نیکی بدی کے حملوں سے بچاتی ہے

پرانے زمانے میں محمد بن حمیر نامی ایک شخص تھا ۔جو بڑا ہی عبادت گزار اور متقی تھا۔یہ اکثر دن کو روزے رکھتا ، رات کو نوافل پڑھتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے شکار کا بھی بڑا شوق تھا ۔ ایک دن شکار کے لئے جنگل کی طرف گیا اور شکار تلاش کرنے لگا کہ اچانک ایک سانپ اس کے سامنے آیا اور کہنے لگا۔ اے محمد بن حمیر مجھے پناہ دے دو، اللہ تعالیٰ تمہیں بھی پناہ دے۔ اس نے کہا کہ تم کس سے پناہ چاہتے ہو ، سانپ نے کہا ایک دشمن سے جس نے مجھ پر ظلم کیا ہے ، اس نے پوچھا تیرا دشمن کہاں ہے ؟ سانپ نے کہا کہ میرا دشمن میرے پیچھے ہے۔ ابن حمیر نے کہا تمہارا تعلق کس امت سے ہے ؟ سانپ نے کہا میں امت محمد ﷺ سے ہوں۔

محمد بن حمیر نے اپنی چادر پھیلائی اور اس سے کہا تم اس میں چھپ جاﺅ، سانپ نے کہا اس میں تو میرا دشمن مجھے دیکھ لے گا۔ اس کے بعد حمیر نے اپنی دوسری چادر کھول دی اور کہا کہ اس کے اند ر آجاﺅ اس پوستین اور میرے سینہ کے درمیان چھپ جاﺅ۔ تو سانپ نے کہا کہ میرا دشمن مجھے یہاں بھی دیکھ لے گا ۔ ابن حمیر نے کہا کہ آخر میں تمہیں کس جگہ چھپاﺅں۔سانپ نے کہا اگر تم نیکی کا کام کرنا چاہتے ہو تو اپنا منہ کھولو میں اس میں گھس جاﺅں گا۔ابن حمیر نے کہا مجھے ڈر ہے کہ تم مجھے قتل کردو گے۔ سانپ نے کہا اللہ کی قسم ! میں تجھے قتل نہیں کروں گا ۔ میں اللہ ، اور اس کے رسولوں ، فرشتوں اور آسمانوں پر رہنے والوں کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاﺅں گا اور دشمن کے جانے کے بعد فوراََ باہر آجاﺅں گا۔

چنانچہ ابن حمیر نے اپنا منہ کھول دیا اور سانپ اس کے میں داخل ہوگیا ۔ ابن حمیر آگے چل پڑا ، ابھی چند ہی قدم آگے چلا تھا کہ ایک شخص تلوار لئے دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ کیا تونے میرے دشمن کو دیکھا ہے۔ ابنی حمیر نے کہا تمہار ادشمن کون ہے؟ اس شخص نے کہا کہ وہ ایک سانپ ہے۔ ابن حمیر نے کہا کہ میں نے اس کو نہیں دیکھا اورپھر اپنی اس بات پر سو بار استغفار پڑھی اور اس شخص کو چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔کچھ آگے چلا تھا کہ سانپ نے اپنا منہ باہر نکالا اور کہا دیکھ کیا میرا دشمن چلا گیا۔ ابن حمیر نے ادھر اُدھردیکھا اور سانپ سے کہا کہ تمہارا دشمن چلا گیا اور اب تم باہر آجاﺅ۔

سانپ نے کہا اے ابن حمیر ! اب تم دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کر لو ، ابن حمیر نے کہا کہ وہ کیا۔ سانپ نے کہا میں دو جگہ ڈسنا پسند کرتا ہوں ، ایک جگر کو اور دوسرے دل کو لہٰذا اب تمہیں اختیار ہے کہ اگر تم کہو تو میں تمہارے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کردوں یا تمہارے دل میں سوراخ کردوں اور تمہاری جان نکال دوں۔ ابن حمیر نے کہا سبحان اللہ ! تمہارا وہ وعدہ کہاں گیا جو تم نے مجھ سے کیا تھا اور وہ قسم کہا ں گئی جو تم نے کھائی تھی، کیا تم اتنی جلدی اپنا وعدہ بھول گئے۔

سانپ نے کہا اے ابن حمیر! میںنے تم سے زیادہ بے وقوف آدمی نہیں دیکھا۔ کیا تم وہ دشمنی بھول گئے جو میرے اور تمہارے باپ آدم علیہ السلام کے درمیان سے چلی آرہی ہے۔ میں نے ہی اس کو جنت سے نکلوایا تھا ۔ تم نے کس بنا پر مجھ نااہل سے ہمدردی کی ہے؟ ابن حمیر نے کہا کیا تم مجھے قتل کرنے کا پکا ارادہ کرچکے ہو ۔ سانپ نے کہا ہاں میں نے تیرے قتل کا پختہ ارادہ کرلیا ہے تو ابن حمیر نے سانپ سے کہا کہ مجھے اتنی مہلت دے دو کہ میں اس پہاڑ تک پہنچ جاﺅں اور اپنے گرنے کی جگہ تجویز کرلوں ۔ سانپ نے کہا کہ تمہیں اجازت ہے۔ چنانچہ ابن حمیر اس پہاڑ کی طرف چل پڑا اور زندگی سے نا امید ہوکر اپنی نگا ہ آسمان کی طرف اٹھائی اور اللہ کے حضور یہ دعا کی ” اے لطیف ! اے لطیف! مجھے پر اپنے لطف کے ساتھ لطف فرما ۔ اے لطیف اپنی اس قدرت کے ساتھ جس کی طاقت سے تو عرش پر مستوی ہو ا ، اور عرش کو بھی علم نہ ہوا کہ اس پر تیرا مستقر کہاں ہے۔ بس مجھے اس سانپ سے نجات دیدے“۔ اور پہاڑ کی طرف چل پڑا۔

اچانک ابن حمیر نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک بے حد حسین و جمیل آدمی جو صاف لباس اور خوشبو سے معطر تھا آیا اور کہا السلام علیک ، ابن حمیر نے کہا وعلیکم السلام اے میرے بھائی۔ اس آدمی نے کہا کیا بات ہے تمہار ا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے اور تو پریشان دکھائی دے رہا ہے ، تو ابن حمیر نے کہا ایک دشمن نے مجھ پر ظلم کیا ہے ۔ اس آدمی نے کہا ترا دشمن کہا ں ہے ؟ ابن حمیر نے کہا وہ میرے پیٹ میں ہے ۔ اس آدمی نے کہا اپنا منہ کھولو ، ابن حمیر نے اپنا منہ کھولا تو اس نے اس میں سبز زیتون کی طرح کا ایک پتہ ڈالا اور کہا کہ اس کو چپا کر نگل لو ، تو ابن حمیر اس پتہ کو چبا کر نگل گیا۔

کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابن حمیر کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہوا اور وہ سانپ پیٹ میں گردش کرنے لگا ۔ اس کے بعد سانپ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اس نیچے سے نکل گیا۔ جیسے ہی اسے سانپ سے نجات ملی ابن حمیر اس شخص سے لپٹ گیا اور کہا کہ اے بھائی تم کون ہو؟ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان کیا اور اس موذی سے نجات عطا فرمائی۔ تو وہ شخص ہنس پڑا اور کہا تم مجھے نہیں جانتے؟ ابن حمیر نے کہا اللہ کی قسم نہیں۔تو اس شخص نے کہا ، اے ابن حمیر جب تمہارے اور سانپ کے درمیان گفتگو ہوچکی ۔ اور سانپ کی بد عہدی کو دیکھ کر تم نے پریشانی کا اظہار کیا اورآسمان کی طرف نگا ہ کرکے اللہ سے دعا مانگی تو ساتوں آسمانوں میں ہلچل مچ گئی ، اور ساتوں آسمانوں کے فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے میری عزت و جلال کی قسم میں دیکھ رہا ہوں جو اس سانپ نے میرے بندے کے ساتھ کیا ہے۔ میں اس کے خلاف اپنے بندے کی مدد ضرور کروں گا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ جنت میں جاﺅ اور شجر طوبیٰ کا ایک سبز پتہ لیکر اس کو میرے بندے محمد بن حمیر کے پاس لے جاﺅ۔ چنانچہ میں نے جنت سے شجر طوبیٰ کا ایک پتہ لیا اور لاکر تمہیں کھلا دیا ۔ مجھے معروف کہا جاتا ہے میں چوتھے آسمان کا فرشتہ ہوں۔ پھر اس فرشتے نے کہا اے ابن حمیر تم نیکی کو اختیار کرلو، کیونکہ نیکی بدی کے حملوں سے بچاتی ہے اگرچہ وہ اس آدمی کے ساتھ کی گئی ہو جو اس کی ناقدری کرکے اس کو ضائع کردے ، لیکن اللہ کے یہاں نیکی ضائع نہیں ہوتی۔ (ماخوذ: حیوة الحیوان ، جلد اول ، ص۱۷۶)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 307072 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.