ہائے تعلیمی پری
ریاست بہار جو کہ 38اضلاع پر مشتمل ہے ، کا ضلع مدھوبنی کوئی محتاج تعارف
نہیں ۔ اس ضلع کا وسفی بلاک متعدد وجوہات سے توجہ کا حامل آج بھی ہے ۔ اس
لحاظ سے بھی یہ بلاک قابل فخر ہے کہ میتھلی زبان کے مایہ ناز شاعر ودھیاپتی
کی پیدائش 1352اوروفات 1442میں اسی سرزمین پر ہوئی۔وہ گنپتی کے بیٹے تھے ۔
جنہیں میتھلی زبان کے شاعرکوئل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ مقامی میتھلی
شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سنسکرت زبان پر نہ صرف عبور رکھتے تھے بلکہ
سنسکرت میں شعربھی کہتے تھے ۔ودھیا پتی سنسکرت کے دو الفاظ سے مرکب ہے ۔
ودیا کے” معنی علم “اور پتی کے معنی” شوہر یعنی مالک“ کے ہے۔ اس مشہور شاعر
سے تعلق رکھنے والے اس بلاک میں تقریباً 28پنچایت ہیں ، جوکہ بالعموم ایک
بلاک کی پنچایتوں سے زیادہ ہے ۔ عام طور سے ایک بلاک میں 15پنچایت ہوتے ہیں
۔ یہ بلا ک بہار کے مشہور تاریخی شہردربھنگہ سے کوئی 35کلو میٹر کے فاصلہ
پر واقع ہے ۔ جہاںتک اس بلاک کی آبادی کا تعلق ہے تو وہ تقریباً 1ایک لاکھ
70ہزار ہے ۔
دہلی میں واقع ایک غیر سرکاری تنظیم چرخہ کی ٹیم کے ساتھ وسفی بلاک کے وسفی
پنچایت کے وارڈ نمبر 1/2میں بنے پرائمری اسکول جانے کا موقع ملا، جب راقم
الحروف نے جائزہ لیا تو بہت سے مسائل سامنے آئے ، اسکول کی موجودہ پرنسپل
رینا کماری سے جب تعلیمی سرگرمیوں پر گفت وشنید ہوئی تو انہوں نے بہت سی
باتیں بتائیں ۔ اساتذہ اور طلباءکی تعداد کے استفسار پر پرنسپل موصوفہ نے
بتایاکہ ”کل 187طلباءزیر تعلیم ہیں ،جن کی تعلیم وتربیت کے لئے صرف ایک
ٹیچر “۔جب ان سے راقم نے متعجبانہ لہجے میں پوچھا کہ آخر ایک ٹیچر کیسے
187بچوں کی تعلیم پر توجہ دے سکتا ہے؟کیسے وہ اتنے طلباءکی تربیت کر سکتا
ہے؟کیا کبھی آپ نے اس کے تئیں اعلٰی عہدے داروں سے رابطہ کیا ہے تو انہوں
نے جواب دیا :”سر! کسی نہ کسی طرح انھیں پڑھاتے ہی ہیں ، اس کے متعلق بی ای
او(بلاک تعلیمی آفیسر)سے بھی کئی مرتبہ با ت کی، تو انہوں صبر کی تلقین
کرتے ہوئے اس مسئلہ کے حل کا وعدہ کیا ، ہاں ! صرف میں نے ہی نہیں بلکہ
ہمارے سابق پرنسپل سیتل پرساد ساہو گپتا نے دو مرتبہ چار اساتذہ کا مطالبہ
کرتے ہوئے بلاک آفس میں درخواست بھی دی تھی مگر ہمار ی آواز ہمیشہ صدا بصحر
اہی رہی ، اس کے حل کے لئے اب تک کوئی اقدام نہیں ہوسکا ہے “۔
موجودہ پرنسپل(یعنی اکلوتی ٹیچر) کے مطابق سیتل پرساد گپتا ساہو مورخہ
31جنوری 2011کو ریٹائر ڈ ہوئے ، مگر میں نے اگست کے مہینہ میں چارج سنبھالا
، ریٹائرڈ ہونے کے باوجود بھی اسکول میں ان کی آمد ورفت جاری رہی ، اسکول
کی تمامتر ذمہ داری اپنے کندھوں پر لئے رہیں ۔ اس کے متعلق میں نے مکھیا
اوربی ای او سے متعدد دفعہ باتیں کی اور کسی نہ کسی طرح ماہ اگست میں نے
چارج سنبھالا “۔ راقم الحروف نے جب ان سے پوچھا کہ 187طلباءمیں سے کتنے
طلباءپابندی سے اسکول آتے ہیں توانہوں نے جواب دیا :”کوئی 80یا 90“۔مگر اس
وقت اسکول میں صرف اورصر ف دو طالبات ہی موجود تھیں اورکوئی پندرہ منٹ میں
12طلباءو طالبات اور بھی آگئے ۔
مڈڈے میل کے موضوع پر جب ان سے گفت و شنید ہوئی تو انہوں نے کہا :”چارج
سنبھالنے یعنی ماہ اگست کے بعد سے صرف 150کلو چاول آیا ، اس کے ختم ہونے کے
بعد اب تک کچھ نہیں آیا ، جس کے متعلق بلاک تعلیمی آفیسر کو مطلع کیا گیا،
مگر کبھی اس پر توجہ نہیں دی گئی “۔ پرنسپل موصوفہ کا فون نمبرہمارے پاس
موجود ہے،اگر کوئی بات کرنے چاہیں تو میں بات کراسکتا ہوں ۔
پرنسپل صاحبہ کے بعد راقم نے اسکول میں ڈرے سہمے سکڑے موجود کل14طلباءسے
اسکول ، درجے اور تعلیمی سرگرمیوں کے بابت دریافت کیاتو 12طلباءنے کہا:”ہم
پانچویں درجہ کے ہیں اوربقیہ دو چوتھے کلاس کے ، اسکول میں بنے بیت الخلا
میں جانے دیا جاتا ہے ، مڈڈے میل کبھی کبھار ملتا ہے ، اسکول میں بنے پانچ
کمروں میں سے روز صرف ایک کمرہ ہی طلباءسے بھر پاتا ہے ‘ ‘۔
ڈریس کے متعلق پرنسپل صاحبہ سے معلومات حاصل کی تھی تو انہوں نے کہا
:”قانون کے پیش نظر 60طلباءکو دیاجاناچاہئے تھا ، فی طلبہ 500روپیہ کے
اعتبار سے کوئی 30ہزار روپیہ ہوتے ہیں ،مگر صرف 24ہزار روپئے ہی آئے ، جس
کی وجہ سے 12طلباءکو کچھ نہیں دیا جاسکا ، یہی وجہ تھی کہ ان کے والدین سے
سخت سست بھی سننا پڑا اورقریب تھا کہ نہ تھمنے والی کوئی لڑائی شروع ہوجائے
، جب بی ای او سے اس کی شکایت کی توانہوں نے کہاکہ بہت سے اسکولوں میں ڈریس
کی رقم زیادہ چلی گئی ہے ، وہاں سے جب واپس آئے گی تو آپ کو دیا جائے گا “۔
واضح ہوکہ اس بلاک کے تعلیمی آفیسر (بی ای او )ارشاد صاحب ہیں، جن کے رابطے
کا نمبرمیرے پاس موجود ہے۔اس اسکول کے طلباءکے کئی ایک والدین سے بات چیت
کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ اساتذہ کا جب معقول بندوبست نہیں ہے تو تعلیم
کیسے معیاری ہو گی ، ایک ٹیچر کیاکچھ کرسکتی ہے ، رینا کماری اکیلے جو
کارنامہ انجام دے رہی ہیں وہ قابل تعریف ہے ۔
اسی طرح وسفی بلاک کے بلہا پنچایت کے تحت گاؤں رمنیا کے وارڈ ایک میں بنے
پرائمری اسکول کا جائزہ لیا تو باشندگان محلہ کے تقریباً 20افراد نے بتایا
کہ:” یہاں سات اساتذہ تعلیم وتعلم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔اس اسکول کے
ٹیچر محمد شکیل احمد کے مطابق مڈے میل کی رقم پابندی سے نہیں آتی ہے اور
ہماری تنخواہ کا توپوچھنا ہی بے کار ہے کہ گزشتہ 13ماہ سے ہمیں تنخواہ
نہیںملی ہے ، فی الحال اسکول میں بیت الخلابھی نہیں ہے ، اس کی تعمیر کا بی
ای او نے حکم دیا ہے ، مگر ان کافرمان ہے کہ آپ اسکول کے دوسرے فنڈ سے اس
کے لئے رقم نکالیں ۔ یہ بھی واضح ہوکہ جب ان سے پرنسپل کے نمبر کا مطالبہ
کیا تو انہوں نے کہا فی الحال نمبر نہیں دے سکتاہوں ۔اسی محلہ کے ایک مکیں
حیدر حسن نے کہا :”ادھر کوئی ڈھائی مہینہ سے مڈے میل کے نام پر کچھ نہیں
آیا مگر پہلے آتا تھا ، اس سے پہلے بھی بچوں کو کچھ نہیں ملتا تھا “۔تعلیمی
پری کی اس کراہتی آواز سے دل برداشتہ ہوکر راقم نے بی ای او صاحب سے ملنے
کی حتی الامکان کو شش کی مگر متعدد وجوہات کی بنا پرنہ مل سکا۔ مگر قارئین
کو بتاتاچلوں کے ان کا نمبرہمارے پاس موجود ہے ۔
ان دونوں پرائمری اسکولوں کے جائزے کے بعد ان سوالات کا اٹھنا فطر ی ہے کہ
آخر 187طلباءکی تعلیم وتربیت میں صرف ایک ٹیچر کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں ؟
اساتذہ کی کمی سے ان طلباءکی بنیاد تعلیم کیسے مضبوط ہوپائے گی ؟قانون کے
پیش نظر چالیس طلباءپر ایک معلم ہونا چاہئے ، مگر ایسا نہیں ، آخر کیوں ؟یہ
انتہائی توجہ طلب امر ہے کہ ریاست میں تعلیم کیسے معیار ی ہوگی ؟کیسی
لاپروائی ہوتی ہے کہ ایک اسکول کی رقم دوسرے اسکول چلی جاتی ہے ۔ پابندی سے
مڈڈے میل بھی نہیں دیا جانا بھی اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے ۔ کیونکہ اس
اسکیم کے مطابق طلباءکو ایام کے اعتبار سے بہت سی چیزیں ملنی چاہئے ۔ ایک
نظر اسی فہر ست پر بھی :
پیر--دال ، چاول اورسبزی
منگل --انڈا ، کڑھی اورچاول
بدھ --سوابین چاول
جمعہ--خالی
سنیچر--کھچڑی چوکھا
اتوار--چھولے چاول ۔ (یہ فہرست بلہاپنچایت کے رمنیا گاو ¿ں میں بنے پرائمری
اسکول کی دیوار پر درج تھی ) ۔
جب دہلی سے ان مسائل کے متعلق بی ای او ارشاد صاحب سے بذریعہ فون بات کی
گئی تو انھوں نے درج بالا تمام مسائل تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ "بیت
الخلاءوالا مسئلہ تو اسی ماہ میں حل کردیا جائے گا ، مگراساتذہ کی انتہائی
قلت کی وجہ سے یہ پریشانی تو ضرور ہے جو شائد ہونے والی نئی بہالی میں پوری
ہو جائے گی جہاں تک اساتذہ کی تنخواہ کا تعلق ہے تو اس معاملے میں پنچایت
کے سربراہ یعنی مکھیا کو عمل دخل ہوتا ہے اور وہیں سے تنخواہ اساتذہ تک
پہنچتی ہے ہماری طرف سے چیک دیا جاچکا ہے ،مڈمیل اور ڈریس سے متعلق بھی قدم
ضرور اُٹھائیں گے ۔"
مگر ان تمام باتوں کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسکیموں کی وضاحت
صرف اورصرف کاغذ پرہی ہوگی یا عملی مظاہرہ بھی ہوگا ؟ آنے والے معصوم
طلباءکو یہ چیزیں دی بھی جائیں گی یا انہیں اسکول میںبھوک کی آگ میں جلنے
دیا جائے گا؟۔واضح ہو کہ مرکزی حکومت نے مڈ ے میل کی شروعات اسی بنیاد پر
کی تھی کہ بچے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اسکول میں لگائیں انھیں بھوک وپیاس
کا احساس نہ ہونے پائے ۔ موجودہ ریاستی حکومت نے بھی تعلیم کے فروغ کے لئے
بہت سی اسکیمیں شروع کی ہے جو کہ فی الواقع قابل قدر ، مستحسن اور لائق صد
احترام ہے ، مگر جب ان اسکیموں سے طلباءکو خاطرخواہ فائدہ ہی نہ ملے تو یہ
امر اعلٰی عہدیداروں سے لے کر اساتذہ اورگاؤں کے باشندگان کے لئے قابل غور
وفکر ہے ۔ ریاستی حکومت کی بہت سی تعلیمی اوردیگر اسکیموں کے مدنظر یہ کہنے
میں ذرا بھی باک نہیں کہ بہار تو ترقی کی راہ پر گامزن ہے مگر یہاں کے عوام
نہیں، کیونکہ اسکیموں کے تناظر میں ریاستی حکومت بال وپر والی نظر آتی ہے
مگر ان سے استفادہ کے آئینہ میں عوام یا طلباءبونے نظر آتے ہیں ۔(چرخہ
فیچرس) |