والی مدائن حضرت سلمان فارسی

اگر دین ثریا پر بھی ہوتاتو اہل فارس میں سے ایک شخص اسے وہاں سے بھی اتارلاتا،
رسول اﷲﷺ نے یہ حضرت سلمان فارسیؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا
(فرمان نبویؐ)

اسلام کی تاریخ میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ کو بے حد بلند درجہ اور مقام حاصل ہے ۔ آپؓ کی زندگی جدوجہد اور جستجو کے سفر پر مشتمل ہے، اسی وجہ سے آپ کو اصحاب رسولؐ میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔حضرت سلمان فارسیؓ کی زندگی کا آغاز ایک مجوسی گھرانے سے ہواجو آگ کی پوجا کرتے تھے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ کا پہلا نام ’’مابہ ‘‘تھا اور والد کا نام ’’بوذخشان بن مورسلان‘‘ تھا،جو اصفہان کی ایک مشہور بستی ’’حبی‘‘کا سردار اور جاگیر دار تھا۔یہ اپنے بیٹے کے ساتھ بہت لاڈ پیار سے پیش آیا کرتا تھا۔گھر میں اس کی پرورش اس انداز سے ہوئی جیسے لڑکیوں کی ہوتی ہے۔اس بستی کے بیشتر باشندے آتش پرست تھے،آتش کدے کو جلائے رکھنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔سلمان فارسیؓ کے والد کی دلی خواہش تھی کہ اس کا بیٹاایران کا مذہبی پیشوابنے اس لیے آتش کدے کو مسلسل جلائے رکھنے کی ذمہ داری بیٹے کو سونپ رکھی تھی۔باپ بہت بڑاجاگیر دار تھا اور زرعی فارموں کی دیکھ بھال خود کیا کرتا تھا۔ایک روز گھریلو مصروفیت کی وجہ سے کھیتی باڑی کی نگرانی کے لیے اپنے بیٹے کو بھیجا۔اس ہونہار،بیدار مغز اور زیرک بیٹے کے ساتھ ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا،حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں، جب میں گھرسے نکلا تو میرا گذرایک کنیسہ کے پاس سے ہواجہاں عیسائی پوجا میں مصروف تھے،میں اندر چلا گیا مجھے انکا طرز عبادت بہت پسند آیااور میرا دل ان کے دین کی طرف راغب ہو گیا۔ میرے دل میں خیال آیا بخدا یہ طرز عبادت تو اس سے ہزار درجے بہتر ہے جو ہم کرتے مجھے وہاں دلی سکون محسوس ہوا،دن بھر میں وہیں رہااور زرعی فارم میں جانے کا خیال نہیں آیا میں نے اہل کنیسہ سے پوچھاتمہارے اس دین کا مرکز کہاں ہے؟انہوں نے مجھے بتایا ’شام‘میں۔

رات کو گھر واپس لوٹااور ابا جان کو بتایاکہ آج میرا گذر عیسائیوں کے عبادت خانے سے ہوا مجھے انکی عبادت کا انداز پسند آیا اور شام تک وہیں بیٹھا رہا۔میرا باپ یہ باتیں سن کر بہت پریشان ہوااسے اندیشہ ہوا کہ کہیں اپنے آبائی دین سے منحرف نہ ہو جاؤں،اس نے مجھے گھر میں قید کر دیا۔

ایک دن موقع پاتے ہی گرجے میں پیغام بھیجا کہ جب کوئی ملک شام کی طرف جانے والا قافلہ آپ کے پاس آئے تو مجھے اطلاع کر دینا،تھوڑے ہی دنوں کے بعد ایک قافلہ شام جانے کے لیے وہاں آپہنچا۔ اہل کنیسہ نے مجھے اطلاع کردی۔میں نے پاؤں کی زنجیر کو ایک جھٹکے سے توڑ دیا ،گھر سے نکلا اور اس قافلے کے ساتھ ہو لیا، وہاں میں نے دریافت کیا کہ اس ملک کی سب سے اعلیٰ مذہبی شخصیت کون ہے؟ پتا چلا کہ چرچ کا نگران اعلیٰ پوپ۔ میں اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے عیسائیت میں دلچسپی ہے،میری دلی تمنا ہے کہ آپ کے پاس رہوں عیسائی مذہب کی تعلیم حاصل کروں اور آپ کی رہنمائی میں عبادت کروں۔اس نے اجازت دے دی،میں نے جی بھر کے اس کی خدمت کی مگر تھوڑے ہی عرصے میں مجھے معلوم ہو گیا اس مذہبی پیشوا کا کرداردرست نہیں۔لوگ اپنا مال و متاع لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوتے تاکہ صدقہ و خیرات کیا جائے تو یہ سارا مال خود ہڑپ کر جاتااس طرح اس نے سات مٹکے سونے اور چاندی کے بھر لیے مجھے وہ شخص بہت برا لگالیکن کچھ ہی دن بعداس کو موت نے دبوچ لیا۔عیسائی پیروکاراسے عزت و اکرام کے ساتھ دفنانے لگے تو میں نے کہا: تمہرا پیشوا کوئی اچھا آدمی نہیں تھا اور اگر میری باتوں پہ یقین نہیں آتا تو آؤ میں تمہیں اس کا خفیہ خزانہ دکھاتا۔جب انہوں نے سونے اور چاندی کے بھرے ہوئے مٹکے دیکھے تو حیران رہ گئے اور ان کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کو دفن کرنے کی بجائے ذلت کا نشانہ بناتے ہوئے سنگسار کر دیا۔

چند دن گزرنے کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے شخص کو اپنا مذ ہبی رہنما منتخب کر لیامیں نے ان سے تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی اور خدمت کو اپنی سعادت سمجھنے لگا۔وہ بڑا ہی عابد،زاہد اور خوف خدا رکھنے والا شخص تھا اس لیے مجھے اس سے عقیدت ہو گئی۔جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تومیں رونے لگا کہ اب میں کہاں جاؤں گا؟ اس نے کہا:بیٹا موصل میں فلاں شخص کے پاس چلے جانا۔ اس طرح میں موصل آگیا۔پھر یکے بعد دیگرے ایک استاد کی موت کے بعد دوسرے کے پاس موصل سے نصیبن نامی بستی اور پھر عموریہ بستی نصیحت کے مطابق پہنچ گیا۔یہاں پر مجھے تعلیم کے ساتھ کاروبار کے مواقع بھی میسر آئے، تجارت میں برکت ہوئی اور میرے پاس مویشیوں کی بہتات ہو گئی۔لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اس استاد کو بھی زیادہ مہلت نہ مل سکی اور وہ بستر مرگ پہ پہنچا تو میں نے حسب سابق عرض کی:میں کہاں جاؤں؟ آپ جانتے ہیں میں کس تلاش میں گھر سے نکلا ہوں؟کیوں میں نے پھولوں کی سیج چھوڑ کر خاردار وادی میں قدم رکھا ہے؟ اس نے میری معصومانہ حالت دیکھ کر بڑے واضح انداز میں کہا:

اب روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں جسے مذہبی علم پر عبور حاصل ہو۔سر زمین عرب پر ایک نبی معبوث ہونے والا ہے جو دینِ ابراہیمی لے کر آئے گا،اپنے آبائی وطن سے ایک ایسے علاقے میں ہجرت کرے گا، جہاں سیاہ خشک پتھروں کے درمیان کھجوروں کے باغات ہونگے، اس کی واضح نشانی یہ ہو گی وہ صدقہ قطعاََنہیں کھائے گا البتہ ہدیہ قبول کر کے کھا لے گا۔اس کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔اگر وہاں جانے کی استطاعت رکھتے ہو تو اس کے پاس جاؤ۔

اس مذہبی رہنما کی وفات کے بعد میں عموریہ بستی میں ہی رہا۔کچھ عرصے بعدقبیلہ بنوکالب کے تاجر یہاں سے گذرے میں نے ان سے کہا:اگرتم مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو تو میں اپنی ملکیت تمام مویشی آپ کو دے دونگا۔انہوں نے کہا منظور ہے میں نے سارا مال ان کے حوالے کردیا اور ان کا ساتھ ہو لیا،جب ہم وادی القریٰ پہنچے تو انہوں نے مجھے دھوکے سے ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیامجھے مجبوراََاس کی غلامی میں رہنا پڑاکچھ عرصہ بعدقبیلہ بنوقریظہ میں سے اسکا چچا زاد بھائی ملنے کے لیے اس نے مجھے خرید لیا اور اپنے ساتھ یثرب لے گیا۔

وہاں میں نے کھجوروں کے دو باغ دیکھے جو عموریہ کے پادر ی نے مجھے بتائے تھے میں نے سوچا یہی میری آخری منزل ہے۔دن بھر کام کے بعد دو وقت تھوڑا سا کھانا مل جاتااس پر میں اﷲکا شکر بجا لاتا۔ ان دنوں رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہو چکا تھا۔آپﷺ مکہ معظمہ میں اپنی قوم کو دین اسلام کی دعوت دینے میں مصروف تھے لیکن غلامی کی وجہ سے میں آپؐ کے متعلق زیادہ معلومات نہ حاصل کر سکا۔

پھر رسول اکرمﷺ ہجرت کر کے یثرب پہنچ گئے۔ایک دن میں کھجور کے درخت سے پھل اتار رہا تھا اور میرا آقا درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا اس کا چچا زاد بھائی دوڑتا ہوا آیا اور بتایا: بنو قیلہ برباد ہو جائیں گے، وہ آج وادی قبا میں اس شخص کا استقبال کر رہے ہیں جو مکہ سے ہجرت کر کے آرہا ہے، اس کادعویٰ ہے کہ میں نبی ہوں۔ میں نے در خت کی چوٹی پر اس کی بات سنی اور کپکپی طاری ہو گئی،میں جلدی سے نیچے اترا اور فرطِ جذبات سے آنے والے شخص سے کہا اﷲ کے لیے مجھے دوبارہ بات بتائیں۔میری حالت دیکھ کر میرے آقا کو غصہ آگیا اور مجھ پر گھونسوں کی بوچھاڑ کر دی کہ تجھے اس معاملے سے کیا دلچسپی۔۔۔۔

شام کے وقت کام سے فارغ ہو کر میں نے کھجوروں کا ایک تھیلہ بغل میں لیا اور تلاش کرتے ہوئے وہاں جا پہنچا جہاں رسول اﷲﷺ تشریف فرما تھے اور آپؐ کی زیارت کی۔ میں نے عرض کیا پتہ چلا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی لمبا سفر طے کر کے آئے ہیں ،میرے پاس صدقہ کی کھجوریں آپ کی خدمت میں پیش کرنے لے لیے حاضر ہوا ہوں۔آپؐ نے وہ کھجوریں لے لیں اور ساتھیوں کو کھانے لے لیے دیں جبکہ اپنا ہاتھ روکے رکھا ۔میں نے سوچا ،ایک نشانی پوری ہوئی پھر میں واپس آگیا۔

اگلے روز کچھ کھجوریں لیں اور آپﷺ کے پاس حاضر ہوا،عرض کی کہ کل اندازہ ہوا کہ آپ صدقہ کی چیز نہیں کھاتے اس لیے کچھ عمدہ کھجوریں بطور تحفہ لایا ہوں۔ آپﷺ نے وہ لے لیں،خود بھی تناول فرمائیں اور اپنے صحابہؓ کو بھی کھلائیں۔میں نے سوچا دوسری نشانی پوری ہوئی۔

تیسری مرتبہ میں رسول اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپؐ جنت البقیع میں اپنے ایک صحابیؓ کی تدفین کے لیے وہاں شریف فرما تھے۔آپؐنے دو چادریں زیب تن کی ہوئی تھیں میں نے سلام عرض کیا میں آپؐ کے شانے پر مہر نبوت دیکھنے کی کوشش میں تھا جس کے بارے میں مجھے عموریہ کے پادری نے بتایا تھا۔رسول اﷲﷺ نے بھانپ لیا اور اپنی چادر کندھوں سے نیچے سرکا دی۔

میں نے مہر نبوت دیکھی اور پہچان گیا میں نے اسے چومنے کے لیے قدم بڑھایا اور زاروقطار رونا شروع کر دیا۔رسول اکمﷺ نے شفقت بھرے انداز میں تھپکی دی اور پاس بٹھا کر پوچھا کیا بات ہے؟

میں نے اپنی درد بھری داستان سنائی آپؐ نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ان ساتھیوں کو بھی یہ داستان سناؤ ان سب نے مجھے مبارکباد دی اور کہا خوش ہو جاؤ تم نے اپنی منزل کو پا لیا ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ نے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کی لیکن گلے میں غلامی کا طوق تھا جسکی وجہ سے دینی فرائض سرانجام دینے میں دقت ہوتی۔رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا معاوضہ ادا کرنے کی بنیاد پر اپنے آقا سے آزادی کی بات کرو۔وہ تین سو کھجور کے درختوں اور چالیس اوقیہ سونے کی وصولی پر آزادی دینے کے لیے تیار ہو گیا۔

رسول اﷲﷺ نے تمام مسلمانوں سے کہا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو سب نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کھجور کے درخت پیش کیے۔دیکھتے ہی دیکھتے تین سو کھجور کے درختوں کا بندوبست ہو گیا۔ رسول اﷲ ﷺ کو ایک غزوہ میں مرغی کے انڈے کے برابر سونا دستیاب ہوا۔آپؐ نے وہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کو دے دیا ،یہ وزن میں چالیس اوقیہ تھا جو انہوں نے اپنے آقا کو دے کر آزادی حاصل کر لی۔

آپؓ کی آزادی کے بعد پہلا غزوہ احزاب پیش آیا۔حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ نے مدینہ منورہ کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے خندق کھودنے کا مشورہ دیا جو دربارِرسالتؐ میں پسند کیا گیا۔ رسول اﷲﷺ نے کھدائی میں بذاتِ خود حصہ لیا۔دفاع کا یہ انداز تاریخ میں پہلی مرتبہ روشناس ہوا مد مقابل لشکر کا سپہ سالا ’ابو سفیان‘خندق دیکھ کردنگ رہ گیا دشمنوں کے وہم و گمان میں ہی نہیں تھا کہ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کے راستے میں خندق حائل کر دی گئی۔مسلسل بائیس دن کی کوشش کے بعد دشمنوں کو ناکام واپس لوٹ جانا پڑا۔

غزوہ خندق کے بعد حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ نے تمام غزوات میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کی۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲعنہ کے دور خلافت کیے آخری ایام میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے عراق میں سکونت اختیار کر لی اور ان کے دینی بھائی حضرت ابو درداء رضی اﷲعنہ نے شام میں بسیرا کر لیااور تجارت کے باعث مالی فراوانی ہو گئی انہوں نے حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ کو اپنی خوشحالی کے بارے میں عراق میں بذریعہ خط اطلاع دی تو سلمان فارسیؓ نے جواب میں یہ پیغام بھیجا کہ کسی کے پاس مال کا وافر مقدار میں جمع ہونا کامیابی کی علامت نہیں بلکہ کامیاب وہ ہے جس کے پاس زیادہ علم ہو اور وہ اس پر عمل پیرا بھی ہو۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲعنہ کے دور خلافت میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ نے ایران کی فتوحات میں بھرپور حصہ لیا۔چونکہ خود بھی ایرانی تھے اس لیے مقامی باشندوں کو انکی زبان میں اسلام کی اہمیت سے روشناس کرایااور پھر656 ء میں آپؓ کو مدائن کا گورنر نامزد کیا گیا۔اس دور میں مالی فراوانی میسر آئی مگر انہوں نے اپنا طرز معاشرت بدستور سادگی کو بنائے رکھا۔پوری زندگی انہوں نے عبا اور اونچاپائجامہ پہننے کو اپنا معمول بنائے رکھا۔اگر چاہتے تو ناز و نعم کا ماحول استوار کر سکتے تھے لیکن ان کے طرز عمل میں کوئی فرق نہ آیا جو کچھ ان کے ہاتھ آتا غرباء،فقراء اور ضرورتمندوں میں بانٹ دیتے۔

ایک دن کسی نے حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ کو آٹا گوندھتے دیکھاجبکہ وہ گورنر کے عہدے پر فائز تھے تو اس نے دریافت کیاکہ ملازم کہاں ہے؟آپؓ نے ارشاد فرمایا میں نے اسے کام کے لیے بھیجا ہے مجھے مناسب نہیں لگتا کہ اپنے غلام سے بیک وقت دو کام لوں۔آپؓ کو جو وظیفہ ملتا مستحقین میں تقسیم کر دیتے،صدقہ خیرات کی کوئی چیز ذاتی استعمال میں لانے سے پرہیز کرتے تھے ۔

حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲعنہ کے دور خلافت میں بیمار ہوئے طبیعت مسلسل ناساز رہنے لگی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲعنہ تیمارداری کے لیے تشریف لائے، انہیں اپنے سامنے دیکھتے ہی زار و قطار رونا شروع کر دیا۔حضرت سعدرضی اﷲعنہ نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا: آپ روتے کیوں ہیں؟ آپ تو بڑے خوش نصیب ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ پر خوش تھے۔حوضِ کوثر پر آپ ان کی زیارت کی سعادت حاصل کریں گے آخرت میں جنت الفردوس آپ کا مقام ہے۔یہ تسلی بخش باتیں سن کر حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ فرمانے لگے مجھے دنیا سے جانے کا ذرا برابر غم نہیں،یہاں تو آتا ہی انسان جانے کے لیے ہے،مجھے صرف اس بات کا اندیشہ ہے کہ ہمارے پاس دنیا کے مال و متاع اور ساز و سامان کا آخرت میں حساب مانگ لیا تو ہم کیا جواب دیں گے؟ ہمیں تو یہ دنیا ایک مسافر کی طرح بسر کرنا چاہیے تھی لیکن ہم یہاں دل لگا بیٹھے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲعنہ نے کہا: مجھے کوئی نصیحت کیجیے۔

آپؓ نے فرمایا: ’’ہر حالت میں اپنے اﷲ کو یاد رکھنا، یہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی کلید ہے۔‘‘

حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ نے تیمارداری کرنے والوں کو وصیّت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہ

’’تمہاری ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے کہ حج،عمرہ،جہاد یا قاآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے تمہاری اﷲ تبارک و تعالیٰ سے ملاقات ہو۔‘‘

جب زندگی کے آخری لمحات محسوس کیے تو اپنی بیوی کو کستوری کی تھیلی لانے کو کہا۔ وہ پانی میں ملا کر گردو نواح میں چھڑکا گئی جس سے فضا معطر ہو گئی۔عیادت کے لیے آنے والوں کا جمگھٹا دیکھا تو سبھی کو الوداعی سلام کہتے ہوئے اپنے پاس سے چلے جانے کا حکم دیا۔لوگ قدرے پیچھے ہٹے ہی تھے کہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔اس وقت آپؓ کی عمر88برس تھی۔انا للہ وانا الیہ راجعون!

آپ کی پیدائش اور وفات کے حوالے تاریخ میں مختلف ہیں اور مورء خین میں اختلاف رائے بہت ذیادہ ہے
568 عیسوی آپ کی تاریخ پیدائش ہے۔

مدائن کا گورنر،رسول اکرم ﷺ کا منظورِ نظر جلیل القدر صحابی جس کے دینی ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر دین ثریا پر بھی ہوتا،تو اہلِ فارس میں سے ایک شخص اسے وہاں سے بھی اتار لاتا۔‘‘ اور اس سے مراد حضرت سلمان فارسی رضی اﷲعنہ تھے۔

وہ بھر پوراور مثالی زندگی بسر کرتے ہوئے راضی بخوشی جنت الفردوس کے سفر پرروانہ ہوئے۔

اﷲان سے راضی اور وہ اپنے اﷲ سے۔
Ruqayya rafique
About the Author: Ruqayya rafique Read More Articles by Ruqayya rafique: 2 Articles with 3375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.