اس فیصلہ پر ذرا عمل کر کے تو دیکھیں؟

کوئی ہفتہ بھر قبل سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ منظر عام پر آیا کہ قبل از شادی جسمانی تعلقات جرائم میں شامل نہیں اور بغیر رشتہ ازدواج قائم کئے مرد وعورت کا ایک ساتھ رہنا زمرہ جرم میں نہیں ۔چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن، جسٹس دیپک ورما اور بی ایس چوہا ن کی بنچ نے یہ فیصلہ لیتے ہوئے کہا کہ دو بالغوں کا ایک ساتھ رہنا آخر کون سا جرم ہے؟ بھگوان کرشن اور رادھا ایک ساتھ ایسے ہی رہا کرتے تھے۔

سپریم کورٹ پر ہر ہندوستانی کا اعتماد بحال ہے ، خواہ وہ کسی مذہب و مسلک کا پیرو کار ہو ، اس کے تمامتر فیصلوں کو سر آنکھوں پر رکھنا ایک اہم فریضہ سمجھتا ہے ۔تاہم اس قابل قدر ادارہ سے کسی ایسے کا فیصلہ کا منصہ شہودپر آنا جو بلا تفریق مذاہب وملل باعث شرم اور ننگ وعار ہو ، انتہا ئی مضحکہ خیز معلوم پڑ تا ہے ، ملک کے بہی خواہوں اور عقل وخرد کے متوالوں کے دلوں میں اس سے ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ، مختلف شکوک و شبہا ت کے بر گ وبا ر نظر آنے لگتے ہیں ۔گزشتہ دنوں کے کئی ایک فیصلہ ایسے ہیں جو باعث عار ہیں، مثلاً ہم جنس پرستی ، مطلقہ خواہ معتدہ (عدت گزارنے والی ) ہو یا غیر معتدہ دوسری شادی تک اس کے نفقہ کی تمامتر ذمہ داری سابق شوہر پر عاید ہو گی اور تازہ ترین مذکورہ فیصلہ بھی اسی ضمن میں !

گزشتہ دیگر فیصلوں سے قطع نظر قبل از شادی جسمانی تعلقات جرائم میں شامل نہیں ہے ‘کو ہی لے لیجئے اور بالغ نظری سے ذرا غو ر کیجئے کہ اس فیصلہ سے کیسے منفی اثرات سماج پر مرتب ہوں گے ؟

ہندوستان کا منظر نامہ کیسا ہوگا؟ اس فیصلہ سے کتنے آئین و قوانین پر بل آئے گا ؟ برائیوں کا کس قدر رواج ہو گا ؟ والدین ، اعزو اقارب سے نوجوان نسل کیسے صف آراءہوں گی ؟

جب قبل از شادی دو بالغ جسمانی تعلقات قائم کریں گے اور اس غلط طریقہ سے جنسی جذبات کی تسکین کریں گے تو ایسے پر آشوب دور میں لڑکیوں کے لئے رشتہ ازداج سے منسلک ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا، کیونکہ کوئی مر د یہ نہیںچاہے گا کہ کوئی عورت ہمہ دم اس کے گلہ کی گھنٹی بنی رہے ،اس کے نفقہ و سکنی وغیرہ کی تمامتر ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا رہے ،ان غلط روابط میں بچے کی پیدائش بھی ہوگی تووہ ثابت النسب رہ جائے گا اور نہ ہی اس کی پر ورش و پر داخت ہو پا ئے گی ، پھر تعلیم و تربیت کا مسئلہ تو الگ رہا ، اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ”اسقاط حمل “ کا لا متنا ہی سلسلہ قائم ہوگا ،جوکہ قانوناً بھی جرم ہے اور عقل کا تقا ضہ بھی یہی ہے کہ ایسے شنیع فعل کو زمرہ جرم میں ہی رہنا چاہئے ، قبل از شادی جسمانی تعلقات جرم نہیں گر دانا نہیں جائے گا تو لا محالہ اسقاط حمل کو ازروئے دفعہ ہند جا ئز قرار دینا ایک مجبو ری ہو گی۔

عورت ہمہ زمانہ مظلوم رہی ہے ، اور آج تو مظلوم در مظلوم ہے کہ آزادی نسواں کے پر فریب نعروں کی آڑ میں نہ جانے اس کے کیسے کیسے حقوق تلف کرلئے جاتے ہیں اور اس کااحساس ´صنف نازک کو ذرا بھی نہیں ہو تا،صرف وہ مگن رہتی ہے کہ ہمیں آزادی دی جارہی ہے ، عورتوں کا حق یہ ہے کہ وہ گھروں کی ملکہ بنی رہیں مگر آزادی نسواں کے عفریت نے انہیں کا رخانوں اور دوکانوں کی ملازمہ بنا دیا ہے ، وہ تھیں صرف اپنے شوہروں کے لئے مگر آج غیر بھی قانوناًیا جرماً ان پر دست درازی کرتے نظر آرہے ہیں ، ان کا حق تھا کہ وہ امور خانہ داری پر مامو رہیں مگر بارہ با رہ بلکہ سولہ سولہ گھنٹہ غیروں کے زیر سایہ ایسے ایسے کاموں میں مصروف رہتی ہیں جو انہیں زیب دیتا ہے اور نہ ہی ان کے لئے ان کی خلقت ہوئی ہے، یہ بات بھی آزادی نسواں کی انتہائی تشویشناک ہے کہ انہیں نعروں نے عورتوں کے جسموں پر سے کپڑے اتر وادئے ، نیم بر ہنہ کیا ، یکسر بر ہنہ کر دیا ، اگر واقع بر ہنگی کا مظا ہر ہ ہی ترقی اور آزادی کی علامت ہے تو ذرا یہ عورتیں ان مردوں کو چشم ہو ش سے دیکھیں جو کو ٹ پتلون میں ملبوس ہوتے ہیں ،نیچے سے اوپر ( گلے ) تک بٹن لگاکر ٹائی باندھتے ہیں، مکمل ستر پوشی تو عورتوں کا حق ہے کہ وہ بد نگاہی کی یلغار محفوظ رہیں ،مگر ستم ظریفی یا روشن خیالی ہے کہ انہیں مردوں نے فیشن کے نام پر انہیں بے پردہ کردیا، تنگ و چست لباس پر آزادی نسواں کا لیبل چسپاں کردیا ، باوجود اس کے ابھی بھی انہیں قرار نہیں ،اب تو یہ روشن خیال مرد متفکر ہیں کہ کیسے ان کے بدن کے کپڑوں سے ایک ایک دھاگا ادھیڑ دیا جائے ، ہائے ! کہاں جاکر یہ دم لیں گے ؟؟؟مگر عورت ذات بس مگن ہے کہ ہمیں آزادی اب نصیب ہوئی ،تر قی کے افق پر ہم محوِ پر واز ہیں،سبحان اللہ ! کیسی ہے یہ آزادی نسواں ؟؟؟یہی وہ آزادی نسواں ہے جس کی دین سے آئے دن درجنوں کی تعداد میں زنا بالجبر اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات رونما ہوتے ہیں ، ان برائیوں کو پیش نظر رکھتے ہو ئے ذرا تصور کیجئے کہ مذکورہ فیصلہ پر عمل کرنے سے ان کی کیا گت ہو گی؟۔

یہ ایک ایسا مضحکہ خیز فیصلہ ہے جس سے طلاق کے واقعات میں بھی اضا فہ ہو گا ، عورتوں کی ایک نہ سنی جائے گی،ذراذرا سی بات پر تنازع بپا ہو گا اور فی الفور مر د ان سے قطع تعلق کردوسری عورتوں سے تعلقا ت و مراسم قائم کرلیں گے ، کیونکہ بغیرشا دی مرد و عورت کا ایک ساتھ رہناجرم نہیں ہے،پھر کیا ہو گا ؟صرف اینکہ آئین ہند میں کسی ایسے قانون ِطلاق کا اضافہ کرنا ناگزیر ہوجائے گا جس سے عورتیں محفوظ رہ سکیں ۔

ہمہ زمانہ مخلوط تعلیم کا یک گونہ کوئی نہ کوئی طبقہ مخالف رہا ہے اور آج بھی ہے، وجہ اس کی مختصراً یہی واضح کی جاتی ہے کہ طلباءطالبات کی موجودگی میں ذہنی انتشار کے شکار ہوں گے جس سے تعلیم کے لئے ان کے ذہن یکسوں نہیں ہوپائیں گے اور اس سے منفی اثرات مرتب ہو نے کا بھی خدشہ رہے گا ، جرائم کا گراف بڑ ھے گا۔مشاہدہ بھی ہے اور تجربہ بھی کہ بالکلیہ نہ سہی مگر ایسے بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں جو مخلوط تعلیم کے قصیدہ پڑ ھنے والو ں کے لئے ننگ و عار ہوتے ہیں ۔ اساتذہ اور طالبات کے مابین غلط تعلقات قائم ہوجاتے ہیں ، کبھی یہ بخوشی ہو تا ہے اور کبھی جبراً و قہراً بھی،اور طلبا ءو طا لبا ت کے درمیا ن اس تعلق سے کیا رویہ ہے ، وہ تو پو چھئے ہی مت !ذرا سو چئے اگر اس فیصلہ کو مان لیں تو ان واقعات میں کس قدر اضافہ ہو گا ، جانے دیجئے مخلوط تعلیم کو اور اس کی قبا حتوں کو ، صرف اس پر نظر رکھیں کہ آج تمام یو نیور سٹیوں میں طلبا اور طالبات کے لئے ہا سٹل مختلف ہوتے ہیں ، ان کے الگ الگ رکھے جانے میں در اصل یہی منشاءکارفرماہوتاہے کہ ان کے مابین رسم و راہ نہ ہو سکے، مگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ موجود ہوگا تو الگ الگ ہاسٹل کا نظام فرسودہ معلوم پڑ ے گا اور ایک دن کسی نہ کسی طلبہ کی درخواست پر یہ فیصلہ صادر ہو گا کہ یونیور سٹیوں میں طلباءو طالبات کا الگ الگ رہنا کوئی ضروری نہیں ،جی ہاں ! میں تو بھو ل ہی گیا کہ مستقبل میں سپرم کورٹ وغیر ہ کو اس سلسلہ میں درخواست دینے کی ضرورت ہی نہیں ، کیونکہ آج بھی مذکورہ فیصلہ میں اس آزادی کی گنجائش ہے۔یعنی تعلیم گاہیں بھی جنسی جذبا ت کی تسکین کا اڈہ بن جائے گا ، ہیجان انگیز مناظر وہاںبھی نظر آئیں گے اور تو اور ایک کمرہ میں طلبا و طالبات رہیں تو کسی کو یہا نتک حق نہیں رہے گا کہ ان پر انگشت نمائی کرے ، کیونکہ بھائی سپرم کورٹ کا فیصلہ ہے ، زبان چلاؤ تو کا ٹ لی جائے گی ۔

اس فیصلہ کے منفی اثرات میں سے ایک یہ بھی اثر ہو گا کہ والدین ، مخلص دوست و احباب ، اعزہ واقارب اور ،محسنوں کی کوئی حیثیت نہ رہ جائے گی ، ان کی نافرمانی کے سلسلہ میں برق رفتاری آئے گی ، بایں طور کہ والدین اپنے بچوں کو غلط تعلقات قائم کرنے پر سزا تو کجا ، تنبیہ بھی نہیں کر سکیں گے ،اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آئے گا تو نوجوان نسل کہیں گی کہ ہمارا اس طرح تعلقات قائم کرنا کوئی غلط نہیں ، ہمیں تو اس کا حق سپرم کورٹ نے پورا پورا دیا ہے ، لہذا آپ کو اس پر انگشت نمائی کرنے کا کو ئی حق نہیں پہونچتا،صورتحال یہ ہوگی کہ باپ بیٹوں اور بیٹیوں میں مقدمہ بازیا ں ہوں گی اور باشندگانِ محلہ محوِ تماشہ ہوں گے ،نیز شاید حکومت بھی متفکر ہوگی یورپ و امریکہ جیسے ماحو ل کا نظارہ کر کے ۔

ججوں کے جواب دہی کا مسئلہ برسوں سے زیر بحث ہے ، چند دنوں قبل وزیر قانون ویر پا مائلی نے پنجاب یونیور سٹی میں اس تعلق سے ایسا بیان دیاہے ،جو فی الواقع قابل اعتماد ہے۔خداکرے جلد ہی ایسا قانون بن جائے۔جی ہاں ! عدلیہ کے وقار کو قائم رکھنے ، اس میں شفافیت پیدا کرنے اور جمہوریت کے پاس و لحا ظ کے لئے ججوں کے جواب دہی کا قانون بننا یہ نہ کہ صرف قطعی مناسب بلکہ امر ناگزیر ہے ، ججوں کے جواب دہی کا کوئی قانون وضع ہوتا توآج ایسے بے سرو پا فیصلے نہ آتے ،اس لئے حکومت پر یہ ذمہ دارہ عاید ہوتی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے اس توجہ طلب مسئلہ پر اپنی توجہ مبذول کرے تاکہ انتہائی تامل اور غو روفکر کے بعد ہی کوئی فیصلہ لیا جاسکے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 99461 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More