ٓمیڈیا ایک مقدس گائے

ناراض مت ہونا کہ میں میڈیا کو ایک مقدس گائے کا خطاب سے کیوں یاد کر رہا ہوں اور اگر کسی کو برا لگ رہا ہے تو معافی چاہتا ہوں(حالانکہ دل نہیں چاہتا کہ معافی مانگوں لیکن مقدس گائے کو تنقید برداشت کرنے کی عادت نہیں ہے ) ۔ اصل میں اس کی چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میں ذاتی طور پر مطمئن نہیں ہوں ۔میڈیا کو بلاشبہ ریاست کا چوتھا ستوں کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ ریاست کے اس ستوں پر ہی ملکی پالیسی کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ احتساب، کرپشن،۔بد عنوانی ، اقربا پروری معاشرے کا ایک اہم عنصر ہے ۔۔

لیکن !
اینکرزپرسن یا میڈیا کے بااثر نمائندے ایسی مقدس گائے ہے کہ ان سے ان کے مالی اثاثے کوئی پوچھنے کی ہمت نہیں کرسکتا کیونکہ حمام میں سب ۔ ۔ ۔۔ہیں ۔

کیا میڈیا والے آب زم زم سے نہائے ہوئے ہیں یا گنگا سے اشنان کیا ہے ؟

سیاست دان اگر پارٹی بدل لیں تو زور وشور مچ جاتا ہے کہ سیاسی وفادرای بدل دی ۔ جبکہ سیاسی جماعتیں کوئی مذہب کا درجہ نہیں رکھتی کہ اسلام ہے اگر بدلا تو مرتد ہوجاؤ گے اور واجب قتل قرار دئے جاؤ گے ۔ میں تو سیدھی سی بات یہ سمجھتا ہوں کہ دین اسلام یا آسمانی مذہب کے علاوہ ہر چیز متبدل ہے ۔ سیاست تو ویسے بھی حرف آخر نہیں ہے ۔

لیکن !!

مقدس گائے کے لوگ جب میڈیامالکان سے اپنے نئے مالی معائدوں کے ساتھ نیا چینل جوائن کرلیتے ہیں تو ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ جس ادارےسے جا رہے ہو اس کی وجہ سے توتمھاری پہچان بنی آج کچھ بن گئے تو تگڑے پیکچ کےلالچ میں ادارے کی وفا داری چھوڑ کر ایسے پروفیشنلزم کا نام دے دیا کہ بہتری و ترقی کی جانب گامزن ہیں۔۔

پیسوں کی لالچ میں اور شہرت کی بلندی کو چھونے کےلئے جانے والوں کا نظریہ صرف ادارہ مالکان سے رہ جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ چھوٹے صحافیوں کے مسائل پر توجہ نہیں دیتا بلکہ مالکان جوحکم دیتے ہیں اس کو بجا آور لاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج کا صحافی میڈیا مالکان کی پالیسیوں کی وجہ سے یرغمال خود اپنے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ تنقید کرنے والے تنقید برداشت کرنے کے عادی نہیں-

کیا کسی نے سنا ہے کہ کسی اینکرپرسن نے ادارے کی پالیسی سے متفق نہ ہونے پر یا ویج ایوارڈ نہ ملنے پر ادارے کوچھوڑ دیا ہو ۔۔

جس طرح سیاست میں کوئی پارٹی بدلتا ہےتو اس پر قدغن اور طعنہ شاہی ۔۔۔ لیکن یہ پیسوں کی لالچ میں اداروں یا نظریات کو چھوڑنے والے کو کیا کہیں ؟
 

image

تصاویر میں کسی کی بھی تصویر کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے بلکہ یہ وہ نامی گرامی چہرے ہیں جن سے حکومت کانپتی ہے اور یہ اپنے مالکان سے -
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 265757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.