آپ کہاں کھڑے ہیں۔؟

 ہم پاکستانی بحیثیت مجموعی مختلف ا لنوع معاشرتی بیماریوں میں مبتلہ ہیں۔لھذا انفرادی طور پر اس اجتماعی بیماری میں ہمارا حصہ بخوبی شامل ہے۔ اقرباءپروری ، جھوٹ ، دھوکہ دہی ،بد دیانتی اور رشوت یہ سب ان بیماریوں کی مختلف شکلیں ہیں جو مل کر ہم سب کو ایک بڑی بیماری میں مبتلہ کر رکھا ہے۔ ہمارے معاشرتی اقدار کے زوال کا اصل سبب بد دیا نت لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا نظام مملکت کے امور کی انجام دہی پر معمور ہونا ہے۔ سفارش،رشوت کی بھرمار ہے یعنی سرکاری نوکری حاصل کرنے کیلئے سفارش اور رشوت اس نظام کا جزءلا ینفک بن چکا ہے۔میرٹ کی تابوت کب کی دفنائی جا چکی ہے۔ ایک اچھا بھلاانسان بھی طوعا و کرھا اس بد دیانتی کا حصہ بننے پر مجبور ہے۔ سفارش وہ لعنت ہے جس سے کسی اہل فرد کا حق مارا جاتا ہے لھذا وہ شخص جو سفارش کرواتا ہے ہو بھی بد عنوان ہی شمار ہوگا۔ کسی بھی ادارے میں نوکریاں کھلنا اُس ادارے کے سربراہان کے لیے کمانے کا بہتریں موسم ہوتا ہے۔ یہاں نوکریوں کی نیلامی لگتی ہے لھذا اخبار میں نوکریوں کیلئے جو اشتہار لگتا ہے ہو جاب اپر چونیٹیس کے بجائے جابز فار سیل۔۔ پہلے آئیے اور پہلے پائیے ۔کے عنوان سے ہونا چاہئے۔چونکہ ایسانہیں ہوتا لھذا یہ اشتہار بھی بد عنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔رشوت کی بیماری بڑی خطرناک بیماری ہے جس کو لگ جائے اُس سے پھر جان نہیںچھڑا سکتا۔ یہ لاعلاج مرض ہے۔ بڑھتا جاتا ہے۔ ہم کسی بھی جگہ اپنا کام نکلوانے کے لیے رشوت دیتے ہیں پولیس سے وقتی طور پر جان چھڑانی ہو نوکری چاہیے ہو کسی کا حق مارنا ہو کسی کو پھنسوانا ہو یا پھر جعلی کاغذات بنوانی ہو لیکن ہم اُس انجام سے بے خبرہوتے ہیں جو آنے والے دنوں میں ہمارے معاشرے کے اندر ایک رواج کی صورت میں پیدا ہوجاتا ہے۔اور پھر یہی چیز کسی دن کسی اور شکل میں ہمیں نگل لیتے ہیں پھر ہم اس نظام کو لعن طعن کرتے ہیں جس کا در اصل خالق ہم ہی ہوتے ہیں۔۔ان بیماریوں کے علاوہ بھی ایک بیماری ہے جو ہمارے معاشر ے کا لا ینحل مسئلہ بن چکا ہے جو کہ گداگری کی شکل میں موجودہے۔لوگ محنت مشقت کر کے حلال روزی کمانے کے بجائے اپنے وجود کو ایک عجیب شکل میں ڈھال کر ایک جعلی بیمار بن جاتا ہے اور اس بیمار معاشرے کا بیمار فرد شمار ہوجاتا ہے،جوکہ ملکی معاشی منڈی پر صرف ایک بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔ لھذا کل قومی آمدنی ایسے لوگوں کی محنت کا کوئی حصہ شامل نہیں ہوتا بلکہ جو پیسا یہ طبقہ حاصل کرتے ہیں ٹوٹل خسارے میں چلا جاتا ہے۔اور ہم میں سے وہ تمام لوگ جوان افراد کی مدد کرتے ہیں وہ ایسا ہے جیسے افیونی کو مزید افیون پلایا جاتا ہے یا نشئی کو مزید نشہ مہیا کیا جاتا ہے۔جس کا فائدہ نہ ان کو ہے اور نہ قوم کو۔۔۔اس گداگری کی لعنت میںنہ صرف بڑے بوڑھے شامل ہیں بلکہ مختلف عمروں کے بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ یہ بچے یا تو گھروںسے بھاگے ہوئے بچے ہوتے ہیں جو جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں کھلونا بن چکے ہوتے ہیںیا تو انتہائی غریب اور نادار گھرانوں کے بچے ہوتے ہیں۔ ایک مہذب معاشرے کا شیوا یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ ان بچوں کے ہاتھوں میں کچھ سکے پکڑا کر خوش ہونے کے بجا ئے ان کا ہاتھ تھام لیں اور ایک صحت مند ترقی پسند معاشرے کے قیام کے لیے واقعی کچھ کر دکھائیں۔ بچوں کاوہ گروہ جو جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، وہ دراصل ان مجرموں کے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بن جاتا ہے۔جس کے عوض ان کو دو وقت کی روٹی ملتی ہوگی۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ مسئلہ اس سے بھی گھمبیر تب ہوتا ہے جب یہی بچے بڑے ہوکر خطرناک جرائم کرنے لگتے ہیں۔کیونکہ جنہوںنے آنکھ کھولتے ہی اپنے اطراف میں جرم کے علاوہ کچھ نہ دیکھا ہو وہ مجر م نہیں بنیں گے تو کیا مسیحا بن جائیں گے؟ یہی وہ خطرناک مرحلہ ہے جس کےلیے ہمیںتھوڑا ساسوچناہوگا۔ مسئلے حل یہ بھی نہیں ہے کہ ان بھیگ مانگتے بچوں کو اُٹھاکر تھانوںمیںلےجائیں اور آدھ موا کر کے چھوڑ دیں۔جب یہ ایکسر سائزانکے ساتھ کئی دفعہ ہوتا ہے تو پھر یہ ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اور یہی عمل ان کو بگاڑنے کا اصل سبب بن جاتا ہے۔۔افرادی قوت کے لحاظ سے پاکستان ایک مضبوط ملک ہے مگر یہ تعداد افرادی قوت نہیں کہلا سکتے ۔ یہ صرف لوگوں کا ایک ہجوم ہے فرہنگ معیشت کے مطابق افرادی قوت میںوہ لوگ شامل ہیںجو کسی طور کام کاج کر کے مجموعی ملکی آمدنی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔ وہ لوگ نہیں جو معاشی منڈی کے کسی کھاتے میں نہیں آتے۔مثلا ڈاکہ زنی سے حاصل کی ہوئی دولت اُن عیاش اور بدمعاش طبقے کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو کسی صحت مند تعمیری مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوتی بلکہ صرف تخریبات کے لیے ہی مستعمل ہے۔لھذایہ دولت بلیک منی کہلاتی ہے اور بلیک منی منڈی کی کاروباری سرگرمیوں کا حصہ نہیں ہوتی۔ بلک ایسی دولت ہی دراصل قومی خزانے پر بڑا بوجھ بن جاتی ہے اور افراد زر کا مسئلہ پیدا ہوتاہے لھذا مہنگائی بڑھتی جاتی ہے اور سرد بازاری ہوجاتی ہے اور پھر ایک ہمہ گیر قومی مسئلہ سر اُٹھاتاہے کیونکہ یہ کام یہاں بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ہمارے اندر جو سب سے بڑی بیماری ہے وہ یہ کہ ہم اس سارے سیناریو میں اپنا کردار نہیں دیکھتے ۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی عادت ہی نہیں ہے بلکہ ہم دوسروں کی گریبانوں میں جھانکتے پھرتے ہیں۔ہم کسی بھی مسئلے پر چاہے وہ انفرادی ہو، چاہے اجتماعی ہو یا کہ قومی ،کسی دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کسی اور کے خلاف بولتے ہوئے ہمیں مزہ آتا ہے اپنے کردار کو نہیں دیکھتے کہ اس اُٹھنے والے مسئلے میں ہمارا اپنا حصہ کتنا ہے لھذا کسی گداگر کوچندہ دینے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ آیا وہ اس گداگر کو ایک صحت مند معاشرے کا صحت مند فرد بنانے کے لیے اس سے بہتر کیا مدد کرسکتے ہیں۔ کسی کی سفارش کرنے سے پہلے انکے منفی پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔کسی کو رشوت دینے کے بعد جنم لینے والے مسائل کی فکر کرناہوگی۔ بد عنوانی اور بددیانتی کرنے سے پہلے مستقبل کے معاشرے کو نظروں کے سامنے لانا ہوگا۔اور کسی چندہ لینے والے کو چندہ دینے سے پہلے یہ سمجھناہوگا کہ اس کا اصل مصرف کیا ہے۔ اور اس سے اُٹھنے والے اثرات میں ہمارا حصہ کتنا ہے جو بغیر سوچے سمجھے ہم ڈالتے ہیں۔۔ ان سب کے کرنے کے بعد پھر آپ دیکھیں کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔۔؟
habib ganchvi
About the Author: habib ganchvi Read More Articles by habib ganchvi: 23 Articles with 21455 views i am a media practitioner. and working in electronic media . i love to write on current affairs and social issues.. .. View More