مباحث جہاد:حجۃ اللہ البالغہ کی روشنی میں(قسط3)۔

فضائل جہاد کی چھ بنیادیں
قرآن و حدیث میں جہاد، مجاہدین اور آلاتِ جہاد وغیرہ کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں جو اس کی عظمت شان اور بلند رتبہ کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان تمام فضائل و مناقب کا احاطہ کرنا کافی دشوار کام ہے۔ البتہ چند اصول اور بنیادی باتیں ایسی ہیں اگر وہ معلوم کرلی جائیں اور انہیں ذہن نشین رکھا جائے تو فضائلِ جہاد کی تمام روایات کی حقیقت جاننا آسان ہوجائے گا اور وہ فضائل بخوبی سمجھ میں آجائیں گے۔

حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ نے چھ اصول بیان کئے ہیں، جن کی تفصیل نمبر وار درج ذیل ہے۔
(۱) احیاءجہاد رحمت اور
ترک جہا د وبال ہے

اللہ تعالیٰ نے دنیا کا تمام انتظام اور سارا نظم و نسق اپنے قبضہ قدرت میں رکھا ہے، یہ پورا نظام نہایت مربوط، منظم مسلسل اور ایک عجیب و غریب لڑی میں پرویا ہوا ہے اور یہ نظام بہت مضبوط و مستحکم ہے۔ کائنات ارض و سماوی اور خود انسانی وجود میں غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے۔

اسی طرح یہ بات سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات نازل کرنے اور اپنے پیغمبر بھیجنے کا جو نظام وضع کیا تھا اس کو ”تشریعی نظام“ کہتے ہیں۔

اس تشریعی نظام کے قیام و بقاءکے لئے اور اس کے مطلوبہ نتائج کے حصول کی راہ ہموار کرنے کے لئے جہاد ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے گویا اس نظام الٰہی کی کامل موافقت اس جہاد میں پائی جاتی ہے کیونکہ تشریعی نظام کا مقصد زمین پر شریعت کا غلبہ و نفاذ ہے اور جہاد اس کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔

تو ضروری ہے کہ جب تک جہاد زندہ رکھ کر اس نظامِ الٰہی کی موافقت جاری رہے گی، پروردگار عالم کی رحمت انسانیت کے شاملِ حال رہے گی اور جو لوگ اس عظیم امر جہاد کا راستہ روکیں گے وہ گویا عظیم تر نظامِ الٰہی کی راہ میں رکاوٹ کے مجرم بن کر لعنتِ خداوندی کے مستحق ٹھہرتے ہیں، اسی طرح سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جس دور میں نظامِ شریعت کے غلبہ و نفاذ کا معاملہ کمزور پڑچکا ہو تب اس کے قیام و نفاذ کے لئے جہاد نہ کرنا اور اس عظیم امر سے محروم رہنا بہت بڑی خیر سے محرومی ہے، اس محرومی سے نجات کا راستہ احیائِ جہاد ہے جو سراسر رحمت ہی رحمت ہے۔

حضرت شاہ صاحب نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے:
”جہاد کے فضائل چند اصول کی طرف راجع ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ: جہاد انتظام الٰہی اور اس کے الہام کی موافقت ہے۔ پس اس کو مکمل کرنے کی کوشش کرنا حصول رحمت کا سبب ہے اور اس کو روکنے کی کوشش کرنا لعنت کا سبب ہے اور اس جیسے زمانہ میں جہاد کو چھوڑ بیٹھنا بہت بڑی خیر سے محروم ہونا ہے“۔

مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب اس بات کی توضیح یوں کرتے ہیں:
”جہاد نظم خداوندی اور اس کے الہام کی موافقت ہے۔ نظم خداوندی سے مراد دینِ اسلام ہے جو انسانوں کی بھلائی کے لئے نازل کیا گیا ہے اور موافقت کا مطلب وہ ہے جو ابھی(ماقبل میں) مشرعیت جہاد کی دوسری مصلحت میں گزر چکا کہ جہاد نظام اسلامی کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔

پس جو لوگ تکمیل جہاد کے لئے محنتیں کرتے ہیں ، رحمت الٰہی ان کو اپنے آغوش میں لے لیتی ہے اور جو اس کو رائیگاں کرنے کے درپے ہوتے ہیں، اللہ کی لعنت ان پر برستی ہے اور اس پُر آشوب دور میں جہاد کو نظر انداز کرنا خیر کثیر سے محرومی ہے“۔

(۲) جہاد مخلص کی پہچان
جہاد پر مشقت کام ہے، اس کے لئے سخت محنت اور جان و مال کی قربانی درکار ہوتی ہے اور اس کے لئے وطن اور اپنی ضروریات و حاجات کو چھوڑنا پڑتا ہے، بے پناہ مصائب و آلام اور سخت ترین تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کہیں انسانی بدن زخموں سے نڈھال ہوتا ہے تو کہیں طویل و پُر پیچ راستوں، جنگلوں اور ویرانوں، بیابانوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے، کہیں اپنے اہل و عیال، عزیر و اقارب اور مال و اسباب کو یکلخت پس پشت ڈالا جاتا ہے تو کہیں اپنی محبوب ترین متاع ”جان حیات“ کو خالق دو جہاں جل شانہ کے نام پر قربان کیا جاتا ہے، گویا جہاد سراپا کانٹوں بھرا راستہ ہے، چنانچہ اس مبارک عمل کے لئے وہی تیار ہوتا ہے جو دین میں مخلص ہوتا ہے، جو آخرت کی لافانی حیات کو دنیائے فانی کی چند روزہ عیش و عشرت پر ترجیح دیتا ہے اور جو دنیا کے اسباب و وسائل سے نظریں ہٹا کر خالص اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ رکھتا ہے، اس کے برخلاف جس کے دل میں کھوٹ ہو، ایمان کے دعوے کے ساتھ دل میں نفاق کی بیماری ہو، آخرت پر جس کا یقین کمزور اور دنیا پر اس کا دل پختہ ہو اور جو اللہ کے نام پر جان لٹانے کے بجائے جان بچانا عقلمندی سمجھتا ہو تو وہ ہمیشہ جہاد سے کتراتا ہے اور اس سے دور رہنے کے بہانے تراشتا ہے۔

حضرت شاہ صاحب اس کو یوں تحریر کرتے ہیں:
”ان الجہاد عمل شاق، یحتاج الی تعب، و بذلِ مالٍ و مہجة،ٍ و ترک الاوطان والاوطار، فلا یقدم علیہ الّا من اخلص دینہ للہ، وآثر الآخرة علی الدنیا، و صحَّ اعتمادہ علی اللہ“

یعنی جہاد ایک دشوار کام ہے، وہ سخت محنت اور جان و مال خرچ کرنے اور اوطان و حاجات کو چھوڑنے کا محتاج ہے، پس اس کے لئے پیش قدمی وہی شخص کرتا ہے جس نے اپنا دین اللہ کے لئے خالص کیا ہو، اور وہ آخرت کو دنیا پر ترجیح دے، اور اللہ پر اس کا اعتماد درست ہو۔

مدعیانِ ایمان دنیا میں بہت سے افراد ہوتے ہیں لیکن ان میں مومن مخلص کون ہے اور منافق کون؟ اس پہچان کے لئے جہاد ایک معیاری کسوٹی ہے۔ حضرت شاہ صاحب کا یہ فرمان کہ جہاد کے لئے وہی شخص اقدام کرتا ہے جس نے اپنا دین خالص اللہ کے لئے کرلیا ہو، قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

اللہ رب العزت نے ان دونوں فریقوں کا صریح تذکرہ کیا ہے، سورہ توبہ جو منافقین کے رازوں سے خوب خوب پردہ اٹھاتی ہے اس میں اس حقیقت کو بڑے موثر پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلے فریق مجاہدین مخلص مومنین کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:”جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں وہ تم سے رخصت نہیں مانگتے اس سے کہ اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کریں، اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے“۔(سورہ توبہ: ۴۴)

اس سے اگلی آیت میں دوسرے فریق جہاد سے جی چرانے والے منافقین کا حال بیان ہوا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:”تم سے رخصت وہی مانگتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں، سو وہ اپنے شک میں بھٹک رہے ہیں“۔ (توبہ: ۵۴)

ان دو آیات نے مومنین اور منافقین کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ دیا ہے، جس کی روشنی میں ہر فریق اور ہر شخص کے احوال کا بخوبی جائزہ ہوسکتا ہے۔ امام رازی نے اس مقام پر یہی بات تحریر فرمائی ہے: ”اس کلام کا مقصد ایمان والوں اور منافقوں کا فرق بتانا ہے کہ مومن تو جہاد کا اعلان ہونے کے بعد خوب بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے ہیں اور تھوڑا سا بھی توقف نہیں کرتے جبکہ منافقین سوچ میں پڑجاتے ہیں اور طرح طرح کے بہانے اور عذر تراش کر خود کو جہاد سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں“۔(بحوالہ فتح الجواد)

درج بالا دوسری آیت کی تفسیر میں نامور مفسر علامہ آلوسی نے بھی بڑی ایمان افروز بات بیان کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں آیات میں ایمان کے تذکرے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ جہاد پر کھڑا کرنے والی چیز ”ایمان“ ہے اور جہاد سے روکنے والی چیز ”بے ایمانی“ ہے، پس جو شخص ”ایمان“ رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دین اور توحید کی خاطر جہاد کرتا ہے اور اس کے لئے جہاد میں قتل ہونا آسان ہوتا ہے کیوں کہ وہ آخرت کی ہمیشہ والی نعمتوں کا امیدوار ہوتا ہے اور جو شخص ”ایمان“ نہیں رکھتا وہ جہاد میں نہیں جاتا کیونکہ اسے آخرت کے ثواب کی کوئی امید نہیں ہوتی“۔

حضرت شاہ عبدالقادر قدس سرہ نے ”موضح قرآن“ میں اس بنیادی نکتے کو تحریر فرمایا ہے، سورہ توبہ کی آیت نمبر 126 کے تحت لکھتے ہیں:”اکثر جنگ و جہاد کے وقت منافق معلوم ہوجاتے تھے“

ہمارے شیخ و مرشد امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی تفسیر کے آغاز میں ”ابتدائیہ“ کے عنوان سے پوری سورت کا بہترین خلاصہ و نچوڑ پیش کیا ہے، اس میں آپ نے واضح کیا ہے کہ سورہ توبہ میں پانچ طرح کے وہ افراد بیان کئے گئے ہیں جو خود کو جہاد سے دور رکھتے ہیں اور نفاق کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ فتح الجواد کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:
”(۴ ) خود اپنے آپ کو جہاد سے مستثنیٰ رکھنا نفاق کی علامت ہے

کسی شرعی عذر کے بغیر جہاد سے رخصت مانگنا اور خود کو جہاد سے مستثنیٰ رکھنا نفاق کی علامت ہے اس اہم مضمون کا آغاز آیت ۵۴ سے ہوتا ہے.... ا ور پھر سورة توبہ نے وہ پانچ طرح کے افراد بیان فرمائے ہیں جو خودکو جہاد سے مستثنیٰ رکھتے ہیں اور نفاق کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں:
۱)۔ وہ لوگ جو جہاد میں نکلنے کی تیاری ہی نہیں کرتے پھر جب جہاد کا وقت آتا ہے تو بہانے بنا کر خودکو مستثنیٰ رکھتے ہیں اور رخصت مانگتے ہیں۔ (آیت۵۴،۶۴)
(۲۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم جہاد میں نکل بھی گئے تو ہم کمزور ہیں ہم کچھ نہیں کرسکیں گے بلکہ ہم گناہوں اورفتنوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔ (آیت ۹۴)
۳)۔ وہ جو اﷲ پاک کی رضا کے لئے نہیں مال کی خاطر جہاد کرتے ہیں بس جب ان کو مال کم ملتا ہے تو بگڑ جاتے ہیں اور ناراض ہو بیٹھتے ہیں۔ (آیت۸۵)
(۴۔ وہ جو حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم خیال نہیں ہیں اور وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بدگمان ہیں ایسے لوگ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی خاطر لڑنے کو درست نہیں سمجھتے۔ (آیت۱۶)
۵)۔ وہ جو عہد کرتے ہیں کہ ہمیں جب وسعت اور آسانی ملے گی تو ہم جہاد کریں گے پھر جب وسعت مل جاتی ہے تو اسی کے مزے میں پڑ جاتے ہیں اور جہاد نہیں کرتے۔ (آیت۵۷،۶۷) (مفہوم تقریر حضرت لاہوری)“
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 349929 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.