ہے جذبہ جنوں ۔۔۔۔۔ مگر

کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی اخوت اوربھائی چارگی کی فضاء کا اندازہ لگانا ہوتو اس کی نئی نسل (نوجوان نسل) کے طرز ندگی کو دیکھا جاتا ہے۔اگر اس کی نسل بے حس ہے اور ا س کی نئی نسل کا کسی بھی آفت یا صدمہ سے دوچار افراد کی حالت پر دل نہیں دکھتا تو اس ملک کا مستقبل تاریک ہے، اس کے بر عکس اگر نوجوانوں میں جذبہ حب الوطنی ،بھائی چارہ اور آنکھ نم ہونے کی فطرتی عنصر موجود ہے تو ایسے ملک تاریخ کے اوراق میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔خوش قسمتی پاکستان کا شمار بھی ان ممالک اور اقوام میں ہوتا ہے جس کے نوجوانوں میں خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے ،آٹھ اکتوبر کا زلزلہ ہو یا کوئی طوفانی حادثہ، یا پھر کسی بم بلاسٹ کے بعد ہونے والی امدای کاروائیاں ،عام طور پر دیکھنا میں آتا ہے کہ سب سے پہلے سب سے آگے نوجوان ہی آتے ہیں۔اپنے اس ہمدردانہ رویہ کے باوجود نوجوانوں کو ان کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی اجازت نہیں دی جاتی اور ان کو تمام معاملات سے الگ کر دیا ہے ۔آخر و ہ ایسے کونسے عوامل یااسباب ہیں جن کے وجہ سے ان نوجوانوں کو کنارے لگا دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں تو سمجھ میں آتا ہے کہ بلا وجہ کسی تنظیم کی ہمدردی یا مخالفت کے باعث نقصان اٹھانے کا اندیشہ رہتا ہے، لیکن قدرتی آفات جیسے طوفان، زلزلہ یا غیر امکانی حادثہ جیسے بلڈنگ وغیرہ میں آگ کا لگ جانا ان حادثات میں رضا کارانہ خدمات انجام دینے والے نوجوانوں کو کیوں ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جاتا؟کیا اس کے پیچھے لوگوں اور فلاحی اداروں کے ذاتی مفاد ہوتے ہیں؟ ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ ہر علاقے کیلئے ان نوجوانوں پر مشتمل باقاعدہ رضا کار ٹیمیں تشکیل دے دی جائیں جن کو محدود اختیارات دئے جائیں کہ وہ جائے حادثہ پر پہنچ کر زخمیوں کی امداد کریں اور غیر ضروری اور غیر متعلقہ افراد کو جائے وقوعہ کی جگہ سے دور روکے رہیں تاکہ ہمیشہ کی طرح تاخیر سے پہنچنے والے قانونی اداروں کو ثبوت جمع کرنے ہی پڑیں اور ان کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ لوگوں کے رش اور امدادی سرگرمیوں کے باعث تمام اہم ثبوت ضائع ہوگئے۔

یہ ملک پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب کو ہی اس کی ترقی اور بھلائی کیلئے اپنی خدمات کوتعمیری انداز میں بروئے کار لانا ہوگا ۔ رنگ ،نسل قوم ،زبان اور فرقہ ورانہ تضادات کو بالائے طاق رکھ کر ہی ہم مملکت خداد کے حصول کے اصل تصور کو حاصل کر سکیں گے۔ اگر حکومت اور ایسے متعقلہ ادارے جو کہ ملکی نظم و نسق کے ذمہ دار ہیں نوجوانوں کی صلاحیتوں اور ان کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے واقعتاً کچھ اقدامات کریں اور ان کو کوئی ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں جہاں وہ اپنی صلاحئیتوں میں مزید نکھار پیدا کر سکیں تو یقین کرے اس ملک میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ یہاں کہ نوجوان دنیا کے بڑے بڑے سے ملکوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔لیکن افسوس ہمارے ملک میں ان نوجوانوں کو زنگ لگایا جا رہا ہے اور اب آپ کسی بھی ایسے نوجوان سے بات کر لیں جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کا پہلا جملہ ہی یہی ہوتا ہے کہ یار یہاں رہ کر انسان کبھی کچھ نہیں کر سکتا اسلئے میں نے ارادہ کرلیا کہ اس ملک کو چھوڑ جاؤں گا۔ اور اس طرح ایک قابل ہونہار شہری اور سب سے بڑھ کر جوان خون ملک کیلئے کچھ کرے بغیر ہی اس ملک کو خیر باد کہہ جاتا ہے۔ ان تمام حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومتی پالیسیاں یا پھر چند لوگوں کے ذاتی مفاد ؟ میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے ،کیونکہ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ اصل حقائق کیا ہیں۔ میں تو بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں آزادی حاصل کئے چونسٹھ برس بیت گئے اور ہم دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بھی بن گئے لیکن ہمارا نوجوان آج بھی مایوسی میں گرفتار ہوکر احساس کمتری کا شکار ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں مل رہا۔میں متعقلہ اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسے تمام نوجوان جو کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں خواہ سماجی ہو یا پھر معاشی اور سائنسی خدمات ، ان کی رہنمائی کیلئے عملی طور مثبت اقدامات کئے جائیں اور ان کو موقع دیا جائے کہ وہ کچھ کر دکھائیں۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آنے والے کل میں ان ہی نوجوانوں کو ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے اس لئے اگر یہ ان تمام حالات و واقعات میں ملوث رہیں گے تو تقیناً ملک کی انتظامی باگ دوڑ کو بھی خوب اچھے اور احسن طریقے سے چلانے کے قابل ہونگے۔
Shariq Jamal Khan
About the Author: Shariq Jamal Khan Read More Articles by Shariq Jamal Khan: 4 Articles with 2911 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.