ڈینگی وائرس سے بچاﺅ ممکن ہے

بنی نوع انسان نے ہر دور میں مختلف طوفانوں اور وبائی امراض کا سامنا کیا ہے۔ کبھی طاعون تو کبھی ہیضہ تو کبھی کسی اور مرض نے وبائی صورت اختیار کی اورلاتعداد افراد ان وبائی امراض کا شکار ہو کر لقمہءاجل بن گئے۔ انتھک محنت اور جدوجہد اور عزم نے ہی انسان کو ان طوفانوں اور وبائی امراض سے نجات دلائی ہے۔ جدید سائنس کی ترقی کے باوجود اب بھی دنیا کو نئے نئے امراض کا سامنا ہے جن میں ایڈز، ہیپا ٹائٹس بی، ، ہیپاٹائیٹس سی سوائین فلووغیرہ جیسے امراض شامل ہیں ۔در اصل یہ امراض جو اب نئے نام کے ساتھ ہمارے سامنے آرہے ہیں کوئی نئے امراض نہیں ہیں بلکہ بہت پرانے امراض ہیں لیکن میڈیکل سائنس کی ترقی اور طبی ماہرین کی انتھک کوششوں سے یہ امراض شناخت ہوگئے اور ان کی تباہ کاریاں سامنے آگئیں جن میں سے بیشتر امراض سے بچاﺅ کے علاج اور طریقے بھی دریافت ہوگئے ہیں۔ لیکن اب بھی بہت سے امراض ایسے ہیں جن کا مکمل اور کامیاب علا ج ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا ہے اور ماہرین ابھی تک ان امراض کے کامیاب علاج اور خاتمے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔

ڈینگی فیور بھی ایک ایسا ہی مرض ہے جو تقریبا 200 سو سال قبل دنیا میں نمودار ہوا تھا اور اب ایک بڑے خطرے کی شکل میں ہمارے سروں پر آ پہنچا ہے۔ یہ ایک ایسا متعدی بخار ہے جو ایڈیزایجپٹی (Aedes Aegypti)نامی مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا جسکے نتیجے میں اس بخار کا وائرس جو فلیوی وائرس (Flavi virus)کہلاتا ہے انسانی جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔اس مچھر کے جسم پر زیبرے کی طرح کی سفید اور کالی دھاریاں ہوتی ہیں یہ مچھر عام مچھر کے مقابلے میں زیادہ لمبا ہوتا ہے ، اسکی خصوصیت ہے کہ یہ دن میں کاٹتا ہے۔ اس مچھر کے کاٹنے کے دو سے سات دن کے اندرمتاثرہ فرد کو یہ بخار گھیر لیتا ہے اور بخار کے ساتھ ساتھ نزلہ زکام بھی ہوجاتا ہے اگر باقاعدہ علاج نہ کرایا جائے تو ڈینگی فیور ہیمرجک فیور(Dengu Hemorrhagic Fever)(جس میں بخار کے ساتھ ساتھ جسم سے خون بھی بہتا ہے) میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ جس سے جوڑوں کا درد،متلی یا قے کا ہونا ، جسم پرگلابی دھبے، ناک ، کان اور جسم کے مختلف اعضاء سے خون جاری ہوجاتا ہے۔پیٹ میں مسلسل درد رہتا ہے۔ بلڈ پریشر کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مریض پر غنودگی طاری ہوجاتی ہے۔ ڈینگی وائرس کی خون میں موجودگی کی وجہ سے خلیات (Platelets)میں بہت تیزی سے کمی واقع ہونے لگتی ہے یہ خلئے جسم کو قوت مدافعت فراہم کرتے ہیں ،خون میں ان خلیات کی تیزی سے کمی مریض کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔عام لوگوں کے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ڈینگی بخار خطرناک نہیں اور یہ بخار انسان سے انسان کو نہیں لگتا۔ لیکن بد احتیاطی اور علاج نہ کرانے کی صورت میں یہ بخار خطرناک صورت اختیار کرلیتا ہے اور بالآخر مریض جان بحق ہوجاتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریبا تقریبا پانچ کروڑ افراد ڈینگی فیور کا شکار ہوتے ہیں اور سالانہ بیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں ڈینگی فیور پہلی بار جنوب مشرقی پاکستان میں 1985ءمیںسامنے آیا تھا ۔ جبکہ کراچی میں 1994ءمیں ڈینگی فیور سے 5ٓافراد جان بحق ہوگئے تھے اور 1995ءمیں صوبہ بلوچستان میں 75 افراد جو ایک فیکٹری میں ملازم تھے اس وائرس کا نشانہ بنے ۔2010میں کراچی کے مختلف علاقوں میںتقریبا 696افراد لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد اس وائرس کا شکارپائے گئے جن میں سے تقریبا 30افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔2011ءمیں بھی ڈینگی فیور نے صوبہ پنجاب میں تباہی مچائی اور صحت و صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے یہ مرض بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوا بہت سے زندگیا ں ضائع ہوگئیں۔حکومت پنچاب کی طرف سے اس سے بچاﺅ کے لئے کافی اقدامات کئے گئے ہیں جس سے اس مرض کے خلاف بہتری آئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صوبہ پنجاب کے بعدپاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی ڈینگی فیور کی وبا پھیل سکتی ہے۔

لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ مچھروں سے بچا جائے۔ مچھربھگانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور مناسب لباس پہنا جائے۔ یہ مچھر کیونکہ دن میں کاٹتے ہیں اس لئے غروب آفتاب تک مچھروں کی زد میں آنے سے بچا جائے۔ گھروں کے اندر مچھر مار دواﺅں کا چھڑکاﺅ کیا جائے ۔ کیاریوں اور گملوں میں پانی نہ جمع ہونے دیں۔ کھڑکیوں اور دروازوں جالیاں (Net)لگوائیں تاکہ مچھروں سے محفوظ رہا جاسکے۔ پالتو پرندوں اور جانوروں کے پنجروں میں پانی کے برتن روزانہ صاف کئے جائیں۔ چھت پر بنی ہوئی پانی کی ٹنکیوں کو کھلا نہ چھوڑا جائے بلکہ ان کو اچھی طرح ڈھک دیا جائے ۔ بخار کی علامات ظاہر ہوتے ہیں ڈاکٹر سے فوراََ رجوع کریں۔

ماہرین کے مطابق ان مچھروں کی افزائش اوور ہیڈ ٹینکوں میں صاف پانی میں زیادہ آسانی سے ہوتی ہے۔ اور یہ مچھر اوور ہیڈ ٹینکوں میں صاف پانی کے نکاسی کے ذریعے داخل ہوجاتے ہیں۔موجودہ صورتحال میں حکومت کو انتہائی سرعت سے کام کرنے کی ضرورت ہے صحت اور صفائی کے اقدامات حکومت کا بنیادی فرض ہے تاکہ شہری بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں ۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ تمام صوبوں کی انتظامیہ کو پابند کرے کہ ہنگامی بنیادوں پر ڈینگی وائرس کے خلاف انتظامات کریں اور اس پر تیزی سے عمل بھی کیا جائے۔

شہد ڈینگی فیورکے لئے ایک بہترین علاج ہے۔ ایک چمچہ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ اور دوپہر و رات کو کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہیئے۔ پپیتے کے پتوں کا عرق بھی ڈینگی فیورکا بہترین علاج ہے ۔ اس بخار میں مبتلا مریضوں کو دن میں ایک یا دو مرتبہ پپیتے کے تازہ پتوں کا رس کھانے کے ایک چمچہ کی مقدار میں پلانے سے خون میں موجودخلیوں (Platelets)کا تیزی سے گھٹنے کا سلسلہ رک جاتا ہے اوربخار کی شدت بھی کم ہوجاتی ہے۔ اور مریض تین سے چار دن میں صحت یاب ہو جاتا ہے۔ مریضو ں کو یہ رس پپیتے کے پتے سے ڈنٹھل نکالنے کے بعد کچل کر چھانے کے بعد گرم کئے بغیر یا پانی ملائے بغیر پلا یا جائے۔ یہ بہت کڑو ا ہوتا ہے لیکن اس سے مریض صحت یاب ہوجاتاہے۔

احتیاط علاج سے بہتر ہے ۔ لہٰذا مچھروں سے بچاﺅ کی ادویات کے استعمال اوراحتیاطی تدابیر اختیار کرکے ڈینگی فیور سے بچاﺅ ممکن ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 307694 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.