دوزخ اور دوزخیوں کے حالات

اللہ تعالٰی نے گنہگاروں، نافرمانوں اورسرکشوں مشرکوں کے عذاب و سزا کےلئے بھی ایک جگہ بنائی ہے جس کا نام جہنم یا دوزخ ہے۔ یہ ایک مکان ہے کہ اس قہارو جبار کے جلال و قہر کا منظر ہے۔ جس طرح اس کی رحمت و نعمت کی انتہا نہیں کہ انسانی خیالات و تصورات جہاں تک پہنچیں، وہ ایک شمہ ہے اس کی بے شمار نعمتوں سے۔ اسی طرح اس کے غضب و قہر کی کوئی حد نہیں کہ ہر وہ تکلیف و اذیت کہ ادراککی جائے، ایک ادنٰی حصہ ہے اس کے بے انتہا عذاب کا۔ چنانچہ جہنم میں تمام قسم کی اذیت وہ، طرح طرح کے ایسے ایسے عذاب مہیا کیے گئے ہیں، جن کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوتے اور حواس گم ہوتے ہیں۔
قرآن مجید و احادیث میں جو اس کی سختیاں مزکور ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں: جہنم کے شرارے (پھول) اونچے اونچے محلوں کے برابر اڑیں گے۔ گویا زرد اونٹوں کی قطار کہ پیہم آتے رہیں گے۔ آدمی اور پتھر اس کا ایندھن ہے یہ دنیا کی آگ ہے، اس آگ کے ستر جزوں میں سے ایک جز ہے اور یہ آگ بھی خدا تعالٰی سے دعا کرتی ہے کہ اسے جہنم میں پھر نہ لے جائے۔

جہنم میں جس کو سب سے کم درجہ کا عذاب ہوگا، اسے آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی، جس سے اس کا دماغ ایسا کھولے گا جیسے تانبے کی پتیلی کھولتی ہے، وہ سمجھے گا کہ سب سے ہلکا ہے۔ سب سے ہلکے درجے کا جس پر عذاب ہوگا اور اس سے اللہ عزوجل پوچھے گا " اگر ساری زمین تیری ہوجائے، تو کیا اس عذاب سے بچنے کےلئے تو سب فدیے میں دے دے گا؟" عرض کرے گا "ہاں!" فرمائے گا: جب تو پشت آدم میں تھا، تو ہم نے اس سے بہت ہلکی چیز کا حکم دیا تھا کہ کفر نہ کرنا، مگر تونے نہ مانا۔"

جہنم کی آگ ہزا برس تک دہکائی گئی ہے، یہاں تک کہ سرخ ہوگئی۔ پھر ہزار برس اور جلائی گئی یہاں تک کہ سفید ہوگئی۔ پھر ہزار برس اور ، یہاں تک کہ سیاہ ہوگی۔ اب وہ نری سیاہ ہے جس میں روشنی کا نام نہیں۔ دوزخ کی گہرائی کو خدا ہی جانے کہ کتنی گہری ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر پتھر کی چٹان جہنم کے کنارے سے اس میں پھینکی جائے تو ستر برس میں بھی تہہ تک نہ پہنچے گی۔ غرض کہ کافر اس میں جھونک دئیے جائیں گے۔

کفار کی سرزنش کےلئے طرح طرح کے عذاب ہوں گے۔ لوہے کے بھاری بھاری گرزوں سے ان پر مار پڑے گی، بڑے بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر بچھو اور اللہ جانے کس قدر بڑے بڑے سانپ ان پر مسلط کیے جائیں گے۔

خود جہنمیوں کی شکلیں ایسی کریہہ ہوں گی کہ اگر دنیا میں کوئی جہنمی اس صورت پر لایا جائے تو تمام لوگ اس کی بدصورتی اور بدبو سے مرجائیں۔ جسم ان کا اتنا بڑا کردیا جائے گا کہ ایک شانے سے دوسرے تک تیز سوار کےلئے تین دن کی راہ ہے۔

پھر آخر میں ان کافروں کےلئے یہ ہوگا کہ ان کے قد کے برابر آگ کے صندوق میں اسے بند کریں گے، پھر اس میں آگ بھڑکائیں گے اور آگ کا قفل لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی۔ اسی طرح یہ صندوق ایک اور صندوق میں رکھ دیا جائے گا اور آگ جلائی جائے گی۔ اسی طرح یہ صندوق ایک اور صندوق میں رکھ دیا جائے گا اور اغ جلا کر لوہے کا قفل اس میں لگا دیا جائے گا تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اب کوئی عذاب میں نہ رہا اور یہ عذاب بالائے عذاب ہے اور اب ہمیشہ کےلئے ہے، مولا کریم اپنی پناہ میں رکھے۔آمین

دوزخ ایک ایسا مقام ہے جسے اللہ تعالٰی نے سزایافتہ لوگوں کے لئے بنایا ہے یہ جگہ گناہگاروں نافرمانوں اور سرکشوں کو سزا دینے کے لئے ہے۔ مسلمانوں کی زبان پر یوں تو دوزخ کا ذکر آتا ہی رہتا ہے مگر اس سے بچنے اور محفوظ رہنے کے افعال و اعمال سے اس لئے غافل ہیں کہ اس کے دل ہلا دینے والے عذاب اور ان مصیبتوں سے بے خبر ہیں جو دوزخیوں پر گزریں گی اس لئے یہاں پر احوال جہنم کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے تا کہ ہم گناہوں سے بآسانی بچ سکیں۔

یاد رکھئے، عذاب دوزخ ایک حقیقت ہے اس کی اصلیت سے انکار کرنا اسلام کے منافی اور کفر میں شامل ہے۔

دوزخ کی گہرائی
حضرت ابو موسٰی اشعری تاجدار مدینہ سے ورایت کرتے ہیں کہ اگر ایک پتھر دوزخ میں ڈالا جائے تو دوزخ کی تہہ میں پہنچنے سے پہلے ستر سال تک گرتا چلا جائے گا۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ کی خدمت بابرکت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم نے کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو تاجدار مدینہ نے فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ آواز کیا ہے ؟ ہم نے عرض کی کہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول ہی خوب جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا، یہ ایک پتھر ہے جس کو خدا نے جہنم کے منہ پر تہہ میں گرنے کے لئے چھوڑا تھا اور وہ ستر سال تک گرتے گرتے اب دوزخ کی تہہ میں پہنچا ہے یہ اس پتھر کے گرنے کی آواز ہے۔ (مسلم شریف)

دوزخ کی دیواریں
تاجدار مدینہ نے ارشاد فرمایا کہ دوزخ کو چار دیواریں گھیرے ہوئے ہیں جن میں ہر دیوار کا عرض چالیس سال چلنے کی مسافت رکھتا ہے۔ (ترمذی شریف) یعنی دوزخ کی دیواریں اتنی موٹی ہیں کہ صرف ایک دیوار کی چوڑائی طے کرنے کے لئے چالیس سال خرچ ہوں۔

دوزخ کے دروازے
قرآن شریف میں سورہ حجر پ14 میں دوزخ کے متعلق فرمایا ہے اور ان سب سے جہنم کا وعدہ ہے جس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لئے ان لوگوں کے الگ الگ حصے ہیں۔

خود تاجدار رسالت کا فرمان عالیشان ہے کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں جن میں سے ایک اس کے لئے ہے جو میری امت پر تلوار اٹھائے۔
مشکوٰٰۃ شریف
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1283630 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.