردیتا اور ملک میں رائج عربی رسم الخط کو منسوخ کردیتا تو میں فیل ہوجاتا ۔ میں جو کچھ کررہا ہوں اس کا نتیجہ آپ کو کئی سال بعد نظر آئے گا۔“ غور کیجئے ‘ یہ اپنے دور کی ایک ایسی سپر پاور اور نوآبادیاتی قوت کا نمائندہ ہے جس نے اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی اور چند ہزار تربیت یافتہ سپاہیوں کی مدد سے برصغیر کی تمام مزاحمتوں کو مات دی اور اس کے شرق وغرب میں اپنی فتح کا جھنڈا گاڑ دیا۔ برطانوی حکومت اگر چاہتی تو طاقت اور فتح کے زعم میں اپنی نو آبادیات کے اندر کیسے کیسے اقدامات کرسکتی تھی۔ مگر نہیں‘یہی تو ان کی طاقت ‘ قوت اور کامیابی کا اصل راز تھا۔ جنگیں صرف اسلحہ کی برتری اور فوجی نفری کے بل بوتے پر نہیں جیتی جاسکتیں۔ اس کے پسِ منظر میں اصل کارفرما قوت تدبر ‘ حکمت ‘ دانائی ‘ منصوبہ سازی اور صدقِ جذبہ کی ہوتی ہے ۔

آپ دیکھئے کہ برصغیر نے سو سال تک اِس خطہ پر شان دار حکومت کی اور جاتے جاتے اِ س خطہ میں اپنے پیچھے ‘ ایسے پائے دار آثارونقوش چھوڑ گیاکہ آج تک اِس خطہ کے لوگ اس کے دیے گئے نظامِ حکومت وسیاست ‘ نظامِ عدالت اور نظامِ تعلیم سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپائے۔ نیز اس کی رخصتی کے حقیقی اسباب اگرچہ کچھ اور تھے‘ مگر وہ جاتے جاتے اپنے سر پہ ایک ایسے محسن کی ”باعزت رخصتی“ کا تمغہ سجا کر روانہ ہواجس نے اِ س خطہ کے لوگوں کو جدید دو ر کی اخلاقیات اور اقدار سکھائیں‘ ان کی سرزمین پر نت نئی سہولیات کے جال بچھائے اور بالآخر انہی کے جمہوری مطالبہ پر یہاں کی سیاسی باگ دوڑ بھی ان کے حوالہ کرکے چلا گیا۔ دنیا کی نظروں میں یہ عزت او رسرخ روئی اسے کیوں کر حاصل ہوئی ؟ اس کا سبب لارڈ میکالے اور اس جیسے متحمل مزاج دانش وروں کا غیر جذباتی اندازِ فکر اور ان کی ترتیب دی گئی تدریج پسند پالیسیاں تھیں جن کی ایک جھلک آپ نے گذشتہ سطور میں ملاحظہ فرمائی۔ وہ درست کہہ رہا ہے کہ ” ایسا کرنے سے میں فیل ہوجاتا“ کیونکہ ایسے انقلابی اقدامات اٹھانے سے کسی قوم کو اپنی قومیت اور تہذیب سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنے سے ہندوستان کے ہر گھر سے بغاوت اور مزاحمت کا ایسا سیلاب امڈ سکتا تھاجس میں برطانوی تاج وتخت خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتا۔ دشمن کو کسی سمے اور کسی لمحہ کم زور ‘ ناتواں اورنادان نہیں سمجھنا چاہئے ‘ بلکہ ہر آن اس کی چال اور وار سے چوکنا رہناچاہئے۔ اس کی غفلت اور بے بسی کا تماشہ دیکھنے کے لیے ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز کرنا چاہئے جس سے اس کے ہڑبڑا کر بیدار ہوجانے کا خدشہ ہو ‘ ورنہ بڑے بڑے سورما دوسروں کا تماشہ دیکھتے دیکھتے خودہی تماشہ گاہِ عبرت کا حصہ بن گئے۔

اگرچہ مغرب کی حاکمیت وبالا دستی اور مسلمانوں کی مظلومیت کے دن ابھی پورے نہیں ہوئے‘ مگر اہل ِ اسلام کو نوید ہو کہ اب یہ وقتِ سعید قریب آلگا ہے۔ لارڈ میکالے کی اولاد رفتہ رفتہ اپنے آباءکے طے شدہ راستہ سے انحراف کررہی ہے۔ دہائیوں سے حاصل قوت ‘ طاقت ‘ نخوت او رتکبر کا نشہ ان کے دماغ پر چڑھ رہا ہے۔ تدبر ‘ حکمت اور دانائی کی جگہ دھیرے دھیرے خود کو برتر اور خالفین کو کم تر ‘ نادان اور احمق سمجھنے کی پالیسی لے رہی ہے۔ محض اپنے مخالفین کی بے بسی کا تماشا دیکھنے کے لیے ان کی بے ضرر مذہبی روایات پر خنجر زنی کی جارہی ہے۔ کبھی حجاب کا تمسخر ‘ کبھی قرآن کا استہزاء‘ کبھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجوگوئی‘ یہ داستان ابھی طویل ہوگی اور اس سلسلہ کے دیگر کئی دل خراش واقعات کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہئے۔کیا ایسی حرکتیں کرنے سے مسلمان ہار مان جائیں گے؟ اگر مغرب کے نادانوں میں حقیقت کا سامنا کرنے کی ہمت ہوتو انہیں جاننا چاہئے کہ ان کے ایسے ہر فیصلہ کے بعدمسلمان اپنے دین سے اور قریب ہوجاتے ہیں‘حجاب مخالف مغربی مہم کے بعداب تک کتنی ہی بے پرد خواتین نے حجاب لینا شروع کردیا ہے ‘ شرطیہ کہا جاسکتا ہے کہ عراق وافغانستان پر امریکی یلغار کے بعد وہاں کے لوگوں میں مذہبی شعور اور جذبہ کا اضافہ ہوا ہے۔قرآن ِ پاک اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ان کے بڑھتے ہوئے لگاؤ میں کفریہ طاقتوں کی مخاصمت کا جذبہ پوری طرح کارفرماہے۔

کسی قوم کو بدراہ کرنے اور اپنے لگے بندھے راستہ سے ہٹانے کے لیے ترغیبات درکار ہوتی ہیں ‘ جبری ہتھکنڈوں سے یہ مقصد کبھی بھی پورانہیں ہوسکتا‘ اس سے ردعمل کی فضا ءجنم لیتی ہے جو اصل مقصد کے لیے الٹا نقصان دہ ہوتی ہے ۔ مسلمان معاشرے گواہ ہیں کہ ان میں اب تک آنے والی گم راہی ‘ بدکرداری اور بے ضمیری کا سبب شیطانی ترغیبات ہیں۔بے شمار نوجوان اِن میں ایسے ملیں گے جو کیبل اور انٹرنیٹ کی فحش اور بے ہودہ ترغیبات سے متاثر ہوکر راہِ راست سے بھٹک گئے ہوں گے جبکہ امریکی سفارت خانہ میں ہم جنس پر ستوں کو دیے گئے اعزازیہ سے متاثر ہوکر کسی ایک بھی فرد ِ مسلم نے گناہ کاراستہ اختیار نہیں کیا ہوگا‘ بلکہ اس کے برعکس اس کی وجہ سے مسلم معاشرہ میں جو رد عمل کی فضا پید ا ہوئی‘ اس نے ان کے اجتماعی شعور اور آگہی میں اضافہ کیا اور کفریہ طاقتوں کے چنگل سے نکلنے کے لیے کوششیں تیز کرنے کے احساس کو او رزیادہ متحرک اور فعال بنا دیا۔جبری ہتھکنڈوں کے اس نقصان دہ پہلو سے کوئی باشعور انسان آنکھیں نہیں چرا سکتا۔ ۔ مغرب کے پرانے باوے اِ س حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھے اس لیے انہوں نے بڑے ٹھاٹھ سے دنیا پر حکم رانی کی اور پر فریب اصطلاحات کی آڑمیں ساری دنیا کو اپنے جال میں پھنسا لیا‘ مگر ان کی آل واولاد اِس حقیقت کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ چونکہ ان کی موت ان کا پیچھا کررہی ہے ‘ اس لیے وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے انسانی سمندر پر مشتمل اپنے دشمن کی سستی اور کاہلی کو ابدی بے بسی پر محمول کرکے ان کے مقدسات کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں ۔ اپنے حریف کو بے بس ‘ ناتواں اور نادان سمجھنے ‘ ان کی عقل وخرد کو ناکارہ یقین کرنے اور ان کی منصوبہ سازیوں سے مطمئن ہورہنے کا نتیجہ انشاءاللہ انہیں بہت مہنگا پڑے گا۔کفریہ لابیوں کی ذہانت وفطانت ‘ ہوش مندی ‘ معقولیت اور دقیق وعمیق منصوبہ بندیوں سے مرعوب دوستوں کو مغرب کی حماقتوں کے اس پرَت پر بھی ایک نظر ضرور ڈال لینی چاہئے تاکہ طاغوتی قوتوں کی دشمنی میں جلنے کڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف کوئی پر اعتماد قدم اٹھانے کا حوصلہ بھی انہیں مل سکے۔
Muhammad Abdullah Shariq
About the Author: Muhammad Abdullah Shariq Read More Articles by Muhammad Abdullah Shariq: 42 Articles with 43690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.