انبیاء کرام کی گستاخی و نافرمانی کی سزا

 حضرت یحیی علیہ السلام کی گستاخی کرنے کی سزا:

دمشق کے بادشاہ حداد بن حداد نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی پھر بغیر حلالہ کے وہ اسے اپنی بیوی بنانا چاہتا تھا اس نے حضرت یحیی علیہ السلام سے فتوی طلب کیا۔ آپ نے فرمایا وہ اب تم پر حرام ہوچکی ہے۔ اس کی سابقہ بیوی کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور وہ حضرت یحیی علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے منصوبے بنانے لگی۔ چناچہ اس گستاخ عورت نے بادشاہ کو مجبور کر کے قتل کی اجازت حاصل کر لی جس وقت حضرت یحیی علیہ السلام کو قتک کرادیا اور آپ کا سر مبارک ایک طشت میں اپنے سامنے منگوایا ۔ کٹا ہوا سر بھی یہی کہتا رہا کہ تو بغیر حلالہ کرائے بادشاہ کے لئے حلال نہیں۔ چناچہ اللہ تعالی کے مقدس نبی حضرت یحیی علیہ السلام کی شان میں بے ادبی کرنے کے جرم میں سزا ملی کہ وہ عورت زمین دھنس گئی۔ ( ملاحظہ ہو البدایہ والنہایہ ج 2 ، صفحہ 55)
مسلمانو! یاد رکھو اس انسان سے زیادہ بد بخت اور کوئی انسان نہیں ہو سکتا جو انبیا علیھم السلام کے ناموس کو تار تار کر کے رکھ دیتا ہو حالانکہ یہ وہ مقدس اور برگزیدہ ہستیاں ہوتی ہیں جو نہ کسی کو ستاتی ہیں اور نہ ہی کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالتی ہیں جو بغیر کسی اجرت کے انسانوں کی اصلاح کر کے انہیں فلاح و سعادت دارین کی عزتوں سے سرفراز کرتی ہیں ۔ انبیا کی عزت و ناموس سے کھیلنے والوں کو اللہ تعالی اپنے قہر و غضب سے دونوں جہاں میں ملعون کر دیتا ہے۔ محبوبان خدا سے دشمنی رکھنا ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
حضرت موسی علیہ السلام کی نافرمانی کی سزا

حضرت موسی علیہ السلام کی نا فرمانی کی سزا:

بلعم بن باعورہ اپنے دور کا بہت بڑا عابد و زاہد اور جید عالم دین تھا۔ اسے روحانیت میں بڑا کمال حاصل تھا۔ وہ عرش اعظم کو اپنی جگہ بیٹھ کر دیکھ لیا کرتا تھا۔ بارگاہ خداواندی میںاس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ جو دعا منانگتا قبول ہو جایا کرتی تھی۔
جب حضرت موسی علیہ السلام سرکش اور نا فرمان قوم جبارین سے جہاد کرنے کے لئے روانہ ہوئے تو یہ قوم گھبرا گئی اور بلعم ب باعورہ کے پاس آئی اور رو رو کر کہنے لگی اے بلعم حضرت موسی علیہ السلام ایک طاقتور فوج کے ساتھ ہماری قوم پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ آپ چونکہ اللہ کے مقرب اور محبوب بندے ہیں آپ کی دعا قبول ہوتی ہے لہذا آپ حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے لشکر کے لئے ایسی بد دعا کریں کہ وہ شکست کھا کر پلٹ جائیں۔ یہ سن کر بلعم بن باعورہ کانپ اٹھا اور کہنے لگا خدا کی پناہ! حضرت موسی علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں اور ان کے لشکر میں مومنوں اور فرشتوں کی جماعت شامل ہے ایسی مقدس ہستی پر میری جرات نہیں ہو سکتی کہ میں ان کے لئے بد دعا کروں ۔ مگر نا فرمان اور بے ادب قوم کا یہ حال تھا کہ وہ مسلسل رو رو کر اور گڑ گڑا کر اصرار کرنے لگی حتی کہ بلعم بن باعورہ کا دل نرم پڑگیا اور کہنے لگا پہلے میں استخارہ کروں گا اگر مجھے اللہ کی طرف سے اجازت مل گئی تو بددعا کر دوں گا۔ ۔ جب استخارہ کیا تو اسے اجازت نہیں ملی۔ پھر اس نے اپنی قوم سے ساف صاف کہہ دیا کہ اگر میں اللہ کے نبی کے لئے بد دعا کی تو میری دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد ہو جائیں گی۔ لہذا میں بد دعا نہیں کر سکتا۔ قوم جبارین نے مال و دولت اور گراں قدر تحفے اس کی خدمت میں پیش کئے
یہاں تک کہ بلعم بن باعورہ پر حرص و طمع کا بھوت سوار ہو گیا اور مال و دولت کے لالچ میں ایسا مبتلاہوا کہ وہ گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لئے چل دیا راستہ میں کئی بار ایسا ہوا کہ گدھی ٹھر جاتی اور منہ موڑ کر بھاگنا چاہتی ۔ مگر یہ اس کو مار مار کر آگے پڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے گدھی کو قوت گویائی عطا کی۔ گدھی بولی! اے بلعم بن باعورہ تجھ پر افسوس کہ اللہ کے نبی اور مومنین کی جماعت کے لئے بد دعا کرنے جا رہا ہے ۔ دیکھ میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روکتے اور میرا منہ دوسری طرف کرتے ہیں۔ گدھی کی ان باتوں کا اس پر ذرا اثر نہ ہوا۔ حتی کہ وہ ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور حضرت موسی علیہ السلام کودیکھنے لگا ۔ مال و دولت کے لالچ نے اسے مدہوش کر دیا تھا۔ چناچہ اس نے اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت موسی علیہ السلام کے لئے بد دعا شروع کردی ۔ لیکن خداوند قدوس کی شان دیکھئے کہ وہ بد دعا تو حضرت موسی علیہ السلام کے لئے کرنا چاہتا تھا مگر بد دعا اس کی قوم کے لئے اس کی زبان پر جاری ہو جاتی تھی ۔ قوم نے جب یہ دیکھا تو اسے ٹوکا کہ اے بلعم تم تو ہمارے لئے بد دعا کرنے لگ گئے ۔ بلعم کہنے لگا اے قوم کے لوگو! میں کیا کروں میں بولتا کچھ اور ہوں اور میری زبان سے نکلتا کچھ اور ہے ۔ پھر اچانک اس پر خداوند قدوس کا قہر نازل ہوا۔ یکایک اس کی زبان لٹک کر سینے پر آگئی پھر رو رو کر اپنی قوم سے کہنے لگا کہ افسوس میری دنیا و آخرت برباد ہوگئیں۔ نبی کی شان میں بے ادبی کرنے پر میرا ایمان جاتا رہا اور میں غضب الہی میں گرفتار ہو گیا افسوس اب میری کوئی دعا اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہو سکتی۔ ( ملاحظہ کیجیئے تفسیر صاوی جلد دوئم صفحہ 94، تفسیر جلالین سورہ اعراف پ 9، رکوع 22)
مسلمانو! بلعم بن باعورہ کی المناک داستان کا ذکر قرآن مجید میں سورہ اعراف میں آیا ہے جس سے حقیقت کا پتہ چلا کہ بلعم بن باعورہ کیا تھا اور پھر کیا ہو گیا، مال و دولت کے لالچ اور حرص و طمع نے اسے ایسا جکڑا کہ اس کے لالچ میں اللہ کے نبی کے لئے بد دعا کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ جب تک باادب تھا تو اسے وہ مقام و مرتبہ حاصل رہا کہ مستجاب الدعوات ہوا۔ مگر جب ایک نبی کا بے ادب ہوا اور ان کی شان و عظمت اور ناموس سے کھیلنے کے لئے آیا تو دنیا و آخرت میں ایسا ملعون و مردود ہوا کہ عمر بھر کتے کی طرح لٹکتی ہوئی زبان اپنے سینے پر لئے پھرا۔ سارے اعمال برباد ہوگئے تمام مراتب و کمالات چھین لئے گئے اور جھنم کی بھڑکتی ہوئی شعلہ بار آگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایندھن بن گیا۔

وم نوح کی تباہ کاری:

حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالی کے بہت ہی برگزیدہ نبی گزرے ہیں۔ آ پ کی عمر بہت لمبی تھی ۔ آپ تقریبا ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دین حق کا پیغام سناتے رہے۔ مگر اس کے باوجود وہ غافل اور نا فرمان قوم آپ کی نبوت پر ایمان نہ لائی بلکہ آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر شیطانی کردار ادا کرتی رہی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا اس ظالم قوم نے اللہ کے اس مقدس نبی کو اس قدر اذیت پہنچائی کہ آپ کو ہوش کر دیا اور آپ کو مردہ خیال کر کے کپڑے میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا۔ مگر اس کے باوجود آپ مسلسل ان کے حق میں دعا فرماتے ۔ اللہ تعالی کے غضب سے بچانے کے لئے آپ فرماتے ان کے لئے دعائے خیر کرتے۔ آپ فرماتے ! اے میرے رب تو میری قوم کو معاف فرمادے اور ان کو ہدایت عطا فرما۔ جب اس قوم کی نافرمانیاں حد سے تجاوز کر گئیں تو اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی اور حکم ارشاد فرمایا اے نوح علیہ السلام اب تک جو لوگ مومن ہو چکے ہیں ان کے سوا دوسرے لوگ تم پر ایمان ہر گز نہیں لائیں گے۔ لہذا آپ ایک کشتی تیار کریں۔ حکم الہی سنتے ہی آپ کشتی تیار کرنے لگے جو 80 گز لمبی 50 گز چوڑی تھی۔ سو سال تک کی مسلسل جدوجہد کے بعد لکڑی کی یہ تاریخی کشتی تیار ہوئی۔ جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی نافرمان قوم آپ کا مذاق اڑاتی۔ کوئی کہتا اے نوح! تم بڑھئی کب سے بن گئے ۔ کوئی یہ کہتا اے نوح1 اس زمین پر کیا تم کشتی چلا گے؟ کیا تمھاری عقل ماری گئی ہے ؟(نعوذ باللہ) غرض طرح طرح سے آپ کا مذاق اڑایا جاتا۔ آپ ان کے جواب میں صرف یہی فرماتے کہ اے نافرمانو! آج تم میرا مذاق اڑا رہے ہو جب خدا کا عذاب طوفان کی شکل میں آئے گا تو پھر تمہیں حقیقت کا پتہ چلے گا۔اللہ تعالی نے وحی کے ذریعہ طوفان آنے کی یہ نشانی بتا دی کہ آپ کے گھر کے تنور سے پانی ابلنے شروع ہوگا ۔ چناچہ پتھر کے اس تنور سے ایک دن صبح صبح پانی ابلنا شروع ہو گیا۔ اسی طرح اللہ تعالی کے عذاب اور قہر و غضب کا آغاز ہوا آپ نے کشتی میں درندوں، چرندوں، پرندوں اور مختلف قسم کے حشرات الارض کا ایک ایک جوڑا نر مادہ سوار کرادیا۔ آپ اور آپ کے تین بیٹے حام، سام، یافث اور ان تینوں کی بیویاں آپ کی مومنہ بیوی اور 72 دیگر مومنین مرد و عورت اسی طرح کل 80 انسان کشتی میں سوار ہو گئے۔ آپ کی ایک بیوی جس کا نام واعلہ تھا آپ پر ایمان نہیں لائی تھی۔ اسی طرح آپ کا ایک بیٹا جس کا نام کنعان تھا وہ بھی آپ پر ایمان نہیں لایا تھا یہ دونوں کشتی میں سوار نہیں ہوئے ۔ زمین سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے اور سیاہ بادلوں نے زمین کو گھیر لیا اور مسلسل چالیس روز تک مسلادھار بارش برستی رہی اس طرح آسمان سے برسنے والا بارش کا پانی اور زمین سے نکلنے والے پانی کے دھاروں نے زمین پر ایسا طوفان برپا کیا کہ چالیس چالیس گز اونچے پہاڑوں کی چوٹیاں ڈوبنے لگیں۔
حضرت نوح علیہ السلام مومنین کی کل جماعت کے ہمراہ کشتی میں سوار تھے۔ اس طوفان نے زمین پر وہ تباہی مچائی کہ 80 مومنین کے سوا ساری قوم غرق ہو کر ہلاک ہو گئی اور ان کا نام و نشان ایسا مٹا کہ ان کے وجود کا کوئی حصہ بھی باقی نہ رہا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی چھ مہینے تک طوفانی موجوں پر ایک کمزور تنکے کی مانند ہچکولے کھاتی، چکر لگاتی رہی۔ یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے قریب سے گزری اور سات چکر لگا کر اس مقدس جگہ کا طواف کیا۔ پھر اللہ تعالی کے حکم سے یہ کشتی عراق کے شہر جزیرہ کے قریب جودی پہاڑہ پر آکر ٹھر گئی ۔ جس دن یہ کشتی جودی پہاڑی پر ٹھری وہ دس محرم کا دن تھا۔ جب شیطان قوتوں کا خاتمہ ہو گیا تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا تجھ پر جس قدر پانی ہے سب پی لے ۔ اے آسمان تو اپنی بارش بند کر دے۔ چناچی بارش رک گئی اور پانی کم ہونا شروع ہوا اور پہاڑ کی چوٹیاں نظر آنے لگیں۔اللہ تعالی نے حجرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اے نوح! اب آپ کشتی سے اتر جائے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی سے اتر کر سب سے پہلے جو پستی بسائی اس کا نام ثمانین رکھا۔ عربنی زبان میں ثمانین کے معنی (80) ہوتے ہیں۔ چونکہ کشتی میں 80 افراد تھے اس لئے اس کا نام ثمانین رکھا۔ آپ کی نسل میں بے پناہ برکت ہوئی کہ آپ کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل کر آباد ہو گئی۔ اسی لئے حضرت نوح علیہ السلام کا لقب آدم ثانی بھی ہے۔
اس تاریخ ساز واقعی کو تفصیلا قرآں مجید میں سورہ ہود کے چوتھے رکوع میں ملاحظہ کیجیئے اور تفسیرصاوی جلد دوئم صفحہ 182 تا 185 ملاحظہ کیجیئے ۔
مسلمانو! حضرت نوح علیہ السلام کے اس واقعہ میں بڑی بڑی عبرتوں کے سامان موجود ہیں جن سیمومنین کے قلوب انوار و تجلیات سے منور اور روشن ہو جاتے ہیں اور شیطان کے پیروکار اور نبی کے گستاخوں کے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں ۔ کنعان حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا مگر بے ادب تھا وہ بھی غضب الہی کا شکار ہوا جس سے واضح ہوا کہ اللہ کو بھی وہ لوگ پسند ہیں جن کے دل میں اللہ اور اس کے محبوب نبیوں کے عشق کا چراغ روشن ہو اگر کسی کے دل میں یہ چراغ شعلہ زن نہیں تو خواہ وہ کتنا ہی عزیز اور قریب کیوں نہ ہو اللہ کے قہر کا شکار ہو جاتا ہے اور انبیا کی شان میں کستاخی کرنے والوں کو عذاب الہی اپنی گرفت میں لیکر نیست و نابود کر ڈالتا ہے
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1301959 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.