ترے ہی ذکر سے معمور ہے حیات مری....!

ساری کائنات کے خالق ومالک اللہ ربّ العزت کا یہ فضل و احسان ہے کہ اُس نے زمین پر ہماری آمد سے پہلے ہی ہماری انتہائی اہم ضروریات کی تکمیل کا کامل انتظام فرما یا۔وہی تو ہے جس نے ہمارے لئے آسمانوں اور زمین کی ہرشئے مسخرکر دی ۔ایک طرف تو اُس نے ہمیں بہترین ساخت پرپیدا کیاتو دوسری طرف ہماری حفاظت کا بہترین انتظام فرما یا۔ ہماری ضرورت کی ہر شے فراہم فرمائی ۔جو ہر دم حاضر ِ خدمت ہے۔ ذرا ہم غور تو کریں!ہمارے سروں پر یہ نورانی کرنیں بکھیرنے والا چاند ، یہ سلگتا،دہکتا اور چمکتاہواکرّہ جسے ہم سورج کہتے ہیں، تھکے بغیر ، رکے بغیر مسلسل گردش کرتی ہوئی ہماری یہ زمین ، یہ و بلند و بالا مگرپر شکوہ ساکت و جامد پہاڑ، یہ سروں پر تھوڑے سے فاصلے پر منڈلاتے پانی سے لدے ہوئے یہ کالے اُجلے بادل اور اِن سے برسنے والی کبھی رم جھم کرتی ،کبھی موسلا دھار بارش، یہ نگاہوں کو لبھانے والی لہلہاتی کھیتیاں اوریہ سرسبز و شاداب باغات و نباتات اور اِن میں ترکاریوں اور پھلوں کے خزانے،دراصل یہ سب کیا ہیں؟کس قدر بے تعلق ہوگئے ہیں ہم اِن نعمت ہائے خداوندی سے جن کا باہمی ارتباط ایک ایسے نظام کا ضامن ہے جو ہماری غذا کی فراہمی کا سبب بنتا ہے اور ہماری خدمت گزاری کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔کس قدر عظیم احسان ہے رب تعالےٰ کا کہ اُس نے اِس عظیم نظام کے ذریعہ اپنی برکتوں اور اپنی رحمتوں کا کبھی ختم نہ ہونے والاسلسلہ جاری کر رکھا ہے جو دنیا کے سات سو کروڑ انسانوں کو بہ یک وقت فیض پہنچا رہا ہے۔ سطحِ زمین پر اگر ایک ہی فرد موجود ہوتا توتب بھی کائنات کایہ انتظام اس ایک آدمی کی خدمت میں بلاچوں چرا لگا ہواہوتا۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا رب ہم پر اپنی رحمتیں نچھاور کرنے میں کس قدر مہربان ہے اورایک ہم ہیں کہ اُس بے نیاز رب کائنات کی ان بے پایاں نوازشوں کے باوجود اپنے تشکر کے اِظہار سے بے نیازی برتنے کو اپنی شان سمجھتے ہیں۔آخر وہ اِن نوازشوں کے بدلے میں ہم سے اِس سے زیادہ اور کیا چاہتا ہے کہ ہم اپنے قلب و ذہن کی آمادگی کے ساتھ اور ارادے کا جو اختےار ہمیں حاصل ہے اُسے استعمال کرتے ہوئے اپنے وجود کواس کی جناب میں سونپ دےں!!شکر گذاری کی روش اپنی ذات میں پیدا کریں۔اپنے اندر ہم نرمیHumbleness اور خاکساری کے جذبات پیدا کرلیں، جبکہ اُ س کی رحمت کا یہ عالم ہے کہ ہم اگر بد قسمتی سے شکر گزار نہیں بنتے ہیں تو وہ اِن نعمتوں سے ہمیں محروم بھی کرنے والا نہیں ہے۔ اگرذاتی طور پربھی ہر شخص ، خود اُس کی ذات پر کی گئی نوازشوں و نعمتوں پر غور کرے ، تو اسے اپنے رب کی ربوبیت کا ادراک ہوگا اور اُس کے احسانات کو وہ محسوس کر پائے گا۔ انسان کا معاملہ بھی بڑا عجیب و غریب ہے، جب تک اُس کے پاس کوئی نعمت موجود رہتی ہے، تب تک وہ اُس کی موجودگی کے احساس ہی سے بے نیاز یا بے حسی کی حد تک لا تعلق Carelessبنا پھرتا ہے ۔ اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں پر ناز کرتا ہے بلکہ اپنے وجودہی کو اپناذاتی کرشمہ سمجھنے لگتا ہے ۔ یہی رویہ اُسے اپنے رب کی شکرگزاری کے سلسلے میں بے حس اور اِظہار تشکر کے معاملے میںبے نیاز بنا دیتاہے ۔لیکن جب اُس کی یہ روشِ ناشکری اور خصلتِ ناقدری نعمت کے اُس سے چھن جانے کا باعث بن جاتی ہے، تو تب اُسے اِس قدر و قیمت کا احساس ہونے لگتا ہے اور نعمت سے محرومی اُس کے سینے میں گھٹن کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔اُس کی تنہائیاں کبھی کبھی رب کے در پر اُسے پہنچا بھی دیتی ہیں۔اگر ندامت کے آنسواُس کی آنکھوں سے چھلک کر اُ س کے رُخسار پر ڈھل جاتے ہیں تو رحمتِ اِلٰہی کو جو ش آتا ہے اور وہ اپنے بندے کی مخلصانہ ندامت کا قدردان بن جاتا ہے اور ممکن ہے وہ اُسے دوبارہ اُس کی گمشدہ نعمت سے نواز بھی دے۔چنانچہ درگزری بھی اللہ کی ایک نعمت ہی ہے جو نعمت ہی کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے۔ کیا ہم سے ان نعمتوں کا شمارممکن ہے؟ ہر گز نہیں، اُس کی نعمتوں کا شمار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ایسی ہر کوشش ناکام جائے گی۔ اِ س طرح اس کی لاتعداد نعمتیں اپنے بندوں پر ہر لمحہ سایہ فگن ہیں، چاہے ہم اُس کی شکرگزاری کی سعادت حاصل کرتے ہیں یا احسان فراموشی کے رویہ ہی کو اپنے لیے پسند کر لیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ رحمٰن ہے ، وہ رحیم ہے۔ اُس کی رحمت کا اندازہ ہم سے ناممکن ہے۔
تیری عظمت کے مقابل مرا سجدہ کیا ہے
کوہ احسان ترے ، شکر مرا رائی ہے

رب تعالیٰ نے چودھویں سورة کی چوتیسویں آیت میں ارشاد فرمایا ہے:” اور تمہارے رب نے تمہاری ضرورت کی ہر وہ چیز تمہیں دی، جس کی تمہاری فطرت (اس دنیا میں زندگی گذارنے کے لئے) سوال کر سکتی تھی اوراگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو، تو ان کا شماربھی ممکن نہیں۔ مگر ظالم انسان ناشکری کرکے اپنے آپ کا نقصان کر بیٹھتاہے۔ “

دراصل انسان کا معاملہ ہی ایسا ہے۔ اسی لئے حدیث شریف میں ایک مضمون ملتا ہے ہمیں۔ ( امام رزین ۔ بحوالہ جامع الاصول ۱۱ / 687)عَن اَبِی ھُرَیرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ قَالَ اَمَرَنِی رَبّیِ بِتِسعٍ : خَشیَةِ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالعَلَانِیَةِ وَکَلِمَةِ العَدلِ فِی الغَضَبِ وَالرِّ ضٰی وَالقَصدِ فِی الفَقرِ وَالغِنٰی وَاَن اَصِلَ مَن قَطَعَنِی وَاُعطِیَ مَن حَرَمَنِی وَاَعفُوَ عَمَّن ظَلَمَنِی وَاَن یَکُونَ صَمتِی فِکرًا وَنُطقِی ذِکرًا وَنَظَرِی عِبرَةً وَآمُرَ بِالعُرفِ وَقِیلَ بِالمَعرُوفِ ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے :چھپے اور کھلے ہر حال میں اللہ کی خشیت اِختیار کروں ....حالتِ غضب ہو کہ خوشی ، ہر کیفیت میں عدل کی بات کروں....تنگ دستی ہو کہ تونگری ہر حالت میں میانہ روی اختیار کروں....جو مجھ سے قطعِ تعلق کرے ، میں اس سے جڑجاﺅں....جو مجھے محروم کردے ، میں اسے عطا کروں....جو مجھ سے ظلم کا رویہ اختیار کرے ، میں اس کے ساتھ عفو و درگذر کا معاملہ کروں ....میری خاموشی غورو فکر سے معمور ہو.... میں اپنے نطق کا استعمال کروں تواللہ کی یاد اور ذکر کے تحت ہی کروں.... میرا دیکھنا عبرت کا د یکھنا بن جائے.... معروف اور اچھی باتوں کا حکم کرتا رہوں، اور منکرات اور بری باتوں سے منع کرتا رہوں۔“

کسی کی معاشی حالت جیسی کچھ بھی ہو، ایک ایک انسان رب تعالیٰ کے نزدیک ایک منفردUniqueوجودرکھتا ہے۔ اس کا جو چہرہ بنایا، ویسا چہرہ اُس نے کسی کا بھی نہیں بنایا، اور نہ کبھی بنائے گا۔اگر جڑواں بچے بھی ہوں تو اُن کے چہرے سرسری نظر سے ایک جیسے دکھائی دیں گے، لیکن یہ بالکل یکساں نہیں ہوں گے اور کسی نہ کسی پہلو سے یہ الگ الگ ہی ہوں گے۔اسکی انگلیوں کے نشانFinger Printsبھی ایسے بنائے کہ کسی اور کی انگلیوں سے کوئی میل نہ کھائےں۔ جدید میڈیکل سائنس تو اب اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ بالوں کی موٹائی سے لے کر اُس کی جڑوںتک ، اُس کی آنکھ کے سائز سے لے کر اُس کے دیدے کی گولائی تک کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا مماثل نہیں ہو سکتا۔یعنی ہر انسان اپنی جگہ Uniqueہوگا۔پھر اِس زمین پر بسنے والا ہر انسان اِلٰہی سیکوریٹی کے حصار کے ساتھ زندہ رہے گا چاہے وہ نیند کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو۔ہر انسان پر اللہ کی یہ خصوصی نعمت ہے جس کے حصار میں وہ محفوظ ومامون ہے۔ یہ تحفظ کسی سکوریٹی پرسنل فراہم کرنے والی کمپنی کی طرح نہیں ہے کہ جس کے گارڈ دولت مندوں کی دولت یا اقتدار کی قوت کے بل بوتے پر فراہم کر لیے جاتے ہیں۔ اِس کے باوجود خود یہ گارڈ ہر وقت اپنی جان کے خوف کے سائے میں زندگی گزارتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی مارے بھی جاتے ہیں یااِن گارڈز کے ہاتھوں ہی Guarded VIPs کا قتل ہو جاتا ہے۔ بلکہ جس تحفظ کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ اللہ کی فراہم کردہ سیکوریٹی ہے۔ اِس کا تذکرہ اللہ نے اپنی آخری کتاب کی چھیااسی ویں سورة کی چوتھی آیت میں کیا ہے:” کو ئی شخص ایسا نہیں ، جس پر محافظ نہ ہوں۔(اسے سیکیورٹی فراہم نہ کی گئی ہو)۔“یہ وہ سیکوریٹی ہے جو رب تعالیٰ کی فراہم کردہ ہے جو ہر اولادِ آدم علیہ السلام کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔اللہ کی نظر میں اُس کا ہر بندہ.... وی آئی پی ....ہے۔ کیونکہ وہ اس کی شاہکار مخلوق ہے۔ جسے رب نے اپنے دست قدرت یعنی اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔اسے اپنی مخلوق سے بہت پیار ہے۔اسکے پاس مخلوق کے لئے انتہائی مہربانیاں اور رحمت کے خزانے ہےں۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ محض اُس کے رحم ہی کا طفیل ہے کہ ہم صحت مندی کے ساتھ زندہ دکھائی دیتے ہیں۔ رب تعالیٰ نے زمین کی دیگر مخلوقات کے مقابلے میںایک زبردست نعمت بھی ہمیں عطا کی ہے ، اور وہ عقل کی نعمت ہے۔یہ ہماری عقل، یا Common Sense یا ہمارا Intellect ہی ہے جس کے سبب دیگر مخلوقات پرہمیں فوقیت حاصل ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ اتنا سب کچھ ہمارے پاس ہے پھر بھی ہم اپنے آپ کوغریب کہتے ہیں یا ہمارے مادہ پرست سرپرستوں یا رہنماﺅں نے ہم پر تصورِ غربت تھوپ دیا ہے۔آخر ہم کیوں غربت یا پس ماندگی کے نام پر اپنی کمیوں کا ، اپنے Negativesکا روناروتے پھرتے ہیں؟ کبھی ہم رب کی جانب سے عطا کردہ اِن نعمتوں پر غوربھی کرپاتے ہیں؟ یہ جوہمیں دو آنکھیں اُس نے عطا کی ہیں؟ کوئی ہے جواِن کی قیمت مقرر کر سکے۔یا خریدنے کی جر ¿ت کر سکے۔ اس نے ہمیں دو پاﺅںاوردو ہاتھ جو عطا کیے ہیں ذرا اِن کی ساخت تو ملاحظہ کریں کہ ہزاروں کمپیوٹرس پر یہ کس قدر بھاری ہیں۔بلکہ اِن ہی ہاتھوں اور انگلیوں سے ہم زبردست
Configurationsکے کمپیوٹر س بنا لیتے ہیں۔پھر ذرا ہم اپنی قوتِ سماعت ہی کو دیکھ لیں تو اِس نعمت کی عظمت کا احساس کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔پھر دل و دماغ کی کیفیتوں میں پوشیدہ نعمتوں کو دیکھیں تو بار ِ تشکر سے جبینِ نیازجھک جائے ۔ اِن بیش بہا نعمتوں سے فیض یابی کا انسانی رد عمل کیا ہے؟ خدا کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں جو تیئسویں سورة کی اٹہترویں آیت میں موجود ہیں:” اوروہی اللہ ہے جس نے تمہیںسماعت، بصارت اور کیفیت دل عطا کی،(تم میں) بہت تھوڑے ہیں جو شکر ادا کرتے ہو۔ “

واضح رہے کہ شکر بجا لانے میں خود ہمارا ہی فائدہ ہے کہ اگرہم اِن نعمتوں کو یاد کرتے ہیں تو ہم میں صبرو شکر کے جذبات جنم لیں گے، احساسِ محرومی جاتا رہے گا، ہماری زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی رو نما ہوگی۔ ہماری سوچ کو مثبت رخ میسر ہوگا۔منفی جذبات رخصت ہو جائیںگے۔ توکل باللہ فزوں تر ہوگا:قرآنِ الحکیم کی ستائیسویں سورة النمل کی چالیسویں آیت میں ارشاد فرمایا گیا :” .... (حضرت سلیمان ؑکا اپنے رب کی نعمتوں پر یہ اعلان تھا کہ) یہ سب میرے رب کے فضل سے ہے۔ دراصل اس طرح وہ مجھے آزماتاہے(میرا امتحان لیتا ہے کہ) آیا میں شکر ادا کرتا ہوں، یا ناشکری اورناقدری کرتا ہوں !!! اورجو کوئی شکر بجالاتا ہے، تو درحقیقت وہ اپنے ہی مفاد میں مشکور بنتا ہے اور جو ناشکری(کا رویہ اختیار) کرتا ہے، تو بےشک میرا رب ہے ہر طرح سے غنی (اور ہر ضرورت سے بے نیاز) بڑے اکرام والا۔“

اس میں اللہ رب العزت کے ایک جلیل القدر نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کے اِظہار سپاس کا ایک مہتمم بالشان نمونہ ملتا ہے کہ کس طرح وہ رب تعالےٰ کی نعمتوں پر اپنے رد عمل کا اظہار فرماتے ہیں۔ وہ ان نعمتوں کا کریڈٹ صرف اللہ کے فضل کو دیتے ہیں۔وہ فوراً عرض فرماتے ہیں.... ھٰذَا مِن فَضلِ رَبِّی .... ” یہ سب مجھ پر میرے رب کافضل ہے .... “ لِیَبلُوَنِی ئَ اَشکُرُ اَم اَکفُرُ .... ” اس طرح وہ مجھے آزماتا ہے کہ میں شکر گذاری والے اعمال کرتا ہوں یا ناشکری والے۔ “ اپنے وقت کے سُپر پاور کے سربراہ کی دعا ستائیسویں سورة کی اُنیسویں آیت میں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے:”(نعمتوں کے حصول پر حضرت سلیمان علیہ السلام دست بہ دعا ہو جاتے ہیں:) اے میرے رب! مجھے توفیق دیجیوکہ میں شکر ادا کروںآپ کی نعمتوں کا ،(وہ نعمتیں) جو آپ نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہیں۔ اور(یہ کہ) میںآپ کی رضاکے نیک کام سرانجام دینے والا بنوںاور مجھے اپنی رحمت کے حوالے سے اپنے نیک بندوں میں شامل فرما لیجیے۔ “

حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہ سنت قرآن میں درج ہی اِس لیے ہے کہ اِس میں ہم درس ہائے عبرت تلاش کر لیں کہ اِس قدر عظیم سلطنت .... ایسی عظیم ....کہ چشمِ فلک نے ایسی سلطنت پھر کبھی نہیں دیکھی....کی خاکساری کا کیا عالم تھا۔آج زمین کے ایک خطے پر ووٹوں کے توڑ جوڑ سے برسرِ اقتدار آنے والے دورِ جدید کے لیڈرا ن کی اکڑ، تکبر اور گھمنڈ کو تو ذرادیکھیں کہ زمین پر اِن کے پیر نہیں ٹکتے۔ بھول کر بھی اپنے رب کا شکر نہیں بجا لاتے۔اور ایک پیغمبرِ وقت ہے کہ اپنی شہنشاہیت کے جاہ وجلال کا کوئی اثر اپنی خاکساری ، تواضع پر Humility پر پڑنے نہیں دیتا۔ اکڑ، تکبر، گھمنڈ اور Egoکا نعوذ با اللہ کہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا۔کیا اب بھی ہم اپنی روش پر غور نہیں کریںگے۔ جوکچھ ہمارے پاس ہے ، کیا وہ کم ہے کہ ہم شکرِ باری تعالےٰ سے بے نیاز ہو جائیں۔!!کب تک ہم منفی نفسیات وجذبات کی پرورش کرتے رہیں گے اور کب تک اپنی قسمت کا رونا روتے رہیں گے اور کس سے اور کب تک شکایا ت کرتے رہیں گے؟اگر ہم کو دولت مندی یا اقتدار سے نوازا گیا ہے تو کب تک ہم اتراتے اور اکڑتے پھریں گے۔؟یہ ہماری انا کا کیسا حال ہے کہ دل میں شکراور Gratitude کے جذبات کو پنپتے کا موقع تک نہیں ملتا۔ ہم نے اِن نعمتوں کو Granted Taken for کی طرح تونہیں لے لیا ہے! کبھی کبھی یہ جو الحمد للہ ، سبحان اللہ کے الفاظ ہمارے منہ سے نکلتے رہتے ہیں کیا ہم اِن سے شکر کا حق ادا کرپاتے ہیں(اگرچہ کہ یہ الفاظ بھی بڑی سعادت کی بات ہیں) جب کہ نعمتوں پر شکر عملاً کیا جانا ضروری ہے۔کیاہم کبھی فکر مندی کا اِظہار کرتے ہیںسماج کے ان لوگوں کے بارے میں جو بعض نعمتوں سے محروم رکھے گیے ہیں؟ جن کے وسائل محدود ہیں؟ کیا ہمارے دلوں میں کبھی حقداروں کے حقوق کی ادائیگی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔؟ کیا ہم اپنے والدین،اپنے پڑوسیوں، اپنے اطراف اور قدم قدم پر موجود یتیموں ، بیواﺅں اور مساکین کا کبھی خیال کرتے ہیں؟ کیا خاندان، سماج، سوسائٹی اورملک کے تئیں ہم اپنی وفاداری کا ثبوت دینے میں سنجیدہ بھی ہیں؟ کیا ہم دنیا کے لئے کبھی نفع بخش بھی ثابت ہوپاتے ہیں، یاثابت ہونے کی آرزو رکھتے ہیں؟ کیا ہم حاصل شدہ نعمتوں کی فروانی کے درمیان عائد ہونے والی اپنی تمام ذمہ داریوں کو اپنے ماحول میں ادا کرنے کا کبھی احساس کرتے ہیں؟ کیا ان وسائل کو جو ہمیں حاصل ہیں دوسروں کے ساتھ بانٹنے کی کبھی کوشش کرتے ہیں؟ فلاحیCharitable کاموں میں ہم Contribute کرنے کو کبھی آگے بڑھتے ہیں ؟دولت کی فروانی میں کیا کبھی کسی بھوکے کی یادہمیں آتی ہے؟ کیایتیم ، یسیر اور Have Nots کے بارے میں بھی دل مچلتاہے کہ اُن کی مدد کو دوڑیں؟کب تک ہم خود اپنی ذات کے لیے ہی وقف رہیں گے۔کب تک ہم Self Satisfied اور Self Centered ہوتے جائیں گے۔ ہمارا چیک کوئی اور نہیں کرے گا۔ہمیں خود ہی اپنے آپ کو چیک کرنا ہوگا اورہمیں خود ہی اپنی اصلاح کی کوشش کرنی ہوگی۔اپنے گھروں، دکانوں، کارخانوں اور کاروں پر ھٰذَا مِن فَضلِ رَبِّی کی تختی لگا کر ہم مطمئن تو ہوجاتے ہیں؟ جو بلاشبہ رب ہی کا فضل ہے لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کو یاد کریں اُنہوں نے صرف اتنا ہی نہیں کہا تھا، بلکہ آگے کے الفاظ یہ ہیں: ” اس فضل کے ساتھ مجھے میرا رب آزماتا ہے کہ میں شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری۔ اورجو کوئی Gratitudeکے جذبات رکھتا ہے اور شکر بجالاتا ہے، تو درحقیقت وہ شکر ادا کرتا ہے اپنی ہی ذات کے فائدے کے لئے اور جوکوئی ناقدری و ناشکری کرتا ہے، تو بےشک میرا رب تو غنی ہے، بے نیاز ، High Dignity اور اکرام والا ہے۔ “

ہم اگر شکر ادا کریں گے تو اس سے ہم اپنا ہی بھلا کریں گے۔کیوں کہ رب تعالیٰ کو ہمارے شکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے آپ میں غنی اور حمید ہے۔ ہم ہوں یا کائنات کی کوئی اور مخلوق سب کے سب مل کر اگر رب کی نا شکری کا منصوبہ بھی بنا لیں تو اِس سے رب تعالیٰ کی ربوبیت اور اُس کی عظمت وجلال میں کوئی فرق واقع ہونے والا نہیں ہے۔کوئی اس کاکیا بگاڑ سکے گا یا اُ س کا کیا نقصان کر سکے گا۔بلکہ وہ توخود اپنا ہی نقصان کر لے گا۔چودھویں سورة کی آٹھویں آیت میں رب تعالےٰ ارشاد فرماتا ہے:”.... اگرتم اس زمین کی تمام مخلوق(کے ساتھ مل کر) ناشکری (کا تہیہ کرلو) تو تمہاری(یہ Combined) ناشکری سے اللہ کو کوئی فرق پڑنے والا نہیں ۔بے شک اللہ تو بے نیاز، Self-Sufficient ، غنی اور حمید ہے۔ “اگر ہم شکرگزاری اور سپاس شناسی کی زندگی کا تہیہ کرلیتے ہیں توچوتھی سورة کی ایک سو سینتالیسویں آیت ہمیں تسلی دیتی ہے :” آخر(قدردان) اللہ تمہیںکیوں کر سزا کا مستحق ٹہرائے گا، اگر تم شکر گزار اور ایماندار بنے رہوگے۔ بیشک اللہ تونہایت قدردان ہے، علم والا ہے۔ “

ہم شکر ادا کریں اپنے پیدا کرنے والے کا، ہم ایماندار بنیں اُس کے ، جس نے ہماری ضرورت کی ہرچیز مرحمت فرمائی ہے۔اور سب سے بڑی چیز جس پر ہم اپنے رب کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے وہ یہ کہ اس نے ہماری نجات کے لئے ایک ایسی کتاب نازل فرمائی ، جس میں ہماری آخرت کو کامیاب بنانے کے ضابطے موجود ہیں۔ یہ ایسی عظیم الشان نعمت ہے، جس کے بارے میں دسویں سورة کی اٹھاونویں آیت میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:” آپ کہئے! اللہ کا فضل اوراسکی رحمت ہے (کہ اس نے تمہاری طرف ایسی روشن کتاب نازل فرمائی) ، سو چاہئے کہ تم اس پر خوش ہوجاؤ۔ یہ بہتر ہے ان تما م چیزوںسے، جو دوسرے لوگ جمع کررہے ہیں۔ “

اتنی زبردست نعمت سے متمتع ہونے کے باوجود ہم میں شکر کے جذبات پیدا نہ ہوں تو اِس سے بڑھ کر بد بختی اور کیا ہوگی۔!!!کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم الکتاب سے اپنا رشتہ مضبوط کرلیں، اسکے احکامات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے مطابق اپنی عملی زندگی میںادا کرنے کی کوشش کریں۔ انسانیت کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی کتاب کے امین بنائے جانے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہم کب ادا کریں گے۔؟ بغیر کسی کمی بیشی کے اِس امانت کو اپنے مالک کے تمام بندوں تک پہنچانے کا کام ابھی ہم پر ایک قرض ہے۔کیا انسانیت کے اِس قرض کی ادائیگی کا احساس ہم میں کبھی جاگے گا بھی کہ نہیں؟:
کس لیے آج بھی ریشم کے غلافوں میں رہے
یہ امانت ہے زمانے کی امانت دیجے

رب کی معرفت اِسی میں پنہاں ہے۔ ہمارے محاسبے کا سامان اسی میں ہے۔ ہماری کوتاہیاں توبہ اوراستغفار کی محتاج ہیں۔ اب تو ہمارے لیے رب سے معافی ضروری بن گئی ہے۔ شرمساری اور ندامت سے لبریز دل خدا کے حضور پیش کیے جانے کی اب باری آگئی ہے۔ رب تعالیٰ :....آپ الغفار ہیں، الرحمن اور الرحیم ہیں، ہمیں معاف کردیجئے۔ ہم اپنے دل کی عمیق ترین گہرائیوں سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔بے رہ روی کی زندگی گزارنے کے بعد ہم آپ سے رجوع ہونے کو حاضر ہیں۔ ہماری خطاﺅں سے درگزر کر دیجئے۔ ہمیں اپنی رحمت کا سایہ عاطفت عطا کیجئے۔ ہم اپنے قلب کی صفائی چاہتے ہیں۔ کدورت، انا، حسد، ضد اور شرارتِ نفسی ،کثافتِ ذہنی،شرورِ اندروں و بیروں سے آپ کی پناہ چاہتے ہیں۔ شیطان مردودکے شر انگیزیوں سے پناہ طلب کرتے ہیں، ہمیں پناہ دے دیجئے۔ جسے آپ پناہ عنایت فرمادےں تو اس سے بہتر جائے پناہ ، اس سے بہتر Refuge کہیں ممکن نہیں اور جسے آپ کی سیکوریٹی حاصل نہیں اسے کوئی جائے پناہ مل نہیں سکتی۔باری تعالےٰ! ہماری دنیا حسین بنادیجئے اورہمیں آخرت میں بھی کامیابی سے سرفراز فرما دیجیے۔ ، آمین۔
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 76308 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.