الفاظ کی حد اور احساس کی حرمت

الفاظ کی حد اور احساس کی حرمت
تحریر: سیدہ ایف گیلانی
سینیئر نائب صدر، پاکستان آسٹریلیا لٹریری فورم (PALF) Inc.

جاوید اختر برصغیر کے اُن ممتاز ناموں میں شامل ہیں جنہیں ادب، فلم، شاعری، مکالمہ نگاری اور نغمہ سازی میں بلند مقام حاصل ہوا۔۔۔۔
اس کالم کا مقصد جاوید اختر کی شخصیت پر حملہ نہیں بلکہ ایک فکری استدعا ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ زبان اور قلم کی حرمت کو سمجھا جائے، اور جس قوم، مذہب یا تہذیب سے آپ کا وجود جڑا ہو۔۔۔

جاوید اختر برصغیر کے اُن ممتاز ناموں میں شامل ہیں جنہیں ادب، فلم، شاعری، مکالمہ نگاری اور نغمہ سازی میں بلند مقام حاصل ہوا۔ وہ اردو زبان کے ماہر، تہذیبی ورثے کے علمبردار، اور فکری حلقوں میں ایک بے باک آواز سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی شعری تخلیقات، خاص طور پر فلمی گیتوں کے ذریعے، لاکھوں دلوں کو چھو چکی ہیں۔ لیکن جہاں ان کے کلام میں نرمی، محبت، اور انسانیت کے جذبات جھلکتے ہیں، وہیں ان کے بعض خیالات اور بیانات ایک ایسی تلخی، تنگ نظری اور تنقید کا رنگ لیے ہوئے نظر آتے ہیں جو نا صرف ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے بھی باعثِ ندامت بنتے ہیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جاوید اختر اپنی فکری وابستگیوں، خاص طور پر سیکولرازم اور الحاد کی طرف میلان کے باعث، مذہبی معاملات میں اکثر شدتِ اظہار کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ان کے کئی ایسے بیانات منظرِ عام پر آئے ہیں جن میں اسلام، مذہبی شعائر، یا مسلم معاشرے کو طنز و استہزاء کا نشانہ بنایا گیا۔ مثال کے طور پر، انہوں نے بعض اوقات پردے، اذان، یا مدارس کے نظام پر ایسی زبان استعمال کی جو ایک فنکار کے وقار اور ایک دانشور کے توازن سے بعید تھی۔ اُن کی گفتگو میں استدلال کے بجائے تمسخر، اور دلیل کے بجائے تحقیر محسوس کی گئی — اور یہ رویہ ایک مشترکہ تہذیبی ورثے کے لیے نہایت تکلیف دہ ہے۔

ایک ایسا شخص جو خود ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا، جس کے والد جان نثار اختر اردو کے معروف ترقی پسند شاعر تھے، اور جس کی پرورش اردو تہذیب کی کوکھ میں ہوئی ہو، جب وہ خود اپنے ہی ثقافتی، مذہبی یا تہذیبی وجود کا انکار کرنے لگے، تو یہ صرف ایک فکری جدلیہ نہیں رہتا، بلکہ یہ اپنے وجود کی نفی کا اعلان بن جاتا ہے۔

جاوید اختر کے بیانات کا اثر صرف ہندوستانی مسلمانوں تک محدود نہیں رہتا۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں ایک بیان لمحوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔ جب کوئی بااثر شخصیت، جو بین الاقوامی سطح پر سنی جاتی ہو، مسلم تہذیب یا اسلامی شعائر کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرے، تو اس کا اثر پوری امت پر پڑتا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں مقیم مسلمان ان بیانات کو اپنے عقائد پر حملہ سمجھتے ہیں۔ ایسے میں جاوید اختر کے چند جملے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے باعثِ رنج و شرمندگی بن جاتے ہیں۔

یہاں ایک بنیادی سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزادیِ اظہار کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی عقیدے، مذہب یا قوم کے جذبات کو مجروح کیا جائے؟ دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں آزادیِ اظہار کو مکمل مادر پدر آزاد تصور نہیں کیا جاتا۔ مغرب میں بھی اگر کوئی ہولوکاسٹ یا نسل پرستی کے خلاف بولتا ہے، تو اسے قانون، سماج اور میڈیا کی گرفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ دنیا بھر میں ہنوز دوہرا معیار برتا جاتا ہے، اور بعض مسلم شناخت رکھنے والے افراد خود اس کا حصہ بن کر اپنی قوم کو زخمی کرتے ہیں۔

جاوید اختر کی حیثیت ایک تخلیق کار کی ہے، اور تخلیق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ دلوں کو جوڑے، فاصلے کم کرے، شعور کو جگائے، اور انسانوں کے بیچ پل بنے۔ اگر کوئی تخلیق کار خود ہی نفرت، استہزا، اور فکری تقسیم کا ذریعہ بن جائے، تو اس کی تخلیق کا تقدس مجروح ہو جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جاوید اختر جیسا باشعور اور زبان کا ماہر شخص، جسے اپنی بات کے اثرات کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے، وہ بھی اسی طرزِ تکلم اختیار کرتا ہے جو معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔

اس کالم کا مقصد جاوید اختر کی شخصیت پر حملہ نہیں بلکہ ایک فکری استدعا ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ زبان اور قلم کی حرمت کو سمجھا جائے، اور جس قوم، مذہب یا تہذیب سے آپ کا وجود جڑا ہو، اس کی عزت کا خیال رکھا جائے۔ تنقید ضرور کیجیے، سوالات ضرور اٹھائیے، لیکن انداز ایسا ہو کہ وہ اصلاح کا سبب بنے، تذلیل کا نہیں۔

ہندوستان کے بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی ماحول میں مسلمان پہلے ہی ایک حاشیے پر دھکیلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ان کی اپنی ہی قوم کے معروف افراد ان کے خلاف آواز بلند کریں، تو یہ ایک اندرونی زخم بن جاتا ہے جو بہت دیر تک رستا ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی فکری جنگ کو شائستگی، دلیل، اور تہذیب کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ جاوید اختر جیسے اہل قلم اگر واقعی معاشرے میں مثبت تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں اپنے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط اور احساس کو مقدم رکھنا ہوگا۔ ورنہ وہ اپنے ہی ورثے، اپنی ہی تہذیب، اور اپنے ہی لوگوں سے دور ہو جائیں گے — اور تاریخ ایسے کرداروں کو کبھی عزت سے یاد نہیں کرتی۔
 

Syeda F Gilani
About the Author: Syeda F Gilani Read More Articles by Syeda F Gilani: 40 Articles with 75393 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.